بیانیے میں احتیاط لازم!

May 25, 2018

مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے بدھ کے روز احتساب عدالت میں پیشی کے دوران جو تحریری بیان دیا اور بعدازاں پنجاب ہائوس اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران پڑھ کر سنایا اس کے مطابق ان کا اصل جرم یہ ہے کہ سر جھکا کر نوکری کرنے سے انکار کے مرتکب ہوئے، آمر پرویز مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ بنایا، اپنے گھر کی خبر لینے اور حالات ٹھیک کرنے پر اصرار کیا اور خارجہ پالیسی کو قومی مفاد کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا بعض حلقوں نے ان کے وجود کو کچھ معاملات میں رکاوٹ کا سبب جانا اور ان کے خلاف کئے گئے اقدامات کو مذکورہ تاثر کا حل سمجھا گیا۔ 12؍اکتوبر 1999ء کو اپنے خلاف ہونیوالی بغاوت سے لے کر اب تک کے متعدد واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انیس بیس سال قبل بھی میرا یہی قصور تھا جو آج ہے۔ اس وقت بھی میں عوام کی حاکمیت اور آئینی تقاضوں کے مطابق حقیقی جمہوریت کی بات کررہا تھا۔ آج بھی یہی کررہا ہوں۔ میاں نواز شریف کے مذکورہ بیان کو، جو اب عدالتی کارروائی کا حصہ بھی ہے، بعض تجزیہ نگار چند دن قبل دیئے گئے اس بیان کے سلسلے کی کڑی کے طور پر دیکھ رہے ہیں جس میں انہوں نے اپنے سینے میں بہت سےرازوں کی موجودگی کا ذکر کیا تھا اور جس کے بعد آنے والے ایک بیان پر پڑوسی ملک سمیت دنیا بھر کے میڈیا میں ایسے تبصرے سامنے آئے جن پر ملکی مفادات کے حوالے سے مختلف حلقوں میں تشویش ظاہر کی گئی۔ مبصرین کا خیال ہے کہ سابق وزیراعظم کے لہجے میں مزید سختی آئی ہے اور ان کی قیادت میں چلنے والی عام انتخابات کی مہم میں اسی بیانیے کو بنیادی حیثیت حاصل ہوگی جو کچھ عرصے سے سامنے آرہا ہے۔ میاں نوازشریف نے جن باتوں کے اظہار کو ملکی مفاد کے منافی نہ سمجھتے ہوئے ظاہر کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا، ان میں یہ بھی شامل ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کو بنیاد بنا کر 2014ء کے وسط میں جو طوفان اُٹھایا گیا اسکے پیچھے ان کو دبائو میں ڈال کر پرویز مشرف کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے فیصلے سے ہٹانے کا محرک کارفرما تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں دھرنے کے دوران ایک ایجنسی کے سربراہ نے مشورہ نما پیغام میں ان سے استعفیٰ دینے یا طویل رخصت پر جانے کیلئے کہا تھا جبکہ ایک اہم سیاسی لیڈر نے مشرف کے مارشل لا کی پارلیمانی توثیق کا مشورہ دیا۔ مذکورہ الزامات پر پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف سمیت کئی سیاسی حلقوں نے جہاں متعدد نکات اٹھائے وہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ نواز شریف نے احتساب عدالت کے 128سوالات کے جوابات سنجیدگی سے دینے سے اجتناب کی راہ اختیار کی۔ یہ بات بہرحال اہمیت کی حامل ہے کہ میاں نواز شریف اپنے ادوار حکومت کے دوران جس بھاری مینڈیٹ کے حامل تھے اس میں وہ اتنے بے بس نہیں تھے کہ اپنے موقف کو منوانے کیلئے اگر کچھ اور نہ کرسکتے تو عوام کے سامنے آجاتے اور جس طرح آج اپنا بیانیہ شہر شہر پھیلا رہے ہیں اسی طرح وہ خود، یا انکے پس زنداں ہونے کی صورت میں، انکے ساتھی بیانیہ پھیلا سکتے تھے۔ انہوں نے اپنے کئی وزیروں کو جن باتوں کے افشا پر کابینہ سے رخصت کیا اور مصلحت کی راہ اختیار کی اگر بروقت جرأت کرتے تو سیاسی قد بڑا ہو سکتا تھا۔ جس وقت مقدمات کے فیصلے ان کی مرضی کے خلاف آتے محسوس ہوتے ہیں، وہ جان بوجھ کر یہ بیانیہ اختیار کر رہے ہیں۔ جمہوریت بلاشبہ سیاست دانوں، سیاسی گروپوں اور اداروں کو بعض معاملات پر قانونی و آئینی تقاضے ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے تحفظات کے اظہار کا حق دیتی ہے مگر انہیں ایسی باتوں سے اجتناب برتنا چاہئے جن سے ریاستی اداروں کے درمیان باہمی محاذ آرائی یا کشیدگی کا تاثر اجاگر ہو۔ یہ احتیاط ایسے حالات میں بطور خاص ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے جن سے وطن عزیز اس وقت دوچار ہے۔ پاکستان کوجن سنگین اندرونی و بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہےوہ تمام حلقوں سے ہر ممکن احتیاط کا تقاضا کرتے ہیں۔