برطانوی بندرگاہیں یورپی یونین سے انخلاء کیلئے تیار

May 21, 2018

لندن ’ گیون جیکسن

برطانیہ کے میجر پورٹس گروپ کے نئے چیئرمین نے جمعہ کو کہا کہ جو بھی تجارتی انتظامارت کئے جاتے ہیں،برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلاء سے نمٹنے کیلئے برطانوی کنٹینر پورٹس تیار ہیں ۔

منگل کو تجارتی ایسوسی ایشن کی سربراہی سنبھالنے والے ایڈن برگ کی فورتح پورٹس کے چیف ایگزیکٹو چارلس ہیمنڈ نے کہا کہ ایک صنعت کے طور پر ہم تیار اور آمادہ ہیں۔

ملک کے یورپی یونین اور کسٹم یونین کی سنگل مارکیٹ چھوڑنے کے بعد برطانیہ میں داخلے کے وقت تجارتی بلاک سے درآمدات کو کسٹم اور ریگولیٹری کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ اگر سامان کو داخل ہونے میں تاخیر ہوتی ہے تو کاروباری اداروں نے سرحدوں پر رکاوٹ کے معاشی نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے۔

چارلس ہیمنڈ نے کہا کہ معائنہ کی سہولتوں میں سرمایہ کاری، برطانیہ میں داخل ہونے سے پہلے غذائی اشیاء کیلئے گوداموں اور مزید گنجائش سمیت بندرگاہیں تیاری کیلئے پس پردہ کافی کام کررہی ہیں۔

چارلس ہیمنڈ نے کہا کہ ہم سب بحیثیت گروپ، ایک صنعت اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہاں کسی بھی سطح پر رکاوٹ نہیں ہے۔

یو کے ایک پی جی میں بیلفاسٹ، لندن، ساؤتھمپٹن، ایسکس، ہمبرسائیڈتائیسائیڈ میں بندرگاہوں پر کنٹینر کا بندرگاہوں پر انتظام کرنے والی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ تاہم اس میں ڈوور کی بندرگاہ شامل نہیں ہے جو براعظم یورپ یا ہولی ہیڈ کی بندرگاہ سے برطانیہ میں آنے والی لاری ٹریفک کی اکثریت کو سنبھالتی ہے، جو آئرلینڈ سے سمندری سفر کرنے والی درآمد کا اہم راستہ ہے۔

حکومت کے ادروں کے مطابق 2015 میں ڈوور کی بندرگاہ کے ذریعے برطانیہ میں 25 لاکھ لاریاں اور براستہ ہولی ہیڈ 2لاکھ 86 ہزار لاریاں داخل ہوئیں۔ یہ فلکسٹو میں 8،311 کا موازنہ ہے۔

لیکن چارلس ہیمنڈ نے کہا کہ یو کے ایک پی جی میں زیادہ تر بندرگاہیں کنٹینرز کے ساتھ ساتھ مزید لاریاں سنبھالنے کی گنجائش پیدا کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی مرضی کے مطابق لچک اوراپنانے کی صلاحیت ملی ہے۔

گروپ کے اندر متعدد بندرگاہیں پہلے سے ہی اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ یورپی یونین کے باہر سے سامان مناسب کسٹم ادا کرے اور قواعد و ضوابط کو پورا کرے۔

برطانوی حکومت نے کہا کہ وہ یورپی یونین کی واحد مارکیٹ سے نکل جائے گی لیکن اس کی مستقبل کی کسٹم پالیسی کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا ہے۔حکومت کسٹم شراکت داری کے آپشن پر غور کررہی ہے، جس کو یورپی یونین کی جانب سے ٹیرف جمع کرنے اور ہموار سرحدوں کیلئے زیادہ سے زیادہ سہلوت کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔

چارلس ہیمنڈ نے کہا کہ حکومت جو بھی پالیسی کا انتخاب کرے، بندرگاہوں کی جانب سے سرمایہ کاری ضائع نہیں ہوگی جیسا کہ ان کا تمام تر مقصد آسانیاں فراہم کرنا اور تجارت کا فروغ ہے اور صنعت اس طرح سے لچکدار ہے کہ وہ تجارتی طریقہ کار کی تبدیلیوں کے ساتھ نمٹ سکتی ہے۔