ہماری نیتیں خراب ہیں!

April 23, 2018

موجودہ اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے میں صرف چالیس دن باقی ہیں،ایسے میں سیاسی صورتحال کی جو شدت ہے اُس سے تو لگتا ہے کہ شاید الیکشن کا انعقاد ابھی ممکن نہ ہو مگر ایک طرف ’’ سیاسی پرندوں ‘‘ کی ہجرت ، دوسری طرف جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی آوازوں نے ان خبروں کی تصدیق کر دی ہے کہ الیکشن ہو رہے ہیں لیکن کچھ لیٹ ہو سکتے ہیں۔ الیکشن کے قریب جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے دس پارلیمنٹرین نے پارٹی اور اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے ’’ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ‘‘ کے نام سے نیا اتحاد بنا لیا ہے ، جسکے چیئرمین سابق نگران وزیراعظم بلخ شیر مزاری ، صدر خسرو بختیار اور جنرل سیکرٹری طارق بشیرچیمہ ہیں ۔ انکا کہناہے کہ جنوبی پنجاب اور لاہور کے درمیان فرق سے لوگوں میں احساس محرومی بڑھتا جا رہا ہے۔ پچھلے تیس برس سے جنوبی پنجاب کے عوام غربت اور جہالت کا شکار ہیں ۔ یہاں غربت کی شرح 51فیصد ہے ۔ ہمیں وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی نہیں مل رہی ، اسوقت وفاقی ملازمتوں میں جنوبی پنجاب کی نمائندگی 5فیصد ہے ۔ تعلیم و صحت ، روز گار ، پینے کے صاف پانی ، علاج معالجے کی سہولتوں کے حصول میں پنجاب کے دیگر علاقوں کی نسبت محرومیت کا شکار ہے۔ جنوبی پنجاب اور دیہی علاقوں کے فنڈز کے ایک ارب 17کروڑ روپے سے زائد لاہور میں خرچ کر دیئے گئے ۔ اسلئے انتظامی بنیادوں پر جنوبی پنجاب علیٰحدہ صوبہ بنایا جائے— اگر ان وجوہات کو سامنے رکھیں تو کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت نہیںجو اس صوبہ کی مخالفت کریگی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعتا نیا صوبہ بنانا چاہتے ہیں یا صرف الیکشن ا سٹنٹ کے طور پر ایک بار پھر وہاں کے لوگوں کا استحصال کرینگے۔ کیونکہ جب بھی الیکشن قریب ہوتے ہیں، سیاسی پارٹیاں ووٹ لینے کیلئے نیا شوشہ چھوڑ دیتی ہیں۔ مشرف دور کے آخر ی دنوں میں جنوبی پنجاب کے صوبےکی بات کی گئی تھی تو پھر پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2011ء کے آخر میں یہ نعرہ لگایا، یہاں تک کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے عوامی جلسوں میں خوشخبری دی کہ سرائیکی صوبہ بن کر رہے گا ۔ اگر تحت ِلاہور نے رکاوٹ ڈالی تو چھین لیںگے ، آصف زرداری جذبات میں آکر یکجہتی کیلئے ملتان گئے اور فوری طور پر سرائیکی بنک کے قیام کے اعلان کیساتھ ساتھ وزیراعظم کو ہدایت کی کہ ایک مہینے کے اندر اندر عملی طور پر قائم کر دیا جائے ، لیکن کوئی عمل صورت نہ نکلی ۔
دوسری اہم ترین دلیل یہ ہے کہ پاکستان کی کل آبادی 21کروڑ 70لاکھ میں سے تقریبا ً 12کروڑ پنجاب میں رہتی ہے اور جنوبی پنجاب کی تین ڈویژن ، ڈی جی خان ، بہاولپور اور ملتان کی کل آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے۔ جبکہ دنیا کے صرف گیارہ ملکوں کی آبادی پنجاب سے زیادہ ہے ۔ پوری دنیا میں چھوٹے صوبے بنانے کا مقصد یہ ہے کہ عوام کو ریلیف دیا جاسکے،یہاں تک کہ بھارت میں1947ء میں 9صوبے تھے اور اب 29ریاستیں اور 7وفاقی علاقے ہیں جبکہ جنوبی امریکہ کے ملک پیرو کی آبادی جنوبی پنجاب جتنی یعنی ساڑھے تین کروڑ ہے اور وہاں 195صوبے ہیں اگراس دلیل کو سامنے رکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ صوبوں کی تعداد بڑھنی چاہئے،لیکن کیا’’ جنوبی پنجاب صوبہ مخاذ‘‘ کے پلیٹ فارم سے آواز اٹھانیوالے واقعتا سنجیدہ ہیں، اس کیلئے انکی کریڈیبلٹی یا ماضی کے کردار کو دیکھنا ہوگا۔ اس محاذ میں شامل افراد کے حوالے سے یہ سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ پونے پانچ سال حکومت میں رہے اس دوران آج تک نہ انہوں نے آواز اٹھائی اور نہ ہی اسمبلی میں کوئی قرار داد لیکر آئے یا کوئی توجہ دلائو نوٹس ہی دیا ۔ اب چونکہ الیکشن قریب ہیں اور اور ان کوماضی کی طرح نئی آنیوالی حکومت میں شامل ہوناہے چونکہ آئندہ ن لیگ کے حکومت میں آنے کے امکانات نظر نہیں آرہے ، اسلئے جنوبی پنجاب کو بہانہ بنا کر ن لیگ کوچھوڑ کر سامنے آگئے، ابھی بجٹ اور پھر نگراں حکومت بنتے ہی مذید 35کے قریب پارلیمنٹرین اس محاذ میں شامل ہو جائینگے اوریہ ہم خیال سیاسی جماعتوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے الیکشن جیتیں گے۔
جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام پارلیمنٹرین وفاداریاں بدلنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں، ان میں شاہ محمود قریشی ، جہانگیر ترین ، جاوید ہاشمی ، سردار ذوالفقار کھوسہ،غلام مصطفی کھر، اویس لغاری، خسرو بختیار اور نصر اللہ دریشک جیسے سیاستدان بھی شامل ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو 2002ء سے اب تک جنوبی پنجاب کے 16اضلاع کے تقریباً 99فیصد سیاستدانوں نے وفاداریاں تبدیل کیں۔ صوبائی اسمبلی کے 120ارکان میں سے 106اور قومی اسمبلی کے 64میں سے 57ارکان نواز شات کے حصول کیلئے پارٹیاں بدلتے رہے ، دلچسپ بات یہ ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں ن لیگ نے جن 100سے زائد ارکان کو پارلیمنٹ کے ٹکٹ دیئے وہ ایک وقت میں ق لیگ اور پیپلز پارٹی کے وفادار تھے۔ ان سیاستدانوں کی فہرست میں سکندر حیات بوسن ، پیر رفیع الدین بخاری ، عاشق حسین بخاری ، سید فخر امام ، اختر خان کانجو ، سعید منہیس ، حفیظ الرحمن دریشک ، خالد گورمانی ، عباد ڈوگر ، سردار جعفر لغاری ، عبداللہ شاہ بخاری ، مخدوم زادہ حسن علی، خادم وٹو ، نجیب اویسی ، عالم داد لالیکا ، عبدالستار لالیکا ( مرحوم ) وغیرہ شامل ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ حکمراںسیاسی جماعتیں انکو لالی پاپ دیتی رہیں، اسلئے وہ اب کسی جماعت میں شامل ہونیکی بجائے صوبہ محاذ کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیں گے۔ لیکن اب الیکشن جیتنے کے بعد بھی جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی راہ ہموار ہونے کی بجائے مزید دشوار ہو جائیگی۔ کیونکہ نیا صوبہ بنانے کیلئے آئین میں جو طریقہ کار درج ہے اسکے مطابق متعلقہ صوبہ کی صوبائی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے قرار داد پاس ہوگی پھر قومی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے پاس ہونے کے بعد سینیٹ سے بھی پاس کرانا لازمی ہے ۔ لیکن افسوس کہ جنوبی صوبہ مخاذ جیتنے کے بعد نہ تو صوبائی اسمبلی اور نہ ہی قومی اسمبلی سے قرار داد پاس کراسکتا ہے ،اسلئے یہ بالکل ناممکن نظر آتا ہے ۔
2002ء کے الیکشن کے بعد جب پنجاب اور مرکز میں ق لیگ کی حکومت تھی تب ممکن تھا مگر ہر کسی کے مفادات آڑے آئے اور جو نہی پنجاب کو تقسیم کرنیکی بات ہوئی تو کے پی کے میں ہزارہ صوبہ ، سندھ میں کراچی کو صوبہ بنانے اور پھر ملک بھر میں ایک نیا پنڈورا باکس کھل جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو ہماری نیتیں خراب ہیں، اگر ہم نیت درست کرلیں اور یہ بات دماغ میں بٹھا لیں کہ انتظامی طور پر زیادہ صوبے بننے سے وفاق کمزورنہیں بلکہ مذید مضبوط ہوگا لیکن چونکہ اس سے عام آدمی کو ریلیف ملنے کے امکانات زیادہ جبکہ سیاستدانوںاوربیوروکریٹس کےاختیارات کم ہوجائیں گے اسلئے دلی طور پر کوئی بھی سیاسی جماعت یہ کام کرنے کیلئے تیار نہیں ، اسوقت سب سے اہم اور آخری موقع ہے اب بھی 40دن اسمبلیاں ختم ہونے میں باقی ہیں ۔ پنجاب اور مرکز میں ن لیگ کی حکومت ہے اگر یہ اپنے آپکو تاریخ میں زندہ رکھنا چاہتی ہے اور دوسری سیاسی جماعتیں واقعتا اس ایشو پر مخلص ہیں تو پھر نئے صوبے کا قیام دو دن میں ممکن ہے ۔ پنجاب اسمبلی جنوبی پنجاب کو نیا صوبہ اور بہاولپور صوبہ کی بحالی کی قرار داد پاس کر چکی ہے۔ اب یہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس کرانی ہے۔بہاولپور صوبہ کی بحالی ایک ایگزیکٹو آرڈر سے ممکن ہے ۔ اس کیلئے جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر وسیم اختر پنجاب اسمبلی میں 16مرتبہ قرار داد جمع کراچکے ہیں مگر پیش کرنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔ لیکن سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ یہ مسئلہ حل ہو گیا تو الیکشن میں جانے کیلئے انکے پاس کوئی ایشو نہیں ہوگا ۔ مگر اب ملک میں انتظامی بنیادوںپر نئے صوبے بنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔ اسلئے بھارت کی طرز پر موجودہ اسمبلی کے ذریعے قانون سازی کر کے ایک کمیشن بنایا جائے جس کو یہ مینڈیٹ حاصل ہو کہ نئی مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں ملک بھر میں نئے صوبوں کی ضرورت کے مطابق کام سرانجام دے۔ اگر ہم ملکی مفاد میںکام کرنیکی بجائے ذاتی مفادات کیلئے لڑتے رہے تو پھر وفاق کو نقصان پہنچے گا ۔ کیاہم ملکی مفاد کیلئے اپنی نیتوں کو درست کر سکتے ؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)