حکمت و بصیرت اور مُعاملہ فہمی کی ضرورت و اہمیت

May 06, 2018

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

’’اختلافی مسائل اور فروعی معاملات میں ’’اعتدال اور میانہ روی‘‘ کی راہ اپنانا دینی منصب کا تقاضااورعلماء کی بنیادی ذمّے داری ہے‘‘

اسلام اور مسلمانوں سے بغض و عداوت رکھنے والی طاقتیںشروع سے اس بات کے لیے کوشاں رہی ہیں کہ مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کیا جائے، تاکہ ان کی طاقت بکھر جائے، افسوس کہ خود مسلمانوں میں کچھ ایسے افراد ان کے آلہ کار بن جاتے ہیں، جو کچھ متاعِ حقیر کے بدلے اپنے ضمیر کا سودا کر لیتے ہیں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ وہ بھی ہیں جو بعض کاموں کو نیک کام سمجھ کر بڑے جوش و جذبے کے ساتھ انجام دیتے ہیں، حالاں کہ یہ ملت کے لیے نقصان کا سودا ہوتا ہے اور اس سے بالواسطہ طور پر اسلام دشمنوں کو تقویت پہنچتی ہے۔

اس طرح کی سازشوں کا شکار زیادہ تر مذہبی لوگ ہوتے ہیں، ان کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے، پھر اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر اہم یا کم اہم باتوں کے سلسلے میں انہیں باور کرایا جاتا ہے کہ اِس وقت کا سب سے اہم کام یہی ہے، اور یہ مسائل عموماً ایسے ہوتے ہیں، جن میں امت کے درمیان اختلافِ رائے رہا ہے، اِن مسائل میں کچھ اس طرح اکسایا جاتا ہے کہ وہ اشتعال انگیز تقریریں کرنے لگتے ہیں، جذباتی مضامین لکھتے ہیں، مباحثے و مناظرے کرتے ہیں، فریق مخالف پر تیز و تند تبصرے کرتے ہیں اور ان کا استہزاء کرکے اپنے نفس کی تسکین کرتے ہیں، اس سے دو بڑے نقصانات ہوتے ہیں، ایک یہ کہ حقیقی مسائل کی طرف سے توجہ ہٹ جاتی ہے، دوسرے امت میں اختلاف اور انتہا پسندی میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔

بعض اوقات زبان و قلم کی جنگ سے بڑھ کر نوبت مار پیٹ اور قتل و قتال تک آجاتی ہے، اس وقت دنیا کے مختلف خطوں میں خود اسلام کے نام پر دہشت گردی کے جو واقعات پیش آرہے ہیں، ان کا پس منظر یہی ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں ایسی تحریکوں کی قیادت ہے، وہ تو دانستہ طور پر یہود و نصاریٰ کے آلہ کار ہیں، لیکن جو لوگ ان کے تحت کام کر رہے ہیں، وہ اسی طرح کی اکساہٹ کا شکار ہیں اوراپنی غیر اسلامی حرکتوں کو اسلام کی بیش قیمت خدمت سمجھ کر انجام دے رہے ہیں۔

مسلم دنیا میں بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسی طرح کی صورتِ حال پیدا کی جائے اور مسلمانوں کے مسلکی اختلافات کو ابھارا جائے، ان حالات میں مختلف مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کا ایک دوسرے کے اداروں میں تشریف لے جانا اور ایک دوسرے سے ملنا ملانا، مختلف مواقع پر اکٹھا ہوجانا ایک غیر معمولی اور خوش آئند امرہے، یہ یقیناًان کی دانش مندی اور آگہی کا ثبوت ہے، اللہ تعالیٰ انہیں اس کا بہتر اجر عطا فرمائے،تاہم ایسی پہل کو سبو تاژ کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں اور شاید اس کو شش میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے، تاکہ مسلمانوں کے مسلکی اختلافات کو نمایاں کیا جائے۔

ایسے مسائل میں ہمارا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ اَوّل تو ہم اختلافی موضوع پر اعراض اور پہلو تہی کا راستہ اختیار کریں کہ اگر کوئی اختلافی سوال اٹھایا جائے تو اس کا جواب دینے سے گریز کیا جائے اور سوال کا رخ بدل دیا جائے، قرآن مجید میں اس کی بڑی مثال ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے سامنے اپنی دعوت پیش کی تو فرعون تو مسلمان نہیں ہوا، البتہ جن جادوگروں کو اس نے بلایا تھا، ان پر سچائی ظاہر ہو گئی اور وہ ایمان لے آئے تو آخری حربہ کے طور پر فرعون نے کہا کہ تمہارے بقول ان کا مسئلہ تو حل ہو گیا اور یہ اللہ کے عذاب سے بچ گئے؛ لیکن ان کے آباء و اجداد کا کیا ہوگا؟ وہ تو ایمان لائے نہیں، تمہارے بقول کفر کی حالت میں دنیا سے چلے گئے، اس کا سیدھا سادہ جواب یہ تھا کہ ان کا بھی وہی حال ہوگا، جو دوسرے ایمان سے محروم لوگو ں کا ہوگا، لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اعراض کا پہلو اختیار کرتے ہوئے فرمایا: ’’میرے پروردگار کو اس کا علم ہے جو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے، میرا رب نہ غلطی کرتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔‘‘ (طٰہٰ:۲۵)

غور فرمائیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کس خوب صورتی کے ساتھ اس کی سازش کو ناکام کر دیا اور ایسا جواب دیا جو غلط بھی نہیں تھا، اور فرعون جو چاہتا تھا کہ جادوگروں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دور کر دے، اس میں کامیاب بھی نہیں ہو سکا۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایسے کسی اختلافی مسائل میں اِظہارِ رائے کی نوبت آہی جائے تو مخالف نقطۂ نظر کے حامی لوگوں کے احترام کو باقی رکھتے ہوئے اور ان کے نقطۂ نظر کے درست ہونے کے امکان کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی بات پیش کی جائے، اس سے اختلاف بڑھتا نہیں ہے، بحث کا دروازہ نہیں کھلتا اور ایک دوسرے کے خلاف تیز وتند رتجزیے کی نوبت نہیں آتی، حالاں کہ مخالفین کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ آپ کی زبان سے ایسی باتیں کہلاوائیں جو باہمی اختلافات کو بڑھانے کا باعث بنیں، قرآن مجید نے ایک موقع پر رسول اللہﷺ کو مشرکین مکہ سے مکالمے کا اُسلوب بتایا اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیلیں پیش کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ آپ یوں کہیے: ’’ہم یا تم یا تو یقیناً ہدایت پر ہیں یا کھلی ہوئی گمراہی میں۔‘‘ (سورۂ سبا:۴۲)

یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ آپﷺ کا حق و ہدایت پر ہونا بالکل واضح تھا، دن کی دھوپ سے بھی زیادہ واضح اور مشرکین کا غلطی پر ہونا بھی اسی درجہ واضح تھا، تو بظاہر جواب یہ ہونا چاہیے کہ ہم واضح ہدایت پر ہیں اور تم کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہو، لیکن قرآن نے ایک ایسا جواب دینا سکھایا، جس میں ایک درجہ میں فریق مخالف کی رعایت ہے، اور جس جواب سے توقع کی جا سکتی ہے کہ باہمی گفت و شنید کا سلسلہ جاری رہے گا اور گفتگو کا دروازہ بند نہیں ہوگا، کیوں کہ دعوتِ دِین کے لیے یہ بات ضروری ہے ، تو جب کھلے ہوئے گمراہوں کو یہ بات کہی جا سکتی ہے تو کیا ایسے اختلافی مسائل میں جن میں دونوں فریق کے پاس قرآن و حدیث کی دلیلیں اور صحابہ و سلف صالحین کے فتاویٰ موجود ہیں، کیا اس طرح جواب نہیں دیا جاسکتا کہ اگر چہ اس مسئلے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے، لیکن دوسرے حضرات جو رائے رکھتے ہیں، وہ بھی بے بنیاد نہیں ہے، ان کے پاس بھی دلیلیں ہیں، اور اس مسئلے کو ہمارے یہاں کوئی بڑی اہمیت حاصل نہیں ہے، یہ کہہ کر ہم اختلاف کی شدت کو کم کر سکتے ہیں اور اپنے مخالفین کی سازش کو ناکام بنا سکتے ہیں۔

ہمارا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم احتیاط، دوسرے فریق کے احترام اور ان کے نقطۂ نظر کے پیچھے دلائل کا اعتراف کرتے ہوئے متفق علیہ نقطہ نظر کو پیش کریں، اور لوگوں سے کہیں کہ اصل قابلِ توجہ مسئلہ یہ ہے، جس پر سب کا اتفاق ہے، مثلاً: تین طلاق کے مسئلے پر ہماری گفتگو کا اسلوب یہ ہو کہ اس مسئلے میں دو رائیں پائی جاتی ہیں، جمہور کی رائے یہ ہے کہ ایک مجلس میں دی گئی تینوں طلاقیں بھی واقع ہو جاتی ہیں، یہی نقطۂ نظر امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام بخاری اور بیشتر محدثین و فقہاء رحمہم اللہ کا ہے، دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی ہوتی ہیں، یہ رائے اُمت کے بعض بڑے جلیل القدر علماء علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن القیم کی ہے اور دونوں کے پاس اپنے نقطۂ نظر کے دلائل موجود ہیں، لیکن اصل قابل توجہ مسئلہ یہ ہے کہ بلا وجہ تین طلاقوں کا دینا ہی غلط ہے، خواہ ایک ساتھ دی جائے یا الگ الگ، چناں چہ رسول اللہﷺ کے سامنے حضرت عبادہ بن صامتؓ کا معاملہ آیا، جنہوں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دی تھیں، تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا انہیں اللہ کا خوف نہیں؟ پھر آپ نے طلاق دینے کے اس انداز کو ظلم و عدوان قرار دیا۔(مصنف عبد الرزاق، کتاب الطلاق، حدیث: ۱۱۳۳۹)

ایک اور واقعے کا ذکر آیا ہے کہ آپ کو اطلاع دی گئی کہ فلاں شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دی ہیں تو آپ غصے سے کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے:’’کیا کتاب اللہ کے ساتھ کھیل کیا جاتا ہے،حالاں کہ ابھی میں تم لوگوں کے درمیان موجود ہوں‘‘ آپ کا غصہ اس قدر بڑھا ہوا اور خلافِ معمول تھا کہ ایک صاحب کھڑے ہوئے اور آپ سے دریافت کیا کہ اللہ کے رسولﷺ! کیا میں اسے قتل ہی نہ کر دوں؟(سنن نسائی، کتاب الطلاق، حدیث: ۱۰۴۳)

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے اپنی اہلیہ کو حالت حیض میں طلاق دے دی، رسول اللہﷺ کو اطلاع ہوئی تو آپﷺ نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے عرض کیا کہ یہ تو میں نے ایک طلاق دی تھی، اگر میں نے تین طلاق دی ہوتیں تو کیا ہوتا؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ ایسی صورت میں تم اپنے رب کی نا فرمانی کرنے والے ہوتے اور تمہاری بیوی تم سے علیحدہ ہو جاتی۔ (سنن دارقطنی، کتاب الطلاق والخلع و الایلاء:۴؍۳۲)

حضرت عمرؓ کی خدمت میں اگر ایسا کوئی شخص لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہوں تو اسے سزا کے طور پر سر پر کوڑے لگواتے ۔(مصنف عبد الرزاق، باب المطلِّق ثلاثاً، حدیث: ۱۱۳۴۵)

حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے پاس ایک صاحب آئے اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی ہیں، تو فرمایا کہ تین طلاق سے تمہاری بیوی بائنہ ہو گئی اور یہ تمام ہی طلاقیں اللہ کی نافرمانی ہیں: ’’وسائرھن معصیۃ‘‘(مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الطلاق، حدیث: ۱۷۸۰۰)

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے ایک صاحب نے دریافت کیا کہ میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی ہیں، تو فرمایا کہ تمہارے چچا نے اللہ کی نافرمانی کی ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الطلاق، حدیث: ۱۸۰۸۸)

اسی لیے فقہاء بھی اس بات پر قریب قریب متفق ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا نا پسندیدہ طریقہ ہے، امام کرخی سے منقول ہے کہ اہل علم کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا مکروہ ہے۔ (المبسوط، کتاب الطلاق: ۶؍۶)

مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے جو حرام کے قریب ہوتا ہے، امام مالکؒ کے شاگرد عبد الرحمن بن قاسم سے پوچھا گیا کہ کیا امام مالکؒ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دے؟ عبد الرحمن نے جواب دیا کہ امام مالکؒ اس سے شدید کراہت کرتے تھے: (المدونہ، کتاب طلاق السنۃ:۲؍۳)

غرض کہ اگرچہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے تین یا ایک ہونے میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے؛ لیکن اس طریقے کے ناپسندیدہ ہونے میں کوئی اختلاف نہیں، اس لیے ہماری کوششوں کا محور یہ ہونا چاہیے کہ لوگوں میں شعور پیدا کیا جائے کہ بلا ضرورت طلاق نہ دی جائے، اور اگر طلاق دینے کی نوبت آہی جائے تو ایک طلاق پر اکتفاء کیا جائے، ہمیں اِس کی مہم چلانی چاہیے،کیوں کہ اگر تین طلاق کی شناعت اور برائی لوگوں کے سامنے نہیں رکھی گئی اور مزاج نہیں بدلا گیا تو ایک دفعہ طلاق دینے کے بجائے لوگ تین الگ الگ مجلسوں میں طلاق دیں گے، گھوم پھر کر تین بار طلاق کے الفاظ کہیں گے، اس لیے مزاج کو بدلنے کی ضرورت ہے کہ بلا ضرورت طلاق دینا گناہ ہے اور تین طلاق دینا گناہ بالائے گناہ ہے،چاہے ایک ساتھ دی جائے یا الگ الگ۔

غرض کہ اس طرح کے اختلافی مسائل اسلام دشمن عناصر مسلمانوں کے اختلاف کو بڑھانے کے لیے، مسلکی اختلاف کو ہوا دینے اور مسلم سماج کو رسوا کرنے کے لیے اٹھا رہے ہیں، ہمیںان کی نیت کو سمجھنا چاہیے اور ایسی دانش مندی کے ساتھ ایسے سوالات کا سامنا کرنا چاہیے کہ مخالفین اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوں، درحقیقت یہ علماء کی فراست ایمانی، معاملہ فہمی اور دانش مندی کا امتحان ہے، کاش،مذہبی قائدین اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں!

دو دن اور دو راتیں

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں ایسے دو دن اور دو راتوں سے باخبر نہ کروں،جس کی مثال تم نے کبھی نہ دیکھی ہوگی۔صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسولﷺ ضرور مطلع فرمائیں۔آپﷺ نے فرمایا:ان دو دنوں میں پہلا وہ دن ہے جب اللہ کی طرف سے موت کا پیغام آئے گا،تم اُس وقت یا تو رضائے الٰہی کے مستحق قرار دیے جائو گے یا اس کے عتاب(عذاب) کے۔ دوسرا دن وہ ہے جب اللہ کے روبرو پیش ہو گے (یوم حساب) اور ہاتھوں میں نامۂ اعمال ہوگا۔ ان دو راتوں میں پہلی رات وہ ہے جو قبر میں جانے کے بعد میت پر پہلی رات گزرتی ہے،ایسی رات اُس نے کبھی دیکھی نہ ہوگی۔دوسری رات وہ ہے جس کی صبح قیامت ہوگی اس رات کے بعد پھر کوئی رات نہ ہوگی۔

ظالم کے ظلم سے نجات

ابو معلق نامی ایک صحابیؓ تجارت کی غرض سے اکثر سفر پر رہتے تھے،ایک بار مال تجارت لے جارہے تھے کہ راستے میں ایک ڈاکو نے انہیں گھیر لیا اور کہا:تمہارا مال اور جان دونوں لینا چاہتا ہوں، فرمانے لگے،میری جان لے کر کیا کرو گے؟ مال حاضر ہے، مجھے چھوڑ دو،لیکن وہ نہیں مانا اور کہا: مجھے تمہیں قتل بھی کرنا ہے۔انہوں نے فرمایا:تو مجھے چار رکعت نماز پڑھنے کی مہلت دے دو۔ ڈاکو نے مہلت دے دی،انہوں نے چار رکعت نماز ادا کی اور آخری سجدے میں یہ دعا کی:’’اے محبت کرنے والے، اے محبت کرنے والے، اے بزرگ عرش والے،اپنے ارادے کے مطابق عمل کرنے والے، میں تجھ سے تیری اس عزت کا سوال کرتا ہوں جس کا ارادہ نہیں کیا جاسکتا اور اس ملک و بادشاہت کا وسیلہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ جس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا اور تیرے اس نور کے ذریعے سوال کرتا ہوں، جس نے تیرے عرش کے ارکان کو روشن کیا ہے کہ تو مجھے اس ڈاکو کی برائی سے بچا لے،اے مدد کرنے والے! میری مدد فرما! اے مدد کرنے والے میری مدد فرما۔‘‘اتنے میں ہاتھ میں نیزہ لیے ایک شہسوار نمودار ہوا،اس نے ڈاکو کو قتل کرکے سربسجود صحابیؓ سے کہاکہ سر اٹھاؤ،انہوں نے سر اٹھا کر دیکھا کہ ڈاکو مرچکا ہے تو پوچھا: آپ کون ہیں؟ وہ کہنے لگا میں چوتھے آسمان کا فرشتہ ہوں، تم نے پہلی مرتبہ دعا کی تو میں نے آسمان کے دروازوں کے کھلنے کی آواز سنی،دوسری بار دعا کی تو میں نے اہل سماء میں ہلچل کی آواز سنی، تیسری مرتبہ دعا کی تو مجھ سے کہا گیا کہ یہ ایک مصیبت زدہ کی فریاد ہے،میں نے اللہ تعالیٰ سے ظالم کے قتل کرنے کی درخواست کی جو منظور ہوئی چناں چہ میں نے آکر اسے قتل کردیا۔