خواتین کے نام

April 30, 2018

پچھلے کئی دنوں سے خواتین اور بچیوں کیساتھ ظلم و زیادتی کی روح فرسا خبریں تواتر کے ساتھ آ رہی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہم زمانہ جاہلیت کی طرف پھر لوٹ رہے ہیں جب بچیوں کی ایک بڑی تعداد کو پیدا ہوتے ہی یا تو قتل کردیا جاتا تھا یا زندہ در گور کرکے ان سے جان چھڑائی جاتی تھی۔بھارت میں تو ماں کے پیٹ میں ہی بچیوں کو قتل کرنے کا رواج کئی دہائیوں سے جاری ہے، اگرچہ حکومت کی جانب سے اس حوالے سے سخت قانون سازی بھی کی گئی مگر اسکے باوجود یہ قبیح عمل بڑھتا ہی جارہا ہے،افسوس کہ قتل و غارتگری کا یہ رواج اب پاکستان میں بھی تیزی سے عام ہورہا ہے،حالیہ خبروں کے مطابق صرف کراچی شہر میں ایدھی فاؤنڈیشن نے گزشتہ سال لگ بھگ ساڑھے تین سو کے قریب نو زائد بچیوں کی لاشیں کچرے کے ڈھیرسے اٹھائیں جبکہ رواں سال کے پہلے چار مہینوں میں شہر قائد میں ہی انھوں نے ستر سے زائد ایسی لاشیں دفنائیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومت کیساتھ ساتھ علماء کرام بھی اس معاملے پر روک لگانے یا لوگوں میں شعور بیدار کرنے میں کوئی خاص سنجیدگی نہیں دکھا رہے۔ پاکستان میں جہاں سیاستدان اپنی کرسیاں اور لوٹی ہوئی دولت بچانے میں مصروف ہیں وہیں بعض علماء کرام لوگوں کی تربیت سے یکسر غافل ہیں، یہی حال مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں کا ہے، معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلی خرابیوں کا ادرک اور انکو حل کرنے کیلئے نہ انکے پاس وقت ہے اور نہ ہی یہ انکی ترجیحات میں شامل ہے۔
صرف پچھلے ایک ہفتے کے دوران اخباری اطلاعات کے مطابق خواتین کے بہیمانہ قتل کے نصف درجن سے زیادہ واقعات رونما ہوئے جو مقامی سطح پر قانون کی حکمرانی کی خراب ہوتی ہوئی صورتحال کے عکاس ہیں دارالحکومت اسلام آباد میں غفور نامی شوہر نے صرف اس بنیاد پر اپنی بیوی مسّرت بی بی کو ذبح کردیا کہ وہ اسکی رقم سے بنائے گئے گھر کو فروخت کرنا چاہتا تھا جس پر مقتولہ نے عدالت میں اپنے شوہر پر کیس دائر کیا تھا،جائیداد کے تنازعات میں عورتوں کو اکثر اسلئے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ مسلمان مرد واضح قرآنی احکامات کے باوجود انہیں جائیداد میں حصہ نہیں دینا چاہتے،اسی طرح کے ایک اور تنازع میں ہنگو میں دیور نے اپنی بھابی کو قتل کردیا،جنسی تشدد کے یا اس سے جڑے واقعات میں بھی کافی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے سیالکوٹ میں ایک اندوہناک واقعے میں رضوان گجر نامی شخص نے ایک عیسائی خاتون اسماء یعقوب کو اس وجہ سے جلاکر قتل کر ڈالا کہ وہ اس سے شادی کیلئے راضی نہیں تھی،بھارت کے برعکس پاکستان میں حکومتی اور عوامی دونوں سطحوں پر اس طرح کے واقعات کو کبھی بھی سپورٹ نہیں ملتی اور یہی وجہ ہے کہ مجرم کو جلد گرفتار کرلیا گیا،مگر مقامی عدالتوں میں مجرمین پولیس اور سیاستدانوں کیوجہ سے ملنے والی نیم رضامندی کیوجہ سے اکثر بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، ڈہرکی حیدرآباد میں ابھی چند دن پہلے ہی ایک دس سالہ لڑکی کے ساتھ زیادتی کا واقع سامنے آیا،اطلاعات کے مطابق ملزم کو پانچ دن حراست میں رکھنے کے بعد پولیس نے بھاری رشوت لیکر چھوڑ دیا جس پر ورثا نے سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج کرنے کی دھمکی دی ہے، سیاستدانوں کی جانب سے مسلسل حملوں کا نشانہ بننے کے باوجود لوگوں کا بڑی عدالتوں پر اعتماد جہاں ایک طرف کافی مثبت ہے وہیں یہ دوسری طرف سیاست زدہ پولیس سے بڑھتی نا امیدیوں کا مظہر بھی ہے، ان حالات میں چیف جسٹس عزت مآب میاں ثاقب نثار صاحب کی جانب سے خواتین پر بڑھتے ہوئے تشدد پر از خود نوٹس لینے کا عمل نہایت مفید ہے،آپ نے چند دن پہلے فیصل آباد میں سات سالہ معصوم بچی سے زیادتی کے واقعہ کا از خود نوٹس لیکر آئی جی پنجاب سے تین دن میں رپورٹ طلب کی، اس سے پہلے آپ نے جڑانوالہ میں ایک اور بچی سے زیادتی کے بعد قتل کا نوٹس لیا تھا۔
خواتین کی صورتحال میں اصلاح کیلئے تعلیم ہی بہتر ذریعہ ہوسکتی ہے جس سے وہ ایک طرف اپنی معاشی اور سماجی صورتحال میں سدھار لاسکتی ہیں وہیں وہ اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے تعصب سے بھی نپٹ سکتی ہیں، لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے پورے ملک میں حالات نا گفتہ بہ ہیں کیونکہ ان کی لگ بھگ پچاس فیصد آبادی تعلیم سے محروم ہے، پنجاب میں حکومت کے لندن اور پیرس بنانے کے دعوؤں کے باوجود حالات حوصلہ افزا نہیں ہیں، ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق صوبے میں پچاس لاکھ سے زیادہ بچیاں اسکولوں سے باہر ہیں جو کسی بھی صورت ملک یا خواتین کے مستقبل کے لئے خوش آئند نہیں ہے۔
ضمیمہ:خواتین کے حوالے سے کچھ اچھی خبریں بھی مل رہی ہیں. لوئر دیر کی تحصیل بلامبٹ کے ولیج کونسل کے حالیہ انتخابات میں جماعت اسلامی سے وابستہ ایک خاتون کامیاب ہوکر نائب ناظم منتخب ہو گئی،اطلاعات کے مطابق علاقے میں جماعت خواتین کی جانب سے حق رائے دہی کو استعمال کرنے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر کام کر رہی ہے اور اس سلسلے میں آنے والے پارلیمانی انتخابات میں ایک خصوصی مہم چلانے کا ارادہ رکھتی ہے، یہ ایک قابل قدر اقدام ہے کیونکہ یہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کی جانب ایک اچھا قدم ہے جس سے مقامی سطح پر جمہوریت مضبوط ہوگی۔
پس نوشت:چند دن پہلے بھارتی ویب سائٹ دی پرنٹ ڈاٹ ان پر تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی سابقہ بیوی ریحام خان کی جلد ہی آنے والی کتاب کا ایک اقتباس نظروں سے گزرا۔ اس میں وہ جہاں خان صاحب کیساتھ بنی گالا میں مقیم کتوں کا ذکر بڑی صراحت سے کرتی ہیں وہیں وہ میکسیمس نامی اپنے بیلجین شیفرڈ کا ذکر بھی دل موہ لینے والے انداز سے فرماتی ہیں۔ لگتا ہے کہ شادی کے بعد جہاں وہ عمران خان کے گھر اور سیاسی جماعت میں اپنا ایک مقام بنانے کیلئے سرتوڑ کوششیں کرتی رہیں وہیں وہ اپنے کتے کو بھی اپنا شایان شان مقام دلانے کی جدوجہد میں مصروف تھیں،اس اقتباس کے مطابق وہ اپنے کتے کی حد تک تو ان کوششوں میں کامیاب بھی ہوتی نظر آتی ہیں کیونکہ عمران خان نے فوراً اپنے کتوں کا ساتھ چھوڑ کر میکسیمس کو وہ مقام دیا کہ وہ اپنی خواب گاہ میں ساتھ سونے کے شرف سے نوازتے رہے،افسوس کہ جب طلاق ہوئی تو ریحام اپنی چیزوں کیساتھ اپنے کتے کو بھی لے گئیں جس سے عمران کی تنہائی میں اضافہ ہی ہوا ہوگا۔ اس اقتباس میں ریحام اپنے بارے میں یہ دلچسپ انکشاف بھی کرتی ہیں کہ 2013 میں جب وہ بنی گالا میں تحریک انصاف کے سربراہ کے کتے شیرو سے ملیں تو وہ بلا تاخیر نئی بیگم خان کی محبت میں گرفتار ہوگیا۔ مگر بقول مصنف وہ کتا اس کے فورا بعد ہی مرگیا جس سے عقلمند افراد ان کی تیر نگاہی کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس واقعے نے عمران خان پر کیا اثر ڈالا ہوگا؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)