یہ تِرابانکپن، یہ رعنائی..... رشکِ مہتاب تیری زیبائی

April 29, 2018

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: اریم خان

ملبوسات: ایزا لان سمر کلیکشن

آرایش: لَش بیوٹی سیلون

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آئوٹ: نوید رشید

پتانہیں کس کی غزل ہے، مگر پڑھ کے یہی لگا، جیسے ہماری آج کی ’’اسٹائل بزم‘‘ ہی کے لیے کہی گئی ہے ؎ وہ ہنستی آنکھیں، حسیں تبسّم، دمکتا چہرہ کتاب جیسا…دراز قامت ہے، سرو آسا، ہے رنگ کِھلتے گلاب جیسا…وہ دھیمے لہجے کے زیر وبم میں، پھوار جیسی حسین رِم جِھم…ہے گفتگو میںبہم تسلسل، رواں دواں سا چناب جیسا…کبھی وہ تصویر بن کے دیکھے، کبھی وہ تحریر بن کے بولے…وہ پَل میں گم صُم، وہ پَل میںحیراں، کسی مصّور کے خواب جیسا…وہ میرے جذبوں کی خوشنصیبی یا اُس کی چاہت کی انتہا ہے…کہ اُس کی آنکھوں میںعکس میرا نہاں عیاں سا، حجاب جیسا…پلٹ کے دیکھے تو وقت ٹھہرے، وہ چل پڑے تو زمانہ حیراں…وہ رشکِ امبر، وہ ماہِ کامل، وہ کہکشاں، وہ شہاب جیسا…کبھی وہ شعرو سخن کاشیدا، کبھی وہ تحقیق کا دوانہ…وہ میری غزلوں کا حُسنِ مطلع، مِرے مقالے کے باب جیسا۔

اسی طرح ایک ویڈیو دیکھی ’’10چیزیں…جن کا آپ کو عُمر گزر جانے کے بعد بے حد افسوس رہے گا‘‘

1۔ جب وقت اور موقع تھا، تب سفر نہیں کیا۔

2۔ عُمر بھر ناکام رشتے نبھانے کی کوشش میں لگے رہے۔

3۔ اپنے دل سے زیادہ اس بات کی فکر کی کہ ’’لوگ کیا کہیں گے…؟‘‘

4۔ چاہت و اُلفت کا اقرار و اظہار کرنے سے کتراتے رہے۔

5۔ زندگی کا بیشتر حصّہ کام کے لیے وقف رکھا۔

6۔ اپنی اولاد کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزارا۔

7۔ اپنے والدین کو زیادہ وقت نہیں دیا۔

8۔ جو کام، ملازمت مَن پسند نہیں تھی، مجبوراً کرتے رہے۔

9۔ جو بات دل کو خوشی، سُکون دیتی تھی، محض دوسروں کی خاطر ترک کردی، مَن مار لیا۔

10۔ اور …اپنی شخصیت، خوبیوں اور خُوب صُورتی کو پہچان نہ سکے۔ دوسروں کو جاننے پہچاننے کے جتن میں، اپنی اصل شخصیت سے لاتعلق، نا آشنا ہی رہے۔ تو اور کچھ نہیں، تو اپنی ذات کی شناخت کا عمل تو آج ہی سے شروع کردیں۔ کم از کم اتنی خبر تو خود سے متعلق ہر ایک ہی کو ہونی چاہیے کہ درحقیقت کون سا عمل دل کو بہت زیادہ خوش، کون سا ناخوش کرتا ہے۔ کون سی بات مَن کو پُرسکون، شانت کرجاتی ہے، تو کون سی روح تک گھائل۔ عمومی طور پر بیٹیاں، بچپن ہی سے کبھی والدین، نانی، دادی کے حُکم پر، کبھی بڑوں کی روک ٹوک کےخوف سے، تو کبھی چھوٹے بہن بھائیوں کی محبت یا پھر خود ہی پر اعتماد اور اعتبار کی کمی کے باعث اپنی کئی جائز، چھوٹی چھوٹی، معصوم اور بے ضرر خواہشات بھی پسِ پشت ڈالتی، رَد کرتی چلی جاتی ہیں اور پھر یہ خود کو نظر انداز کرنے کی عادت گویا فطرتِ ثانیہ بن جاتی ہے۔ بلاشبہ، اپنیخوشی قربان کرکے کسی دوسرے کی آنکھوں میں مسّرت کے دِیے جلانا انتہائی قابلِ قدر امر، قابلِ ستایش وصف ہے، لیکن خوشیوں، جذبوں کی یہ بھینٹبھی وہیںدینی چاہیے، جہاں واقعتاً ضرورت ہو۔ بےسبب، بلا ضرورت، ہر وقت ہر جگہ اور ہر ایک کے لیے خلوص و وفا، ایثار و قربانی کا پیکر بن کے ہر دَم تن مَن دھن وارنے کو تیار رہنا قطعاً کوئی دانشمندی نہیںکہ ضرورت سے زیادہ اخلاص، نیک نیّتی و نیک دِلی بھی دوسروں کو مغالطے میں ڈال دیتی ہے۔ لوگ بے غرضی و سادگی کا فائدہ اٹھانے لگتے ہیں۔ نیز، خود شناسی و خود آگہی کا عمل بھی وہیںکہیں رُک جاتا ہے۔ دوسروں کو خوش کرتے کرتے، ہم خود کو خوشکرنا، خوش رہنا یک سَر بھول ہی جاتے ہیں۔ اور یہ بھی کوئی بہت قابلِ فخر بات نہیں کہ انسان پر سب سے پہلا حق تو خود اس کی ذات ہی کا ہوتا ہے۔

ہماری ذات کے ہم پر بہت سے حقوق کے ساتھ ایک اہم حق یہ بھی ہے کہ ہمیںپتا ہونا چاہیے کہ ہم پر کیا سجتا پَھبتا، کِھلتا اُٹھتا، بہت اچھا لگتا ہے۔ کون سے رنگ و انداز ہماری شخصیت کو کچھ اور بھی سنوارتےنکھارتے، حسیں سے حسین تر بناتے ہیں کہ اپنی شخصیت کی خوبیوں، خامیوں کو پہچاننا، اِس ناتراشیدہ ہیرے کو تراشنا ہمارا ہی کام ہے۔ ہاں، اگر کسی کی ہنستی آنکھیں، حسیں تبسّم، کتاب جیسا دمکتا چہرہ ہے۔ کوئی دراز قامت، سَرو آسا، کِھلتے گلاب جیسی رنگت کا حامل ہے، تو اس کے رُوپ سروپ سے یقیناً کچھ ایسے ہی رنگ و انداز، ناز و ادا، زیبایش و آرایش میل کھائے گی، جیسی آج ہماری بزم کا حصّہ ہے۔

ذرا دیکھیے تو، لان اور کاٹن کے رنگا رنگ، حسین و دل نشین پہناووں نے ہماری آج کی محفل کو کیسے چار چاند لگا رکھے ہیں۔ ملبوسات کے اسٹائلز تو جداگانہ ہیں ہی، اندازِ بناوٹ (اِسٹچنگ) کا بھی کوئی جواب نہیں۔ مِڈ نائٹ بلیو رنگ کے ساتھ اورنج کی ہم آمیزی میںپرنٹڈ شرٹ، دوپٹے اور پلین ٹرائوزر کا جلوہ ہے، تو ڈارک بسکٹی رنگ کے ساتھ گلابی کا امتزاج لیے ایک خُوب اسٹائلش سا لُک بھی ہے۔ عنّابی اور سیاہ کے کامن سے کامبی نیشن میںٹسلز کی آرایش نے خاصی ندرت پیدا کی ہے، تو ایسی ہی کچھ جدّت ٹرکوائز اور آف وائٹ کے تال میل میںبھی نظر آرہی ہے اور فون رنگ کے ساتھ آتشی گلابی کے اِک منفرد سے امتزاج میںبوٹ نیک گلے اور فِرل نما آستینوں کی دل کشی و دل آویزی کے تو کیا ہی کہنے۔

خود کو جان پہچان لیں اور پھر شخصیت سے عین ہم آہنگ آرایش و زیبایش، بنائو سنگھار بھی ہو، تو آئینہ دیکھ کر لبوں سے کچھ ایسے ہی اشعار پھسلتے ہیں ؎ یہ تِرا بانکپن، یہ رعنائی…رشکِ مہتاب تیری زیبائی…حُسن تیرا عجب کرشمہ ہے…ایک عالم بنا تماشائی…اِک رُوئے حسیں نظر آیا…اب چراغوں میں روشنی آئی۔