پختونخوا میں متحدہ مجلس عمل کی کامیابی کے امکانات

May 19, 2018

اسلامی جماعتوں کے الائنس، متحدہ مجلس ِعمل ( ایم ایم اے)نے خیبرپختونخوا کے دوسرے بڑے شہر، مردان میں مشترکہ جلسہ کرکے 2018 ء کے عام انتخابات کی مہم شاید قبل از وقت ہی شروع کردی ہے ۔ مذہبی شناخت رکھنے والی پانچ سیاسی جماعتوں کا الائنس، ایم ایم اے ایک عشرہ غیر فعال رہنے کے بعد 2017 ء کے آخر میں بحال کیا گیا تو اس نے فطری طور پر اپنی انتخابی مہم خیبرپختونخواسے شروع کرنی تھی ۔ اس میں شامل جماعتوںنے ہر الیکشن میں روایتی سوچ رکھنے والے اس صوبے کا مذہبی وو ٹ حاصل کیا ہے ۔ مزید برآں، مذکورہ الائنس کو امید ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات، جو جولائی کے آخر میں متوقع ہیں، میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔
ایم ایم اے کی بحالی کافیصلہ گزشہ سال نومبر میں کیا گیا تھا مگر اس کے بعد بھی مزید چار ماہ اندرونی ا ختلافات ختم کرنے اور عہدیداران کا انتخاب کرنے میں صرف ہوئے۔توقعات کے عین مطابق مولانا فضل الرحمن ایم ایم اے کے صدر اور لیاقت بلوچ سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔اس اتحاد کی سب سے بڑی پارٹی جمعیت علمائے اسلام (ف)کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے مولانا فضل الرحمن ہی متحدہ مجلس عمل کی صدارت کے منصب پر فائز ہوسکتے تھے۔ دوسری بڑی جماعت،یعنی جماعت اسلامی کے امیدوار لیاقت بلوچ کو بھی دوسرا اہم ترین عہدہ دیا گیا۔ اس اتحاد کی باقی تین پارٹیوں میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ،جس کے سربراہ پروفیسر ساجد میر ہیں،اویس نورانی کی جمعیت علمائے پاکستان اور علامہ ساجد نقوی کی تحریک اسلامی شامل ہیں۔لہذا یہ الائنس دیوبندی سے لے کر بریلوی ، اہل حدیث اور اہل تشیع تک مختلف مکتب فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔
واحدپارٹی جو اس نئی بحال شدہ متحدہ مجلس عمل میں شامل نہیں وہ مولانا سمیع الحق کی جمعیت علمائے اسلام (س)ہے جس نے دوسری مذہبی جماعتوں کی متعدد بار درخواست کے باوجود اتحاد میں شامل ہونے سے انکار کیا ۔ اس کی بجائے جمعیت علمائے اسلام (س) کا جھکائو عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کی جانب زیادہ ہے اور دونوں جماعتوںکے درمیان آئندہ عام انتخابات میں متوقع انتخابی اتحاد پر بھی بات چیت ہو رہی ہے۔تاہم مولانا سمیع الحق سینیٹ الیکشن ہارنے پر مایوسی کا شکار تھے جب پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی نے اپنی پارٹی کا حمایت یافتہ ہونے کے باوجود انہیں ووٹ نہیں دیا۔ اپنا مضبوط ووٹ بینک نہ ہونے کی وجہ سے ان کے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہیں اس لئے متوقع طور پر وہ پی ٹی آئی کے قریب رہتے ہوئے ہی ان کے ووٹ بینک سے فائد ہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ نوشہرہ میں ان کا مدرسہ دار العلوم حقانیہ پی ٹی آئی کی حکومت سے اچھی فنڈنگ حاصل کررہا ہے، گو کہ عمران خان افغان اور پاکستانی طالبان پیدا کرنے کے ذمہ دار ایک مدرسے کی امداد کرنے پر تنقید کی زد میں رہے ہیں۔2002کے انتخابات سے پہلے وجود میں آنے والی متحدہ مجلس عمل نے مذہبی طبقے کا ووٹ حاصل کرتے ہوئے بہتر کار کردگی دکھائی اور قومی اسمبلی میں 60سیٹیں حاصل کرتے ہوئے سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے طور پر ابھری ۔صوبہ سرحد (جسے خیبر پختونخوا کا نام دیا گیا)میں متحدہ مجلس عمل نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرتے ہوئے حکومت بنائی۔ یہ بلوچستان میں بھی مخلوط حکومت میں شریک ہوکر اقتدار کے دسترخوان سے بڑا حصہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔تاہم حکومت کے اختتام پر جماعت اندرونی اختلافات کے باعث زوال پذیر ہوگئی اور علیحدگی اختیار کرنے والی جماعت اسلامی نے 2008کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا ۔
دوبارہ ہونے والے اس اتحاد کے باوجود آنے والے انتخابات میں ایم ایم اے 2002کی کارکردگی دہرانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔در حقیقت پاکستان کی آزادی سے لے کر آج تک مذہبی جماعتوں نے اپنی بہترین کارکردگی 2002 کے انتخابات ہی میں پیش کی جب انہوں نے ڈالے گئے کل ووٹوں کا گیارہ فیصدحاصل کیا۔نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی دخل اندازی کے بعد متحدہ مجلس عمل کی جانب سے بھڑکائے گئے امریکہ مخالف جذبات اور مذہبی ووٹ نے اس اتحاد کو شاندار کامیابی سے ہمکنار کیا۔تاہم اب صورتحال بالکل مختلف ہے اور بہت سی جماعتیں مذہبی ووٹ حاصل کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ ان میں سے ایک پاکستان مسلم لیگ (ن) اور دوسری پاکستان تحریک انصاف ہے۔پھر اس کے علاوہ دو نئی مذہبی جماعتیں بھی ہیں جن میں سے ایک بریلوی مکتب فکر پر مبنی تحریک لبیک پاکستان ہے جس کے سربراہ خادم حسین رضوی ہیں اور وہ قومی اسمبلی کے عام انتخابات میں قدرے بہتر تعداد میں ووٹ لے چکی ہے۔اس کے علاوہ دوسری جماعت ملی مسلم لیگ ہے۔اس کے علاوہ اہل سنت والجماعت اور مجلس وحدت المسلمین بھی کچھ سنی اور شیعہ طبقات کے ووٹ حاصل کرکے متحدہ مجلس عمل کی کارکردگی کو متاثر کر سکتی ہیں۔2002کے بعد پانچ سال تک دو صوبوں میں حکومت کے دوران خراب کارکردگی کے علاوہ یہ تمام پہلو بھی متحدہ مجلس عمل کے لئے منفی ثابت ہو سکتے ہیں اور اتحاد میں شامل ہونے والوں کومایوسی کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے جو 2013کی افسوس ناک کارکردگی کے ازالے کے لئے دوبارہ اکٹھے ہوئے ہیں۔