ن لیگ کا اصل امتحان نگران حکومت بننے سے شروع ہوگا

May 10, 2018

رانا غلام قادر

قومی اسمبلی کا آخری سیشن جاری ہے۔ نئے مالی سال کا بجٹ منظور ہونے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہو جائے گا۔ ممبران قومی اسمبلی کا گروپ فوٹوبن گیا ہے۔ سپیکر سردار ایاز صادق نے ممبران قومی اسمبلی کے اعزاز میں الوداعی عشائیہ بھی دیدیا ہے۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور حکومت اپنی پانچ سالہ میعاد پوری کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت 31 مئی کی رات 12 بجے ختم ہو جائے گی۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی دھڑا دھڑ سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں یا افتتاحی فیتہ کاٹ رہے ہیں یہی ترقیاتی پراجیکٹس ہیں جن کی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) اگلا الیکشن لڑے گی۔ وفاقی دارالحکومت ان دنوں افواہوں اور قیاس آرائیوں کی زد میں ہے۔ سیاسی بے یقینی ختم ہونے کی بجائے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے الزامات کی سیاست کی وجہ سے سیاسی ماحول تلخ ہو چکا ہے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال پر حملہ نے الیکشن کے بروقت انعقاد کے بارے میں بے یقینی کے تاثر کو مزید تقویت دی ہے۔ ابھی تک نگران وزیراعظم کے بارے میں بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا ۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کے درمیان یہ ہم آہنگی موجود ہے کہ جب تک بجٹ اجلاس جاری ہے اس وقت تک نگران وزیراعظم کا نام ظاہر نہیں کیا جائے گا۔ ہائوس بزنس ایڈوائزری کے اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ رواں سیشن 15 مئی کو ختم ہو جائے گا۔ امکان یہی ہے کہ 15 مئی کے فوراً بعد وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان نگران وزیراعظم کے تقرر پر اتفاق رائے کیلئے فیصلہ کن میٹنگ ہو گی۔ جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی اب بھی ہارٹ فیورٹ ہیں لیکن اپوزیشن لیڈر دانستہ فاضل امیدوار کا نام بتانے سے گریزاں ہیں خدشہ یہ ہے کہ حتمی نام پہلے سامنے آنے سے بحث چھڑ جائے گی اور کوئی نیا تنازعہ جنم لے سکتا ہے۔ اصل ایشو یہ ہے کہ الیکشن 2018 کا انعقاد بروقت ہو گا یا نہیں۔ آئین کے تحت اگر حکومت پانچ سالہ مدت پوری کر کے ختم ہو تو الیکشن 60 دن کے اندر ہوں گے ۔ ابھی نگران حکومت قائم نہیں ہوئی مگر پہلے سے یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کے نگران حکومت 60 دن سے آگے جا سکتی ہے۔ سب سے پہلے ایک مقتدر شخصیت نے ایک آف دی ریکارڈ میڈیا بریفنگ میں یہ عندیہ دیا تھا کہ ٹیکنیکل وجوہات کی بنا پر پر الیکشن کے انعقاد میں چند دنوں کی دیر ہو سکتی ہے تب سے التوا کی بحث چل پڑی۔ اب عمران خان نے جیو ٹی وی کے اینکر پرسن حامد میر کو دیئے گئے انٹرویو میں یہ کہا کیہ الیکشن کے انعقاد میں ڈیڑھ ماہ کی تاخیر ہو سکتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) ایم ایم اے پیپلز پارٹی اور اے این پی کا موقف ہے کہ الیکشن آئین کے مطابق مقررہ وقت پر ہونے چاہئیں۔ الیکشن کو ملتوی کرنے کا بھلے کوئی بھی جواز تلاش کر لیا جائےمگر اس سے بے یقینی ، مایوسی اور عدم اعتماد کی فضا پیدا ہو گی شکوک و شبہات جنم لیں گے۔ الیکشن کے نتائج پر پہلے سے ہی سوالات اٹھ جائیں گے بالخصوص مسلم لیگ (ن) کی قیادت ضرور یہ الزام لگائے گی کہ الیکشن کے التوا کا مقصد ان کو نقصان اور تحریک انصاف کو فائدہ پہنچانا ہے۔ نواز شریف پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ الیکشن خلائی مخلوق کرائے گی۔ سب سے پہلے ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی ماحول کو بہتر بنایا جائے۔ تلخی اور بے جا الزام تراشی سے گریز کیا جائے۔ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت جمع ہو کوئی ضابطہ اخلاق بنایا جائے خاص طور پر سیاست میں تشدد کے رجحان کو ابھی سے روکا جائے ورنہ کسی کی جان محفوظ نہیں رہے گی۔ سیاسی عدم استحکام سے ملک کو نقصان پہنچے گا نہ صرف معیشت کیلئے سیاسی عدم استحکام زہر قاتل ہے بلکہ سرحدوں کے جو حالات ہیں ان میں ملکی سلامتی کیلئے بھی یہ نقصان دہ ہے۔اس امر کویقینی بنایاجائے کہ نگران حکومت صرف 60دن تک کام کرے۔ آئین کی روح کے مطابق وہ اپنے آپ کو انتظامات اورروزمرہ کے ضروری انتظامی فیصلوں تک محدود رکھے۔ الیکشن 2018میں تمام سیاسی جماعتوں کو مساوی اور منصفانہ مواقع فراہم کئے جائیں اور انتخابات شفاف اورغیرجانبدارنہ ہوتے نظرآئیں۔ جمہوری نظام اس امر کی متقاضی ہےکہ عوام کواگلی حکومت چننے کا موقع دیاجائے کوئی انجینئرنگ نہ کی جائے۔ سیاسی جماعتیں اپنا فوکس انتخابی منشوریااپنے پرگرام پررکھیں اورعوام کو بتائیں کے ان کے پاس ملک کومسائل اور چیلنجز سے نکالنے اورآگے لے جانے کے لئے تیار لائحہ عمل ہے۔ الزامات کی بجائے ایشوز کی بنیاد پر سیاست کی جائے توسیاسی ماحول خودبخود بہترہوجائے گا۔ جو عناصرشدت پسندی کے رجحان کو فروغ دے رہیں انہیںبے نقاب کیاجائے خواہ وہ مذہبی تنظیم کے سربراہ ہوں یاسیاستدان ہوں۔ نوازشریف بھی اپنےلہجہ کی تلخی کو کم کریں۔ یہ درست ہے کہ وزارت عظمیٰ اورپارٹی صدر سے محرومی کے بعد ان کے پاس جارحانہ اورلہجے کا ہی آپشن رہ گیاہے۔ وہ جس طرح ڈٹ کرسیاست کررہے ہیں اس سے انکی پارٹی ٹوٹ پھوٹ سے بچی ہے۔ پنجاب میں ان کاووٹبنک اب بھی قائم ہے۔ پنجاب میں تعصب کا رنگ بھی نظرآنے لگاہے۔ بعض پنجابی یہ سمجھتے ہیں کہ نوازشریف سے زیادتی ہوئی ہے پنجاب کے عوام کو ان کے ساتھ کھڑاہوناچاہیے۔ابھی تک مسلم لیگ(ن) میںکوئی بڑی نقب نہیں لگی۔ چوہدری نثارعلی خان بھی گومگوکاشکارہیں۔ ان کا طرز عمل ناقابل فہم ہے۔ وہ اس بہو کی مانند ہیں جوروز ساس سےلڑتی ہے۔ طعنے دیتی ہے مگرنہ تو گھر چھوڑ کر جاتی ہے اور نہ ہی بس رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا امتحان 31مئی کے بعد شروع ہوگاجب حکومت ختم ہو جائے گی پھرپتہ چلے گا کہ اس کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اس کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں یانہیں اورانکی تعداد کتنی ہے۔ اب بھی پنجاب میں سب زیادہ Electiblesمسلم لیگ (ن) کے پاس ہیں قومی اسمبلی کی140نشستیں پنجاب کی ہیں۔ الیکشن 2018کاسب سے بڑا میدان جنگ پنجاب ہی ہے ۔ پنجاب کے عوام فیصلہ کریں گے کہ اگلی حکومت کس کی ہوگی۔ نواز شریف اورشہبازشریف رابطہ عوام مہم شروع کر چکے ہیں۔ رمضان المبارک میںجلسے کرنامشکل ہوجائے گا۔ اس کے بعد وقت کم ہوگااسلئے اب زیادہ تعداد میں جلسے ہو رہے ہیں۔ پنجاب میں اصل مقابلہ تومسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف میںہوگا۔ پیپلزپارٹی کم از کم 2018میںپنجاب سے کوئی قابل ذکرکامیابی حاصل نہیںکرسکتی۔ بہرحال اصل بات یہ ہے کہ تمام ادارے اور سیاسی جماعتیں اس وقت ملک اور قوم کے مفاد کو اولیت دیں۔ وقتی فائدے کے لئے ایسے اقدامات سے گریز کیاجائے جس سے ملک کااستحکام متاثر ہو۔ سکیورٹی متاثرہو۔سیاسی ماحول تلخ ہو۔ شدت پسندی کے رجحان کو فروغ ملے۔ قومی قیادت بڑے دل کامظاہرہ کرے۔ بصیرت سے کام لے۔یہ ملک ہم سب کاہے ہم سب نے مل کر اس کی حفاظت کرنی ہے۔ اس کو اونرشپ دیں۔ اگروقتی سیاسی و فوائد کے لئے فائول پلے کیاگیاتو پھر اس کا ملک کو نقصان ہوگا۔ یہ جذبہ حب الوطنی اوربصیرت کاامتحان ہے اللہ کرے قومی قیادت اس امتحان پرپورااترے۔یہ ملک قائم دائم رہے اوریہاں سیاسی، معاشی اورسکیورٹی استحکام ہو۔