مسئلہ کشمیر کا کوئی براہ راست حل موجود نہیں، بھٹو مشورے پر عمل کرنا ہوگا’جتنا لے سکتے ہو لے لو‘ سابق سربراہ آئی ایس آئی

May 25, 2018

اسلام آباد (فخر درانی) آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور نہ ہی بھارت پورا کشمیر لے سکتے ہیں اور نہ اسے چھوڑ سکتے ہیں، منقسم یا مشترکہ طور پر زیر انتظام کشمیر کی بجائے، یا کسی اور فارمولے کی بجائے ہمیں ذوالفقار بھٹو کے مشورے پر عمل کرنا ہوگا کہ ’’جتنا لے سکتے ہو لے لو‘‘۔ پاکستان اور بھارت کی جاسوس ایجنسی کے سابق سربراہان کی جانب سے لکھی گئی کتاب ’’دی اسپائی کرانیکلز‘‘ میں دونوں ملکوں کے درمیان اہم ایشوز پر بات کی گئی ہے جن میں کارگل آپریشن، ایبٹ آباد میں امریکی نیوی سیلز کا اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا آپریشن، کل بھوشن یادیو کی گرفتاری، حافظ سعید، کشمیر، برہان وانی اور دیگر معاملات شامل ہیں۔ جنرل درانی کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم مودی لومڑی اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اونٹ ہیں، مودی جیسے لیڈر آئی ایس آئی کیلئے موزوں ہیں کیونکہ ایسے لوگ ایجنسی کی ترجیح ہوتے ہیں کیونکہ سخت گیر لوگ ہی سخت فیصلے کر سکتے ہیں۔ 1998ء میں بی جے پی کی حکومت نے جوہری دھماکے کیے جن کی وجہ سے پاکستان کو بھی یہی اقدام کرنے کا سنہری موقع ملا۔ جنرل درانی کا ماننا ہے کہ بی جے پی جیسی سخت گیر بھارتی سیاسی جماعتیں ایسے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جو شاید کانگریس نہ کر سکے۔ جنرل درانی سمجھتے ہیں کہ کشمیر کیلئے موزوں نعرہ ’’تنازع سے تعاون‘‘ ہوسکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے تناظر میں مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے دونوں ملکوں کی ایجنسیوں کے سربراہان نے مفصل انداز سے اس ایشو پر بات کی ہے۔ کتاب میں کشمیر پر پورے 6؍ باب ہیں۔ جنرل درانی کے مطابق مسئلہ کشمیر کا کوئی براہِ راست حل موجود نہیں۔ منقسم یا مشترکہ زیر انتظام کشمیر کی بجائے یا زیر بحث کسی اور فارمولے کی بجائے بالواسطہ طور پر کوئی راستہ اختیار کرنا ہوگا جس میں چھوٹے چھوٹے اقدامات، جیسا کہ بس اور تجارت، سے شروعات کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو کا مشورہ اچھا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایسی چیزیں کیسے نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں، کیا ہمیں سب چاہئے یا کچھ نہیں چاہئے؟ کیا یہ صرف ایسا ہی ہے کہ لے لو یا چھوڑ دو؟ جب ہمیں سب کچھ چاہئے یا کچھ نہیں چاہئے تو ممکنہ طور پر ہمیں کچھ نہیں ملتا۔ لیکن یہ بھی ہے کہ جس کسی نے بھی یہ پوچھا ہے کہ کیا آپ یہ لینا چاہتے ہیں یا چھوڑنا چاہتے ہیں تو اس کا ممکنہ مطلب آپ کا امتحان لینا ہوتا ہے۔ لہٰذا، جیسا بھٹو نے کہا، جتنا لے سکتے ہو لے لو۔ درانی نے مشورہ دیا ہے کہ دہلی اور اسلام آباد کو چاہئے کہ پچھلی نشست پر بیٹھیں اور چھوٹے چھوٹے اقدامات، جیسا کہ تھوڑی تجارت سے اور لوگوں کو آپس میں گھلنے ملنے کا موقع دیا جائے۔ ہمیں کوئی طریقہ دوبارہ ایجاد نہیں کرنا۔ ہمارے سامنے موجود لوگ، جو ذہین ہیں، نے عوامی سطح پر معاملات شروع کرنے کا طریقہ تلاش کر رکھا ہے۔ تھوڑی نقل و حرکت، تھوڑی تجارت، لوگوں کو ان معاملات میں مصروف کریں اور دہلی و اسلام آباد پچھلی نشست پر بیٹھ جائیں۔ جیسے ہی لوگ اطمینان محسوس کریں گے تو لوگ شاید خود ہی یہ کہیں کہ ہم آپ دو ملکوں کے درمیان کوئی ایسا اہم مسئلہ نہیں بننا چاہتے جو جنگ وغیرہ کا سبب بنے۔ ہم سب جیسے ہی ویسے ہی ٹھیک ہیں۔ اسٹیٹس میں کوئی تبدیلی نہ کریں، کوئی بڑی بات نہ کریں۔ دونوں ملک ہماری مثال پر عمل کریں گے۔ لیکن یہ طریقہ کار بالواسطہ ہونا چاہئے۔ بات چیت جاری رکھیں اور یہ نہ کہیں کہ آخر میں آپ کو کیا چاہئے۔ جب بات تنازع طے کرنے کی آئے تو اسے انقلابی عمل ہونا پڑے گا۔ اور سب کو یہ روایتی عقلمندی کی بات یاد رکھنا ہوگی کہ ہمیشہ آپ کو جو چاہئے وہ نہیں ملتا۔ جو آپ کو مل سکتا ہے اتنا ہی لے لیں۔ آپ ایسا نہیں کہہ سکتے کہ ختم، چھٹی۔ جتنا مل رہا ہے اتنا لیں، صورتحال بہتر کریں، اور اس کے بعد پانچ، اٹھ یا دس سال کے مناسب عرصہ کے بعد میز پر واپس آئیں اور سوال اٹھائیں کہ پناہ گزینوں کی واپسی کا کیا ہوگا؟ کشمیر کے معاملے میں، یہ طریقہ کار مسئلے کے حل پر بات چیت کا طریقہ ہو سکتا ہے۔ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے سابق چیف اے ایس دولت نے مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کہانی یہ ہے کہ جب شیخ عبداللہ 1975ء میں افضل بیگ کے ساتھ معاہدے پر آگے بڑھے تو انہوں نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو پاکستان بھیجا۔ ڈاکٹر فاروق نے ذوالفقار بھٹو سے ملاقات کی جنہوں نے مبینہ طور پر فاروق کو بتایا کہ ’’اس موقع پر ہم آپ کی مدد کیلئے کچھ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا، جتنا آپ لے سکتے ہیں لے لیں۔ اگر آپ کو کشمیر میں امن اور اقتدار کی پیشکش کی جا رہی ہے تو یہ قبول کرلیں۔‘‘ دولت نے مزید کہا ہے کہ کشمیر میں ایک اور کہانی یہ بھی تھی کہ یاسین ملک کو امریکیوں نے مشورہ دیا تھا کہ دہلی کے ساتھ تجارت کریں۔ جب یاسین نے کہا کہ دہلی ناموزوں ہے تو انہیں بتایا گیا کہ جو آپ کو مل رہا ہے آپ کو وہ لینا چاہئے۔ یاسین کو بتایا گیا کہ یہ حتمی انتظام نہیں ہے لیکن اگر کوئی پیشکش آتی ہے تو اسے قبول کرنا چاہئے۔ اسے آپ سیمی فائنل کہیں یا کوارٹر فائنل؛ اور کون جانتا ہے کہ کیا ہو جائے؟ یہی وہ بات ہے کہ جس کا پرچار ڈاکٹر فاروق عبداللہ متعدد مرتبہ کر چکے ہیں۔ کشمیر میں آپ کوئی چیز تبدیل نہیں کر سکتے۔ سابق را چیف نے کہا کہ جو ان کا ہے وہ ان کا ہی ہے، جو ہمارا ہے وہ ہمارا رہے گا۔ کوئی بات فرض نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں کنٹرول لائن کا معاملہ طے کرنا ہے۔ یہ کام کئی طریقوں سے کیا جا سکتا ہے، اور ممکن ہے کہ اتنے بے ڈھنگے انداز سے نہیں جتنا فاروق بتاتے ہیں۔ لیکن یہ مشرف کے چار نکاتی فارمولے کا ہی جوہر تھا: ایل او سی پلس۔ ایل او سی کو اس انداز سے بنایا گیا تھا کہ دونوں فریقین جیت جائیں، کوئی نہیں ہارا۔ یہی وہ بات ہے جہاں آگے بڑھنے کا طریقہ موجود ہے۔ پاکستان اس جگہ ہے جہاں کشمیر انہیں موزوں لگتا ہے۔ دہلی بظاہر سمجھتا ہے کہ ہم سب درست ہیں، کشمیر میں کوئی مسئل نہیں۔ مودی کے الیکشن کے حوالے سے سابق آئی ایس آئی سربراہ لکھتے ہیں کہ مودی کے الیکشن پر پاکستان میں رد عمل یہ تھا کہ یہ بھارت کیلئے درست ہے۔ مودی کو بھارت کا خیال رکھنے دیں، اس کا امیج خراب کریں، اور ممکنہ طور پر ملک کا اندرونی توازن بھی خراب ہو۔ میں ان کی چالوں سے متاثر نہیں ہوں۔ پاکستان کو افغانستان میں مشکل صورتحال سے دوچار کرکے اسے کیا ملا؟ وہ رائیونڈ آ کر نواز شریف کی پوتی کی شادی میں شرکت کرتے ہیں، اور ان کے اس ڈرامے اور تماشے نے شاندار ہیجانی کیفیت پیدا کی۔ لوگ حیران و پریشان رہ گئے اور وہیں کھڑے رہ گئے۔ میں واجپائی جیسے شخص کو ترجیح دوں گا جس نے کچھ حاصل تو نہیں کیا لیکن اس کا طریقہ درست تھا۔ آئی ایس آئی کا بھارت میں ترجیحی رہنما کون ہو سکتا ہے کے سوال پر بات کرتے ہوئے جنرل درانی کا کہنا ہے کہ سخت گیر لوگ ہی سخت فیصلے کر سکتے ہیں۔ یہ بات مجھے 1997ء کے آخر میں 1998ء کے الیکشن میں بے جے پی کی جیت سے قبل ایک واقعے کی یاد آگئی۔ میں نے دی نیوز اسلام آباد میں ایک آرٹیکل شایع کیا تھا کہ انڈیانہ بھیڑیے سے کون خوفزدہ ہے۔ یہ آرٹیکل اس بارے میں تھا کہ ہمیں بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ ہمارے لیے اچھا ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر زیادہ نہیں تو بھارت کے سیکولر ملک ہونے کی شبیہہ خراب ہو جائے گی۔ چند ہفتوں بعد اس جگہ دھماکا ہوا جہاں ایڈوانی کو خطاب کرنا تھا، اس سے بی جے پی کی حمایت میں اضافہ ہوا، یہ جنوبی بھارت میں زیادہ نہیں تھی۔ دھماکے کے بعد سوئٹزرلینڈ میں ایک اخبار نے میرا آرٹیکل شایع کیا اور اسے مذکورہ واقعے سے جوڑ دیا اور اپنی رپورٹ میں بتایا کہ درانی کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی کامیابی ان کیلئے اچھی ہو سکتی ہے، دھماکے کے پیچھے آئی ایس آئی کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ وہ لوگ منتخب ہوگئے اور میں نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ وہ جوہری دھماکے کریں کیونکہ اس سے ہمیں بھی ایسا ہی کرنے کا سنہری موقع مل جائے گا۔ واجپائی حخومت نے ہمیں یہ تاثر دیا کہ بھارتی اقتدار میں مسلم چارا دینے والا (Muslim Baiter) ضروری نہیں کہ بری بات ہو۔ یہ پارٹی ایسے فیصلے کر سکتی ہے جو شاید کانگریس نہ کر پائے۔ جنرل درانی کے مطابق، مودی شو مین ہے۔ اسے تماشا پسند ہے۔ اسے پسند ہے کہ لوگ اندازے لگائیں وہ جانتا ہے کہ ڈھاکا اور کابل میں پاکستان کو نقصان پہنچانے کے بعد اگر وہ فوراً اور اچانک لاہور پہنچ جائے تو لوگ حیران رہ جائیں گے اور کہیں کہ کیا آدمی ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس سے ہم معاملات طے کر سکتے ہیں لیکن خطے کیلئے کوئی اچھا کام کرنا اس کی نیت میں شامل نہیں، اس کی صرف یہی سوچ ہے کہ اپنے ملک پر اثرات مرتب کر سکے، وہ چالاک ہے۔ نواز شریف کی سیاست پر بات کرتے ہوئے سابق آئی ایس آئی چیف کا کہنا تھا کہ میاں صاب کے ساتھ کیمیسٹری کام نہیں کرتی کیونکہ میاں صاب کیمیائی انداز سے کام نہیں کرتے۔ وہ جبلتاً کام کرتے ہیں یا شاید کاروباری اور مالی سوچ سمجھ کے مطابق۔ وہ جانتے ہیں کہ سیاسی طور پر ملک میں کس طرح زندہ رہنا ہے، لیکن عالمی تعلقات کے بارے میں ان کی سوچ ایک اونٹ جیسی ہے۔