’’ دعا‘‘ خشوع و خضوع کے ساتھ مانگے

May 18, 2018

رب ذوالجلال و الاکرام فرماتے ہیں ’’ ہم سے دعائیں مانگتے رہو ‘‘ ہم تمہاری دعائیں قبول کریں گے جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہونگے (المومن آیت ۔60) باری تعالیٰ اس آیت مقدسہ میں تقدیر معلق کی طرف بھی اشارہ فرماتے ہیں ۔

اگر ہم دعا کے موضوع پر غور کریں تو ہمیں اندزہ ہو گا کہ ہم کو بنیادی طور پر رب کریم سے صحیح طور پر دعا مانگنے کا سلیقہ ہی نہیں آتا اور نا ہی ہم اپنی دعا کی ابتداء میں اسکے بے شمار احسانات اور اپنی ظاہری حالت ناک ۔ کان ۔ زبان اور آنکھوں وغیرہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں بلکہ بہت ممکن ہے کہ ہم جن مشکلات سے دوچار ہیں وہ ہمارے کسی گناہ کی سزا ہو ۔ لہٰذا ہم جب بھی دعا مانگیں اپنے دانستہ اور نا دانستہ گناہوں پر نادم ہو کر معافی ضرور مانگنی چاہئے ۔ اسکے دیئے ہو ئے رزق اور آسائشوں پر شکر گزار ہو نا لازم ہے ۔ ہم ان تمام نوازشات کو پس پشت ڈال کر اپنی موجودہ ضروریات اور خواہشات کے بارے میں دعا مانگتے ہیں اور دعا ختم کر دیتے ہیں ۔

دنیا میں سب سے پہلی دعا حضرت آدم اور اماں حوا نے مانگی تھی ’’ اے پر وردگار ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائینگے (الا عراف آیت 23) حضرت آدم کے بعد ایک لاکھ 24ہزار پیغمبر دنیا میں تشریف لائے اور ان سب نے ہمیشہ باری تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہو کر دعائیں مانگی، اگر ہم صرف اسی ایک نکتہ پر غور کریں اور اپنی دعا کرتے وقت دل میں سوچیں کہ ہم ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں اور نبی آخر الزماں ﷺ اور اہل بیعت کی سنت پر عمل کرتے ہوئے دعا مانگ رہے ہیں ، باری تعالیٰ جس طرح تو نے ان کی دعائیں قبول کی ہماری دعا بھی قبول کر یں تو کیا باری تعالیٰ ہماری دعائیں رد کردے گا لیکن کیونکہ وہ عالم الغیب ہے اور اس کو مستقبل میں ہونے والے واقعات کا علم ہے لہٰذا بہت ممکن ہے کہ ہماری دعائوں کی قبولیت میں تاخیر ہو جائے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ باری تعالیٰ کسی کی جائز دعا رد نہیں کر تا دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دعا یقینی طور پر قبول ہوتی ہے ۔

اکثر افراد جب بہت زیادہ پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو تقدیر کو قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ ہماری تقدیر میں یہی لکھا ہے کہ ہم اسی طرح پریشان ہوں، یہ بات ایک طرح سے باری تعالیٰ پر الزام ہے کہ اس نے انکی تقدیر خراب بنائی اور یہ باری تعالیٰ کی عظیم ترین توہین ہے ،لوح محفوظ پر تقدیر مبرم لکھی گئی ہے، یہ وہ تقدیر ہے جسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور نہ ہی اس میں کوئی کمی بیشی ہو سکتی ہے مثلا ً آگ کا کام جلانا ہے، پانی انسانوں، حیوانات اور نباتات کے لئے باعث زندگی ہے، سورج کاکام روشنی پھیلانا اپنے وقت پر نکلنا اور اسکی حدت سے حیوانات اور نباتات کی افزائش ہوتی ہے، سمندروں سے بھانپ بنانا تاکہ بادلوں کی شکل میں دور دراز کے علاقے پانی سے سیراب ہو سکیں، یہ تقدیر مبرم ہے یعنی اٹل قانون الہٰی ہے جو دنیا کی ساری اشیاء میں جاری و ساری ہے ۔

ابتدا میں تقدیر معلق کا ذکر کیا گیا ہے کہ ’’ہم سے دعائیں مانگتے رہو ہم قبول کر یں گے ‘‘اس سے مراد وہ تقدیر ہے جو ٹل سکتی ہے یعنی بار ی تعالیٰ نے یہ قاعدہ بنا دیا ہے کہ انسان جب کبھی صحیح اسباب استعمال کریگا تو نتیجہ صحیح نکلے گا اگر غلط اسباب سے کام لے گا تو نتیجہ غلط نکلے گا اس کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ دو افراد ایک ہی مرض میں مبتلا ہیں اُن کے لواحقین اُن کے لئے باری تعالیٰ سے دعائیں مانگ رہے ہیں لیکن ایک مریض کا علاج بہتر طریقے سے ہو رہا ہے جبکہ دوسرے مریض کا علاج غلط یا غیر مناسب طریقے سے ہورہا ہے نتیجتاً ایک مریض صحتمند ہو جاتا ہے جبکہ دوسرا مریض خالق کائنات کے حضور پیش ہو جاتا ہے لیکن اگر اسکا علاج بھی صحیح طریقے سے ہو تا تو وہ بھی شفایاب ہو جاتا یہ ایک تقدیر تھی جو اسباب کے ساتھ وابستہ تھی صحیح اسباب کا نتیجہ درست نکلا اور غلط اسباب کا نتیجہ منفی رہا ۔

اس ضمن میں میرے سامنے دو مثالیں ہیں جو اس بات کی تائید کر تی ہیں کہ باری تعالیٰ دل سے نکلی ہوئی دعائوں کو قبول فرماتے ہیں ایک ضعیف خاتون کا ہر ممکن علاج ہو رہا تھا مگر ڈاکٹر مایوس ہو تے جا رہے تھے اُن کے ایک صاحبزادے نے اپنے کسی عزیز جو کہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے گئے ہو ئے تھے ان سے حرم اور روضہ رسول ؐ پر رو رو کر دعائیں کرنے کی درخواست کی اللہ تعالیٰ نے ان کی دعائیں قبول کیں اور وہ خاتون رفتہ رفتہ صحت مند ہو گئیں دوسری مثال میرے ایک عزیز کی ہے وہ کافی ہفتوں تک آکسیجن ٹینٹ میں رہے آخرڈاکٹروں نے مایوس ہو کر اُن کو گھر جانے کے لئے کہہ دیا مگر انکی بیوی اور بچے اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوئے تھے انہوں نے گھر میں ہی آکسیجن ٹینٹ کا انتظام کیا اور باری تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعائیں کرتے رہے رب کریم نے ان کی دعائیں قبول کیں آج موصوف صحتمند ہیں ، عمر کے تقاضے کی وجہ سے معمولی کمزوری کا شکار ہیں ، ما شاء اللہ ہوا خوری کے لئے جاتے ہیں اور مسجد میں جا کر نماز ادا کرتے ہیں، یہ سب تقدیر معلق ہے ۔

میری اس تحریر کا ماخذ یہ ہے کہ ہم کو انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز کا اہتمام کر نا چاہئے جیسا کہ حکم ہے ’’اے بنی آدم ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ ہو اور کھائو پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کر تا ‘‘ (الاعراف ۔ آیت 31) نماز کی پابندی کے ساتھ دعا مانگنی چاہیے اور دل میں یہ ضرور سوچیں کہ میں حضرت آدم سے لیکر نبی کریم ﷺ ، اہل بیت اور زعما ء اسلام کی سنت پر عمل کر رہا ہوں، باری تعالیٰ جس طرح تو نے ان کی دعائیں قبول فرمائی ہیں میری دعا بھی ان کے صدقہ میں قبول فرما، اللہ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کریں، گناہوں کی معافی طلب کریں اور دعا کا تعین کریں مثلا ً اگر آپ کا روبار کرنا چاہتے ہیں تو دعا کریں باری تعالیٰ میں سنت نبوی ؐ پر عمل کرتے ہوئے کاروبار کر نا چاہتا ہوں جو آپ کے نزدیک بہتر ہو اس کاروبار سے مجھے منسلک فرمادیں ۔ اگر بیٹی کی شادی کے لئے پریشان ہیں تو دعا کریں باری تعالیٰ آپ کے حکم کے مطابق میں اپنی بیٹی کی رخصتی چاہتا ہوں تو اسکے لئے نیک، صالح ، دیندار اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صاحب ثروت شخص سے عقد کروادیں ۔ اپنی ہر دعا کو واضح طور پر اللہ کے حضور پیش کریں مبہم دعائوں سے گریز کریں اول و آخر درود شریف پڑھ کر ہر دعا کو تین دفعہ دھرائیں وہ غفور الرحیم آپکی دعائیں ضرور قبول فرمائیں گا ۔

hasanjawadi1gmail.com

مذاھب عال کا تقابلی مطالعہ ۔ پروفیسر چوھدری غلام رسول چیمہ ۔ علم و عرفان پبلشرز ۔ لاہور صفحہ نمبر :696