ایشن گیمز کے لئے ہماری تیاری سے ہی نتائج کا اندازہ کیا جاسکتا ہے

June 05, 2018

شاہد شیخ

اقوام عالم میں کبھی ہماری پہچان ہاکی اور اسکواش کے حوالے سے تھی۔ پھر کرکٹ ہماری شناخت بنی ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستان ہاکی کرکٹ اسکواش اور اسنوکر کا بیک وقت کا عالمی چمپئن تھا۔ یہ ایک ایسا اعزاز تھا جو دنیا کی کوئی قوم آج تک بیک وقت حاصل نہیں کرسکی۔ ایشیا میں ہمارے اتھلیٹس کے نام کا شہرہ تھا۔ پاکستانی ریسلر ایشیا کی سطح پر بہترین مانے جاتے تھے۔ باکسنگ بھی وجہ شہرت تھی لیکن پھر ہم ترقی معکوس کا شکار ہو گئے۔ جس دور میں پاکستانی کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے تھے۔ اس دور میں خود احتسابی کا نظام قائم تھا۔ گلی محلے شہر اور ملک میں ملنے والی شہرت اس نظام کی بنیاد تھی۔ صلے کی تمنا کے بغیر حاصل کی جانے والی ان کامیابیوں کو انعام و اکرام کا بڑھاوا دینے کی ضرورت تھی لیکن اس مرحلہ تک پہنچتے ہوئے ہم نے بہت تاخیر کر دی۔ اس دوران میں کھیلوں سے مفادات حاصل کرنے والا ایک بڑا طبقہ معرض وجود میں آ گیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج اقوام عالم میں ہم اپنے کھلاڑیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ دہشت گردی کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم دہشت گردی کے سب سے بڑے متاثرین میں ہیں لیکن دنیا اس کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔

ملک میں کھیلوں کی ترقی کے نام پر چالیس سے زائد تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کو سرکاری امداد ملتی ہے۔ ان کی نگرانی کیلئے قائم اور ان کے کام کو منظم کرنے والی تنظیم پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن ہے لیکن غیر ملکی دوروں کا کلچر فروغ پانے کے بعد اولمپک ایسوسی ایشن کا کام ہمارے دیہات میں چالیسویں یا ولیمے کی روٹی برتانے والی ماسی برکتے یا بھاء طفیل جیسا ہو کر رہ گیا ہے۔ عین وقت پر کھانا برتانے کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لینا ان کرداروں کی پہچان ہے۔ بات ہو ر ہی تھی کھیل تنظیموں کو ملنے والی سرکاری امداد کی جس کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ اکا دکا کھیل کی تنظیمیں ایسی ہیں۔ جن سے وابستہ کھلاڑی اب بھی اپنی محنت کے بل بوتے پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ حکومت سرکاری سطح پر کھلاڑیوں کی اس کارکردگی کا اعتراف بھی کرتی ہے۔ موجودہ قوانین کے تحت کھلاڑیوں کو انعام سے نوازا جاتا ہے لیکن اس کیلئے قوانین کی بجائے کھلاڑی صاحب اقتدار شخصیات کی نظر کرم کے محتاج رہتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ایک ارب روپے کے لگ بھگ اسپورٹس کے سرکاری بجٹ کا مصرف کیا اور کیسے ہو۔ فی الوقت تو اس بجٹ کابڑا حصہ کھیلوں کے نام پر بننے والی سرکاری عمارتوں اور ان عمارتوں کے مکین سرکاری بابوئوں کے نام پر خرچ ہو جاتا ہے۔ کھلاڑیوں کے حصہ میں چند کروڑ روپے آتے ہیں اور ان کی تقسیم اخراجات اور ترجیحات پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ کھیلوں کی ترویج کیلئے ایک صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ کھیلوں کی تنظیمیں نجی اداروں کو آگے لائیں۔ نجی اداروں کی سرپرستی ان کیلئے تشہیر کا ذریعہ بنے گی۔ کھیل بھی ترقی کریں گے۔ کرکٹ اور کبڈی لیگ اس کی بڑی مثال ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک میں یہ تجربہ کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ بھارت میں اولمپک میڈلسٹ سائنا نہوال تنہا کروڑوں روپے کے معاہدے کما چکی ہے۔ حال ہی میں لاہور میں کبڈی لیگ کروائی گئی۔ خامیوں کمزوریوں کے باوجود اس کبڈی لیگ نے اپنے مالکان کو نہال کیا ہے۔ اس میں دس غیر ملکی کھلاڑی بھی شامل تھے۔ تمام ٹیموں کو معاوضہ دیا گیا۔ ایک صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ کھیل تنظیمیں اپنی اپنی پروفیشنل لیگ کروائیں۔ تنظیم یعنی فیڈریشن کے سیکرٹری کو چیف ایگزیکٹو کا باتنخواہ عہدہ دیا جائے۔ جس کھیل میں دم ہو گا۔ وہی لیگ زندہ رہ سکے گی۔ سرکاری وسائل پر زندہ رہنے والے دم توڑ جائیں گے۔ ایسے کھیلوں کو مقبولیت حاصل ہو گی۔ جن کو عوام دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر قوموں کی زندگی میں کھیلوں کی اہمیت نہ ہوتی تو ترکمانستان پانچ ارب ڈالر کی لاگت سے اشک آباد میں اسپورٹس سٹی کی تعمیر نہ کرتا۔ اس سٹی میں ایشین مارشل آرٹس اینڈ انڈور گیمز کا انعقاد ہو چکا ہے اور اب یہ شہر ایشین گیمز یا اولمپکس کی میزبان کیلئے تیار ہے۔ ہماری اسپورٹس فیڈریشنز کے بیشتر سربراہان اپنے اپنے شعبوں سے ریٹائرمنٹ کے بعد اس پیشے میں آتے ہیں۔ بعض اوقات کسی حاضر سروس سرکاری عہدیدار کو کھیلوں کیلئے فوائد حاصل کرنے کی غرض سے سربراہ بنایا جاتا ہے لیکن کھیل سے دلچسپی نہ ہونے کے باعث کچھ ہی عرصہ بعد اس سرکاری عہدیدار کیلئے یہ عہدہ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے یا پھر یہ ریٹائر عہدیدار سرکاری فنڈز کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اگر حکومت ان تنظیموں کو سرکاری فنڈز دینے سے انکار کر دے تو وہی عہدیدار باقی رہ جائیں گے۔ جن میں نجی شعبے کے تعاون سے کھیل کو چلانے کا شوق اور جذبہ موجود ہو گا۔ نجی شعبے میں اس قدر توانائی موجود ہے کہ اس کے تعاون سے اگر دس ٹیموں کی کبڈی لیگ کروائی جا سکتی ہے۔ والی بال کو سپانسر مل سکتا ہے۔ کرکٹ کروڑوں روپے کما رہی ہے۔ تو عوام کی پسند کی بنیاد پر دیگر کھیل بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ فیڈریشن چلانے والوں کو علم ہونا چاہئے کہ ان کا کھیل کیسے فروخت کیا جا سکتا ہے۔ برطانیہ میں حکومت نے سرکاری لاٹری سے ملکی کھیلوں کی فنڈنگ شروع کی تھی۔ اس کی بدولت 1997ء سے اب تک برطانیہ نے اولمپکس اور اسپیشل اولمپکس میں 633میڈل حاصل کئے ہیں۔ واضح رہے کہ لاٹری سے فنڈنگ جن 17 مختلف شعبوں کو کی جاتی ہے۔ ان میں کھیل بھی ایک ہے ۔

کبڈی کی طرح ریسلنگ اور والی بال میں پروفیشنل لیگ شروع کی جا سکتی ہے۔ اگر صرف عہدیداروں کی قابلیت پر بھروسہ اور انحصار کیا جا سکتا تو فیفا کی جانب سے لاکھوں ڈالر کی فنڈنگ کے باوجود پاکستان فٹ بال ٹیم دنیا میں 205 ویں نمبر پر نہ ہوتی۔ صوبوں میں اختیارات کی تقسیم کے بعد اب کھیلوں کے فروغ کی زیادہ تر ذمہ داری صوبائی حکومت پر آ گئی ہے لیکن ہماری فیڈریشنز ابھی تک وفاقی حکومت کی امداد پر چل رہی ہے۔ یہ ساری امداد مل کر بھی ایک کھیل کی ترقی کیلئے کافی نہیں ہے۔ سینکڑوں کھلاڑیوں، عہدیداروں پر مشتمل کسی بھی دستے کی بیرون ملک مقابلوں میں شرکت کیلئے اکثر ہمارے منتظمین یہ توجیہ پیش کرتے ہیں کہ ہم ملک کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن جدید دنیا میں اب نمائندگی برائے نمائندگی کا تصور ختم ہو چکا ہے۔ اب نمائندگی ٹارگٹ کو مد نظر رکھ کر کی جاتی ہے ہمارے جیسے کم وسائل کے حامل ملک کو تو اس بارے میں خاص طور پر محتاط ہونا چاہئے۔ آنے والی ایشین گیمز میں اس اصول کو اپنا لیا جائے تو بہت بہتر ہوگا۔