گیراج سے شروع ہوا گوگل کا راج

June 04, 2018

کچھ معلوم کرناہو، تلاش کرنا ہو، گیم کھیلنا ہو، تفریح کرنی ہو، اور کچھ نہیںتو یہ چیک کرنا ہو کہ انٹرنیٹ چل رہاہے یا نہیں، ہم google.com ٹائپ کرتے ہیں۔ لگتاہے آکسیجن کے بعد شاید گوگل ہی ہے جو کروڑوںلوگوںکی زندگی چلا رہاہے ۔وہ کہتے ہیںناں ایک آئیڈیا زندگی بدل سکتاہے تو گوگل بھی انہیںآئیڈیا ز میں سے ایک ہے جو آج سے 12 سال پہلے اسکرین پر نمودار ہوا اور پھر دنیا پر چھاگیا کیونکہ انٹرنیٹ کی دنیا 18 اگست 2004 تک ایسی نہ تھی جو آج ہے۔

شروعات کیسے ہوئی

گوگل کی تخلیق کیلی فورنیا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے نوجوان طالب علموں لیری پیج اور سرگےبرن کے درمیان ہونے والی ملاقات سے ہوئی۔دونوں پی ایچ ڈی کے طالب علم تھے، انہوں نے پہلی ملاقات میں تو کسی چیز پر اتفاق نہیں کیا لیکن جلد ہی وہ ایک انقلابی فیصلہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔انہوں نے ورلڈ وائڈ ویب (ڈبلیو ڈبلیو ڈبلیو) یعنی انٹرنیٹ پر موجود صفحات کو ملانے کے لیے ابتدائی طور پر بیک رب نامی ایک سرچ انجن بنایا جو مختلف شکلوں میں تبدیل ہوکر بلا آخر گوگل بنا۔اگلے ہی 3 سالوں میں ان کا یہ سرچ انجن نہ صرف تعلیمی اداروں میں کامیاب ہوا بلکہ اس نے ٹیکنالوجی اداروں کی توجہ بھی حاصل کرلی۔ پہلی بار اگست 1998 میں ٹیکنالوجی کے ادارے سن مائیکرو سسٹمز کے شریک بانی، اینڈی بیچلوشیم، نے انہیں ایک لاکھ ڈالر کا سرمایہ فراہم کیا۔ ستمبر1998 میں گوگل کی نجی کمپنی کے طور پرتشکیل ہوئی۔نئے کارپوریٹ ادارے نےکیلی فورنیا کے مینلو پارک میں موجود ایک گیراج سے کام کا آغاز کیا۔ اس گیراج کو کرائے پر حاصل کیا گیااور آگے چل کر یہ ادارے کا مرکزی دفتر بنا۔ اس گیراج کی مالکن سوزن وجوکی پہلے گوگل کی مارکیٹنگ مینجر بنیںاور پھراسی ادارے کی کمپنی’یوٹیوب‘ کی چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) بن گئیں۔اسی گیراج کی حدود کو بڑھا کر مائونٹین ویو تک پھیلایا گیا، جہاں آج گوگل پلیکس کے نام سے دنیائے انٹرنیٹ کے اس سب سے بڑے ادارے کا ہیڈ کوارٹر موجود ہے۔گوگل کا پہلا ڈوڈل 1998 میں ہی بنایا گیا، پھر ایک کے بعد ایک اور ہر ملک کے لیے الگ الگ اور خصوصی مواقع پر بھی اسپیشل ڈوڈل بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ آج گوگل کے دفاتر دنیا کے 50 ممالک میں موجود ہیں جن میں60 ہزار ملازمین کام کررہے ہیں۔آج دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں گوگل پرمختلف چیزیں سرچ نہ کی جاتی ہوں، یوٹیوب پر ویڈیوز نہ دیکھے جاتے ہوں، جی میل سے ای میل نہ کی جاتی ہو، اور اینڈرائڈ سسٹم کے ذریعے فون نہ چلائے جاتے ہوں۔

1999ء میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب گوگل کے بانیوں (لیری اور سرگے) کو محسوس ہوا کہ گوگل ان کا بہت زیادہ وقت لے رہا ہے اور اس سے ان کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ لہٰذا انہوں نے گوگل بیچنے کا سوچا اور ’’Excite‘‘ کے چیئرمین جارج بل کو دس لاکھ ڈالر کے عوض گوگل فروخت کرنے کی پیشکش کی، مگر جارج نے یہ سودا ٹھکرا دیا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد 7 جون 1999ء کو چند بڑے سرمایہ کاروں اور دو ’’ونچر کیپیٹل فرمز‘‘ کی طرف سے گوگل کے لئے 25 ملین ڈالر کی مرحلہ وار سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا۔ یہ سرمایہ کاری گوگل کے لئے اہم سنگِ میل ثابت ہوئی۔

اس کے بعد گوگل نے ایسے ترقی کی کہ پہلے جو کمپنی خود فروخت ہو رہی تھی اب وہ دوسری کمپنیوں کو خریدنے لگی۔ گوگل (Google) کا نام لفظ Googol کی بنیاد پر رکھا گیا تھا۔ Googol ایک بہت بڑے عدد کو کہتے ہیں۔ ایسا عدد جس میں ایک کے ساتھ سو صفر لگتے ہیں۔ لفظ گوگل بنا تو Googol سے ہی ہے مگر اس کے متعلق کئی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ گوگل میں سب سے پہلے سرمایہ کاری کرنے والے نے لیری اور سرگے کو جو پہلا چیک دیا اس پر غلطی سے Googol کی بجائے Google لکھ دیا تھا۔ چیک درست کرانے کی بجائے لیری اور سرگے نے Google کو ہی بہتر جانا اور اسی نام سے کمپنی رجسٹرڈ کرا لی۔

ایک کہانی یہ بھی سننے کو ملتی ہے کہ جب ویب سائٹ کا نام (ڈومین نیم) رجسٹر کرانے لگے تو نام ٹائپ کرنے والے نے غلط اسپیلنگ لکھ دی۔ جس پر لیری نے کہا کہ ’’پاگل! تم نے اسپیلنگ غلط لکھ دی ہے مگر کوئی بات نہیں کیونکہ Googol.com پہلے سے ہی رجسٹر ڈہے اور ہمیں نہیں مل سکتا، اس لئے Google.com ہی بہتر ہے۔‘‘ خیر نام رکھنے کے متعلق اول الذکر بات میں صداقت نظر نہیں آتی کیونکہ googol.com ویب سائٹ 1995ء سے ہی رجسٹرڈ تھی۔ اب ایک کمپنی جس کی بنیاد ہی انٹرنیٹ ہو تو اس کمپنی کے نام کی ویب سائٹ ملنا سب سے پہلی بات ہوتی ہے۔

یقینا گوگل کے بانیوں نے بھی ویب سائٹ ملنے نہ ملنے کی بنیاد پر نام رکھنا تھا۔ ویسےدوسری کہانی میں کچھ صداقت معلوم ہوتی ہے۔ بہرحال ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ لیری اور سرگے نام تو Googol ہی رکھنا چاہتے تھے مگر جب انہیں معلوم ہوا کہ اس نام کی ویب سائٹ پہلے سے ہی رجسٹر ڈہو چکی ہے تو انہوں نے اس کی اسپیلنگ میں تبدیلی کر کے Google کر لیا۔ ویسے نام کے متعلق گوگل نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہوا ہے کہ نام کی بنیاد لفظ Googolہے جس میں ترمیم کر کےاسے Google رکھا گیا۔

ملازم نہیںشہزادے

گوگل کمپنی میں 55ہزار سے زیادہ افراد ملازم ہیں۔ زمین کے چپے چپے پر اس کمپنی کی خدمات پہنچ رہی ہیں۔ گوگل نے اپنے ملازمین کو شہزادوں والی زندگی مہیا کی ہےاور ملازمین کو بہترین دفاتر فراہم کرنے کے لیے اربوں روپے خرچ کیے ہیں۔ بھرپور کوشش کی جاتی ہے کہ ملازمین کی چھپی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں، انہیں دفتر میں اجنبی ماحول نہ ملے اور وہ بھرپور تن دہی سے تخلیقی کام کرسکیں۔

گوگل کے دفتر میں ایک قانون سب پر لازم ہے کہ کوئی بھی ملازم کھانے پینے کی اشیاء سے 100 میٹر سے زیادہ دور نہیں جاسکتا۔ اس لیے ہر طرف کچن ہیں، جن میں مفت چائے اور کھانا دستیاب ہوتا ہے۔ دن میں تین بار تمام ملازمین کو انواع و اقسام کے مفت اور مزےدارکھانے پیش کیے جاتے ہیں۔ کھانے میں پانچ سے چھ مختلف ڈشز ہوتی ہیں یعنی جو، جتنا جی چاہے کھائے، چائے اور کافی کا کوئی ٹائم مخصوص نہیں ہے بلکہ جب کسی ملازم کا جی چاہے وہ جا کر چائے یا کافی آرڈر کرے اورپی لے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسنیکس کا پورا کچن موجود ہے۔

ہفتے میں ایک بار ملازمین کی میٹنگ بلائی جاتی ہے۔ اس میٹنگ میں کمپنی مالکان موجود ہوتے ہیں اور کوئی بھی ملازم ان سے براہ راست سوال پوچھ سکتا ہے۔ ملازمین کے لیے لانڈری کا انتظام بھی موجود ہے گھر سے اپنے کپڑے لے آئیں اور یہاں لانڈری میں دے دیں اور جاتے ہوئے کپڑے لے جائیں۔ گوگل کے پاس اپنے ڈاکٹرز اور ڈینٹسٹ ہیں اور علاج بالکل مفت کیا جاتا ہے۔ اگر تھکن ہو رہی ہے تو مساج کا بھی کمرہ ہے ، جہاں آپ تھکنے کے بعد ذرا ریلیکس محسوس کریں گے۔ مساج کروا نے کے بعد نیند آ رہی ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔سونے کے لیے بیڈ روم میں چلے جائیں۔

گوگل کی کمائی

2017ء کے اختتام پر دیکھیں تو دنیا بھر میں گوگل کی مالی آمدنی 109.65بلین امریکی ڈالرتک پہنچ چکی تھی ، جس میںصرف 2015ء میںایڈورٹائزنگ کی مد میںحاصل ہونے والے 67.39 بلین امریکی ڈالر شامل تھے۔ مئی 2015 میں گوگل انٹرنیٹ کمپنیوںمیں510لین امریکی ڈالرز کے مارکیٹ کیپیٹل کے ساتھ دنیا بھر میں نمبر ایک پر تھی۔