بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟

June 06, 2018

نام و نمود کی خواہش حد اعتدال میں رہے تو کچھ اتنی بری نہیں کیونکہ دنیا میں آج تک جتنے بڑے کام ہوئے ہیں ان کے پس پردہ یہ جذبہ بھی کافی حد تک کام کرتا رہا ہے لیکن بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ اس جذبے کو Infectionہو جاتی ہے۔ میڈیا میں کام کرنے والے لوگوں کو غالباً حشر کے دن خدا کے سامنے اس لئے بھی جواب دہ ہونا پڑے گا کہ ان کی بدولت یہ انفیکشن بہت بڑھ گئی ہے۔ مثلاً اگر کسی گھر میں چوری ہوگئی ہے تو سنسنی خیز قسم کے ابتدائیہ کے ساتھ اولاً اس گھر کی تصویر شائع ہوگی۔ جہاں چوری ہوئی پھر اس دروازے کی تصویر لی جائے گی جدھر سے چور داخل ہوا۔ صاحب خانہ کی تصویر کی اشاعت بھی لازمی ہے۔ اس کے بیوی بچوں کی تصویر چھپنے کے امکانات بھی کافی روشن ہوتے ہیں اگر اہل محلہ میں سے کسی نے یہ کہہ دیا کہ اس نے رات کو کچھ کھڑاک بھی سنا تھا اور کتوں کے بھونکنے کی آواز بھی سنی تھی تو اس اہل محلہ کی تصویر بھی لازماً سامنے لائی جائے گی۔ بلکہ اگر کوئی جو کیمرہ مین زیادہ مستعد ہے تو ممکن ہے وہ ان کتوں کی تصویر بھی اپنے ادارے کو مہیا کردے جو رات کو چوری کے وقت بھونکے تھے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یا رلوگ مشہور ہونے کے لئے کسی چھوٹے موٹے حادثے کی دعا مانگتے رہتے ہیں۔ ممکن ہے بعض ایک دو چار سو روپے کی چوری کا بندوبست بھی خود ہی کر ڈالتے ہوں اور جو لوگ اتنے صاحب حیثیت نہ ہوں کہ یہ ڈر سہہ سکیں وہ تمام رات بلکہ تمام راتیں جاگ کر کسی دوسرے گھر میں چور کی آمد کا انتظار کرتے ہوں تاکہ وہ آئے اور یہ کھڑاک سنیں اور پھر محلے داروں میں ان کا نام اور تصویر بھی اس وضاحت کے ساتھ آئے کہ محمد حسین جنہوں نے کھڑاک سنا۔
نام و نمود کی یہ انفیکشن خواص و عام ہر دو طبقوں میں موجود ہے۔ طبقہ خواص میں سے حزب اقتدار کے رہنمائوں کی کیفیت کچھ یوں ہے کہ جس روز مملکت کا انتظامی سربراہ یعنی وزیراعظم کسی دوسرے شہر میں ہوں تو ان کی پارٹی کے پیغام خاصی کثرت سے پہنچتے ہیں۔ آج ان کی تصویر وزیراعظم کے ساتھ ضرور شائع ہونی چاہئے بعض ایک تو اس خواہش کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔ سوشل ورک کرنے والی بیگمات کے اپنے مطالبات ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک طبقہ اور بھی ہے جو ذرا سی افسوسناک صورت حال کو ایکسپلائٹ کر کے اخبار میں اپنا نام نشر کرانا چاہتا ہے اور اس کی ’’ٹائمنگ‘‘ میں وہ کمال مہارت کا ثبوت دیتا ہے۔ مثلاً گزشتہ روز ایک صاحب اپنے کسی صحافی دوست کے ساتھ کا رمیں جارہے تھے کہ ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ صحافی کو تو بالکل معمولی چوٹے آئیں البتہ ان کے دوست جھٹکا لگنے سے کار سے باہر جا گرے۔ وہ کراہتے ہوئے بمشکل اپنے قدموں پر کھڑے ہوئے اور جب انہیں مرہم پٹی کے لئے اسپتال لے جایا جارہا تھا تو انہوں نے نیم مردہ آواز میں اپنے صحافی دوست سے کہا ’’ذرا خبر لگوا دینا احباب کو اطلاع ہو جائے گی‘‘۔ ایک شاعر میرے پاس آئے، یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اخبار میں نیوز پیچ پر کام کرتا تھا اور بتایا کہ ان کے بڑے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے۔ ذرا خبر لگا دیں۔ میں نے کہا لکھ دیجئے انہوں نے کاغذ قلم سنبھالا اور لکھا ’’برصغیر پاک و ہند کے ممتاز شاعر جناب انور راٹھوروی کے بڑے بھائی انتقال کر گئے۔ ہم نے عرض کی کہ اسے برصغیر پاک و ہند کے ممتاز شاعر آپ کا نام اس خبر میں ہے مگر بھائی کا نام نہیں ، مگر اس سے یوں لگتا ہے جیسے آپ فوت ہوگئے ہیں، بھائی خیریت ہے لہٰذا اس مظلوم کا نام بھی لکھ دیں جو فوت ہوا ہے دروغ برگردن راوی۔ ایک صاحب نے ایک صحافی دوست سے پوری سنجیدگی سے کہا ’’میں پاگل ہوگیا ہوں ذرا خبر لگا دینا سو اس معاملے میں اب میں اتنا وہمی ہوگیا ہوں کہ جب کسی فوٹو گرافرکو کسی میت کی تصویر اتارتے دیکھتا ہوں تو میرے رونگٹےکھڑے ہو جاتے ہیں کہ کہیں مرحوم بہتر پوز دینے کے لئے اٹھ کر نہ بیٹھ جائیں اور مسکرانا شروع کردیں کہ آخر یہ تصویر صبح اخبار میں شائع ہونی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)