ونڈرش جنریشن …!

April 27, 2018

ڈیٹ لائن لندن …آصف ڈار
برطانیہ میں زیرزمین (انڈرگرائونڈ)اور اوورگرائونڈ ٹرینیں چلانے کے تمام بنیادی کام، فیکٹریوں کی چمنیوں کو رواںدواںرکھنے، بلند و بالا عمارتیں بنانے اور دوسرے انتہائی سخت جان کام کرنے کے لئے کریبین اور افریقی ممالک سے افرادی قوت کو لانا اس ملک کی مجبوری بن چکی تھی کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کے اندر مردوں کی تعداد بہت کم ہوگئی تھی۔ افرادی قوت کی کمی کو پورا کرنے کے لئے جہاں برطانوی حکومت نے برصغیر پاک و ہند سے لوگوں کی آمد کی حوصلہ افزائی کی وہاں کریبین ممالک کے لوگوںکو خاص طور پر انڈرگرائونڈ بنانے اور دوسرے مشکل کاموں کیلئے برطانیہ لایا گیا کریبین ممالک سے 1948 سے 1971کے دوران برطانیہ لائے گئے امیگرنٹس کو ونڈرش جنریشن (Windrush Generation)کہا جاتا ہے مزدور پیشہ ان سادہ لوح افراد کو امیگریشن قوانین کی پیچیدگیوں کے بارے میں علم ہی نہیں تھا اور نہ ہی یہ پتہ تھا کہ جس ملک کے لئے انہوں نے اپنی ساری زندگی تیاغ دی وہیں سے انہیں بالآخر آخری عمر میں نکالا جائے گا۔ ان لوگوں نے اسی ملک کو اپنا گھر بنایا اور ان کی اکثریت نے کبھی واپسی جمیکا، ترنیداد، ٹوباگو اور دوسرے جزیروں میں جانے کا نام بھی نہیںلیا۔ انہیںیہ بھی معلوم نہیں کہ آیا ان جزیروں میںاب ان کا کوئی منتظر ہے بھی کہ نہیں۔ جنہوں نے اپنے ممالک کے ساتھ رابطے بحال رکھے انہوں نے شہریت بھی حاصل کی اور پاسپورٹس بھی بنوائے مگر اس نسل سے تعلق رکھنے والی بھاری اکثریت نے برطانوی شہریت حاصل نہ کی اور یہی سمجھا کہ چونکہ انہیں اس ملک میںلایا گیا تھا اس لئے وہ ازخود یہاں کے شہری بھی بن گئے ہوںگے۔ انہیںیہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اب برطانیہ سمیت یورپ کے تقریباً تمام ممالک میںامیگرنٹس کے لئے زمین تنگ کی جاری ہے۔ برطانیہ میںگزشتہ کئی برس سے پاکستان اور دوسرے ایشیائی ممالک کے افراد کی پکڑ دکھڑ اور انہیںڈی پورٹ کرنے کا سلسلہ خاموشی سے جاری تھا۔ اس کے خلاف کوئی بہت زیادہ آواز بھی نہیں اٹھائی گئی تاہم اب کریبین ممالک کی ونڈرش نسل کو جس طرح امیگریشن حکام نے آڑے ہاتھوں لیا اور ان کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کیا تو برطانیہ بھر میںطوفان برپا ہوگیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اپوزیشن ہم آواز ہوکر اس کی مذمت کررہی ہیں۔ یہ کہاںکا انصاف ہے کہ 50/60سال سے برطانیہ میں رہنے اور کام کرنے والوں کو یہ کہا جائے کہ چونکہ وہ اس ملک کے باشندے نہیںہیں اس لئے یہاںسے نکل جائیں وگرنہ انہیںزبردستی نکالا جائے گا۔ ان افراد کو نہ صرف ملازمتوں سے برطرف کردیا گیا بلکہ ان کی میڈیکل تک رسائی بھی محدود کردی گئی اس معاملہ کو پارلیمنٹ میںلے جانے اور شدید احتجاج کے بعد اب حکومت نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں اور ان تمام افراد کو فوری طور پر برطانوی شہریت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان سے شہریت کے لئے ہزاروںپونڈ کی فیس لی جائے گی نہ ہی انہیں کوئی انگلش ٹیسٹ دینا ہوگا۔ یہ سکیم صرف ونڈرش جنریشن کے لئے نہیں بلکہ اسی دور میں دولت مشترکہ سے آنے والے ان تمام افراد پر بھی لاگو ہوگی جنہوںنے شہریت حاصل نہیں کی۔1971سے پہلے برطانیہ آنے والوں میں ایک بڑی تعداد پاکستانیوں کی بھی ہے، جنہوں نے پکڑے جانے کے ڈر یا پھر کم علمی کی بنیاد پر برطانوی شہریت حاصل نہیںکی۔ مجموعی طور پر ایسے امیگرنٹس کی تعداد 57ہزار سے زیادہ بتائی گئی ہے جن میں انڈیا کے امیگرنٹس بھی ہیں۔ تاہم اب یہ امید کی جارہی ہے کہ ان سب افراد کو برطانوی شہریت مل جائے گی، البتہ وزیراعظم تھریسامے یہ بھی چاہتی ہیں کہ صرف ان افراد کو فوقیت دی جائے جنہوںنے برطانیہ میں کام کیا اور معاشرے میںمثبت کردار ادا کیا ہے۔ ٹوری پارٹی نے8برس پہلے اقتدار سنبھالتے ہی امیگریشن قوانین کو سخت کرنے کا اعلان کیا تھا، قوانین کے بننے کے بعد کم از کم پاکستان جیسے ممالک سے کام کرنے اور خاندان میںشامل ہونے کے لئے آنے والوںپر سخت پابندیاں لگادی گئی ہیں۔ بچوں کی پاکستان میں شادیوں کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے، پاکستان سے سٹوڈنٹس کی آمد کا سلسلہ تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ ورک ویزے بھی جاری نہیں کئے جارہے، اس کے مقابلے میںبھارت سے افرادی قوت بڑی تعداد میں برطانیہ آرہی ہے۔ بھارتی باشندوں کو ویزے حاصل کرنے میںبھی دشواری کا سامنا نہیںکرنا پڑتا۔سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے باشندوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟ اگر برطانوی حکومت کا موقف ہے کہ وہ ویزے دینے میںکسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرتی تاہم عملاً دیکھا جائے تو ایسا نہیںہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ برطانیہ بھی بھارتی باشندوں کو اس کی مضبوط معیشت اور بہترین خارجہ پالیسی کی وجہ سے فوقیت دیتا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان کی معیشت مضبوط ہے اور نہ ہی کوئی خارجہ پالیسی۔