نعرے نہیں عمل چاہئے

April 24, 2018

ماضی کی ناکامیوں کے دکھ پھرولے جارہے ہیں۔ زخموں پر نمک پاشی کی جارہی ہے۔ گلے شکوے، منت سماجتیں ہورہی ہیں۔ مستقبل کے سہانے خواب دیکھے اور دکھائے جارہے ہیں۔ وعدے ہو رہے ہیں، یقین دہانیاں کرائی جارہی ہیں۔ موسمی پرندے بھی حالات کی شدت سے تنگ سیزنل نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ چالاک شکاری مچانوں پر بیٹھے ان پرندوں کو دھڑا دھڑ ڈھیر کررہے ہیں۔ یہ ہے ہماری آج کی انتخابی سیاست کا چلن کہ ہر سیاسی رہنما پردہ اسکرین پر چھا جانے کی توقع کے ساتھ نئے بہروپ دھارے بیٹھا ہے اور ہر صورت اپنی سیاسی فلم ہٹ کرنے کی خواہش پر نت نئے دعوے کر اور نعرے لگا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے انتخابی نعروں کا یہ چلن پرانا ہے۔ بھلے وقتوں میں یہ نعرے بامعنی اوربامقصد ہوتے تھے مگر آج محض سودے بازی کا ایک ہتھیار، جن کو بیچ کر بھولے لوگوں کو خریدا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے آج تک روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کی کمائی کھائی مگر اب یہ نعرہ پیپلزپارٹی بیچنا چاہتی ہے نہ ہی یہ بکے گا۔ اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کے نعرے ’’سوشلزم ہماری معیشت، اسلام ہمارا دین اور طاقت کا سر چشمہ عوام‘‘ نے بھی اپنا رنگ دکھایا، ضیاء دور میں ’’مرد مومن مرد حق، ضیاء الحق ضیاء الحق‘‘ اور اس کے جواب میں پیپلزپارٹی کے نعرے ’’بھٹو ہم شرمندہ ہیں، تیرے قاتل زندہ ہیں‘‘ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور سے قبل ’’ضیاء جاوے ای جاوے‘‘ اور بعدازاں ’’یا اللہ یا رسول بے نظیر بے قصور‘‘ کے نعرے پاکستان کی سیاسی فضائوں میں گونجنے رہے۔ نواز شریف کا مقبول نعرہ ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ اور پرویز مشرف کے نعرہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ نے اپنے اپنے ادوار میں سیاسی رنگ جمائے رکھا۔ امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی امارت کے دور میں ’’ظالمو! قاضی آرہا ہے‘‘ ایسا مقبول ہوا کہ زبان زدِ عام ہوگیا۔ پھر عمران خان کا نعرہ ’’آئو مل کر بنائیں ایک نیا پاکستان‘‘ نے نوجوانوں کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑا۔
2018 ء کے عام انتخابات کی آمد آمد ہے، سابق وزیراعظم نواز شریف ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نئے بیانیے کے ساتھ اپنی سیاسی بقا کی جنگ میں مصروف ہیں۔ پیپلزپارٹی ابھی اس کشمکش میں ہے کہ عوام کو کیا سودا بیچا جائے جبکہ عمران خان ’’آئو مل کربنائیں نیاپاکستان‘‘ سے نئے نعرے ’’دو نہیں ایک پاکستان، ہم سب کا نیا پاکستان‘‘۔ تک پہنچ گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دو پاکستان کیوں، پاکستان تو آزادی کے وقت سے ہی ایک تھا، ایک ہے اور ان شاء اللہ ایک ہی رہے گا، باقی رہا سوال نئے پاکستان کا تو نیا پاکستان کیوں، پاکستان تو وہی ہے البتہ اس کی پالیسی اور نظام میں بہتری لائی جاسکتی ہے تو بھی وہ نیا پاکستان نہیں ہوگا پاکستان تو پرانا ہی ہوگا۔ اگر ہم نعروں پر نگاہ ڈالیں تو یہ افسوسناک صورت حال سامنے آتی ہے کہ ہم عملی طور پر تو کیا ترقی کرتے، نعروں کی حد تک بھی ترقی نہ کرسکے بلکہ رو بہ زوال ہیں۔ پہلا نعرہ تحریک آزادیٔ پاکستان میں لگا۔ ’’پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الااللہ‘‘ یعنی ہم نے نعروں کا آغاز کلمے سے کیا ذرا سوچیں آج کہاں پہنچے؟ ’’آئو مل کر بنائیں نیا پاکستان‘‘ یا ’’ہم بچائیں گے پاکستان‘‘ ایسے نعرے کبھی بھی قوموں کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب نہیں کرتے اور ہمیشہ منفی سوچ کو فروغ دیتے ہیں۔ سمجھنے کی بات یہی ہے کہ ہر چیز کا روشن پہلو سامنے رکھا جائے تو منفی پہلو خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ جس نعرے کی بنیاد ہی تقسیم پر ہو وہ قوم کو یکجا کیسے رکھ پائے گا؟ البتہ نظام میں بہتری لانے کی کوئی تدبیریا نعرہ ہونا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں نئے پاکستان کی نہیں اپنے پیارے پاکستان کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور ہمیں اب یہی کچھ کرنا ہے اس کے لئے نعروں کی نہیںسوچ سمجھ کر مرتب کردہ پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ کوئی مثبت سلوگن دیں جو قوم کو امید کی کرن دکھائے اور اس کو عملی جامہ پہنانے میں آسانی ہو۔ خالی خولی نعروں سے اب قوم کا پیٹ بھرنے والا نہیں۔ خان صاحب کو چاہئے کہ عوامی سطح پر کوئی نعرہ بلند کرنے سے قبل اس کے الفاظ اور اثرات کی اہمیت پر ذرا غور کرلیا کریں۔ ایسا نعرہ نہ لگائیں جو مستقبل میں تلخیوں کا باعث بنے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ نعرے خاص وقت اور خاص دور میں تو کچھ نہ کچھ کام کر جاتے ہیں لیکن قوم اور عوام کو ہر وقت نعروں کے سحر میں بھی مبتلا نہیں رکھا جاسکتا۔ پاکستان کو معرض وجود میں آئے 70 برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا مگر بندۂ مزدور کے اوقات آج بھی تلخ ہیں اور ان کی زبان پر اقبال کا شعر اب بھی قوم وملت کے زعماء کو آواز دے رہاہے۔ ؎
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تیری منتظر اے روزِ مکافات
ملک کے بگڑتے ہوئے معاشی اور مالیاتی حالات اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کے زعماء اوران کے خصوصی معاونین اس امر پر غورکریں کہ اب قوم کو کھوکھلے نعروں کی ہرگز ضرورت نہیں۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ جس پر نواز لیگ الیکشن جیتنا چاہتی ہے شاید وہ بھی اتنا کار آمد ثابت نہ ہو ۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ ایک شخص کو ایک وقت میں بیوقوف بنا سکتے ہیں لیکن پوری قوم کو ہمیشہ کے لئے بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔2018ء کے انتخابات کی مہم بہت سنجیدہ ہونی چاہئے۔ ایسے نعروں سے گریز کیا جانا چاہئے جو آپ کے ماضی کی روح کی روش کے برعکس ہوں۔ نعرے لگانا ناگزیر ہے تو ایک نعرہ یہ بھی شامل کرلیں۔ ’’ہمیں ایک بار پھر معاف کردو‘‘ جب تک ارباب سیاست اپنی غلطیوں کا برملا اعتراف نہیں کریں گے ،ان کے بے معنی اور بے مقصد نعرے بھی ان کو ووٹ نہیں دلا سکیں گے جن کی ہتک اور توہین اہل سیاست کا طرۂ امتیاز رہی ہے کیونکہ ایک بار کا ڈسا بار بار نہیں ڈسا جاتا۔ میاں محمد شہبازشریف نے اب (ن) لیگ کی باقاعدہ قیادت سنبھال لی ہے اور عملی طور پر سندھ اور بلوچستان کے سیاسی محاذ پر متحرک نظر آتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ ’’ووٹ کو عزت دو ‘‘ میں ذرا سی ترمیم کرلیں بقول چیف جسٹس ’’ایک بستہ ایک اسکول ایک تعلیم۔ یہی ہے ووٹر کی تعظیم‘‘ توقع ہے اس سلوگن سے کچھ سیاسی بہتری کے امکانات پیدا ہوں گے۔ ووٹر بھی مطمئن اور صاحب اختیار بھی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)