ریحام لیکس !

June 07, 2018

دل جلانے، خون کے آنسو رلانے والے ’’ٹوٹے‘‘ پھر سے حاضرِ خدمت، پہلے بات وکی لیکس، ڈان لیکس، پاناما لیکس کے بعد ہو چکیں ریحام لیکس کی، سوا تین سو دنوں کی ازدواجی زندگی ،600صفحات کی کتاب ،کمال ہو گیا، کتاب کے پیچھے کون، انتخابات کے قریب ہی کیوں سامنے آئی، فائدہ کس کو، یہ سب بھی سامنے آ جائیگا، اب ڈھکی چھپی باتوں کا دور گزر گیا، لیکن بقول سینئر صحافی جاوید چوہدری، جو عورت شاہ رخ خان کے ساتھ چند سیکنڈ کے اشتہار کیلئے لاکھوں پاپڑ بیل جائے، جو لندن سے پاکستان آئے تو منزل عمران خان یا شہباز شریف، جو نفسیاتی مرض ’’بائی پولر‘‘ کی مریضہ، جو مقابلے باز ایسی کہ عمران خان کے کتے کے مقابلے میں لندن سے اپنا کتا لے آئے، جو چوری چھپے عمران خان کے موبائل کی تلاشیاں لیتی ملے (اس پر غصے میں آکر عمران خان کئی بار اپنا موبائل دیوار پر مار کر توڑ چکے)، جو بنا پوچھے پارٹی میٹنگز میں بیٹھ جائے، بات بات پر پارٹی خواتین کو بے عزت کر دے، زبردستی جلسوں، جلوسوں میں پہنچ جائے، کے پی وزراء کو ڈائریکٹ احکامات دینا شروع کر دے، جو عثمان ڈار کی جیب سے ٹویٹر کے ایک ملین فالورز خرید لے، جو فیصل واڈا سے فلم کیلئے پیسے مانگ لے، جو جاتے جاتے عمران خان کا بلیک بیری چوری کر کے لے جائے، جو بار بار وعدہ کرے کہ ازدواجی زندگی پر کبھی کچھ نہیں بولوں گی اور ہر بار وعدہ توڑ دے، جسے اپنی عزت کا خیال نہ سابقہ خاوند کا احترام، اس خاتون یا اس کی کتاب پر کیا بات کرنی، ہاں یہ ضرور کہنا کہ یہ کیسی عورت جس نے عورت ہو کر (وسیم اکرم کی بیوی) فوت ہو چکی عورت کو بھی نہ بخشا۔
156کمپنیوں میں سرکاری پیسے کا شاہانہ استعمال تو سب کے سامنے، چہیتے افسروں سے دامادِ اعلیٰ تک نوازشات کا بھی سب کو ہی پتا، لہٰذا بات کرتے ہیں شہباز شریف اور چیف جسٹس کے مکالمے کے اُس لمحے کی جب خادم ِ اعلیٰ نے 4سو کروڑ خرچ کر کے ایک بوند صاف پانی نہ پہنچا سکنے پر فرمایا ’’میں بھی انسان، اپنی کمی کوتاہی تسلیم کرتا ہوں‘‘ سجان اللہ۔ چھوٹے میاں صاحب کی ایک کمی، کوتاہی قوم کو پڑی 4ارب کی، کوئی مہذب ملک یا معاشرہ ہوتا تو اس کمی کوتاہی کے بعد وہ ہوتا کہ اگلے سو سال تک کسی کو ایسی کمی کوتاہی کی ہمت نہ ہوتی مگر یہ پاکستان، حوصلہ رکھیں، یہاں ایسی کمیاں کوتاہیاں آگے بھی ہوں گی۔ خواجہ آصف نااہل سے اہل ہو چکے اور یار لوگ خوشی کے شادیانے بجا رہے کہ خواجہ آصف نے تو اہل ہونا ہی تھا کیونکہ اُنہوں نے اپنا اقامہ، نوکری اور کمائی سب کچھ ڈیکلیئر کر رکھا تھا مطلب یہ تو جرم ہی نہیں کہ پاکستان کا وزیرخارجہ یو اے ای کی الیکٹرو مکینیکل کمپنی میں بحیثیت ’’ہنرمند مزدور‘‘ یوں کل وقتی ملازم کہ چھ دن کام کرنا، سال میں مہینہ چھٹی اور ایک بونس، سبحان اللہ۔
دوست رؤف کلاسرا کی تحقیق کہ گزشتہ سال پنجاب حکومت نے اپنے مقررہ بجٹ سے ایک ارب 36کروڑ اضافی خرچے اور وہ بھی یوں کہ شہباز شریف جو کبھی پیپلز پارٹی کو مخاطب کر کے کہا کرتے تھے کہ تم نے عوامی اور سرکاری پیسے سے ہیلی کاپٹر خرید لئے، مجھ پر۔ میں موٹر سائیکل، سائیکل پر سفر کر لوں گا، مگر ہیلی کاپٹر نہیں خریدوں گا، مگر نہ صرف ہیلی کاپٹر خریدا بلکہ ایک کروڑ روپے لگا دیئے اس کی مرمت پر، یہی نہیں اس اضافی بجٹ میں وزیراعلیٰ دفتر سمیت مختلف محکموں کیلئے 84کروڑ 43لاکھ کی گاڑیاں لے لیں، شہباز شریف کے دوروں پر لگے 38کروڑ، جاتی امرا کی سیکورٹی بہتر بنانے کیلئے خرچ ہوئے ڈیڑھ کروڑ، وزیراعلیٰ اور کابینہ ممبران نے وفاقی حکومت کا جو ہیلی کاپٹر استعمال کیا، اس کا کرایہ دیا 12کروڑ 16لاکھ، وی آئی پی ڈیوٹی پر مامور سیکورٹی اہلکاروں کو اعزازیہ دیا 3کروڑ، صحت کے منصوبوں کی تشہیر کیلئے مختص فنڈ کے علاوہ مزید لگے 42کروڑ، گورنر پنجاب رفیق رجوانہ نے علاج کروایا 52لاکھ کا اور وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے چیف پائلٹ کو 1 کروڑ دے کر کہا کہ جاؤ بیرون ملک ٹریننگ کر آؤ، یہ بھی رؤف کلاسرا کی ریسرچ کہ گزشتہ دو سالوں میں قومی اسمبلی ممبران نے جعلی حاضریاں لگا کر ایک کروڑ 80لاکھ بٹور لئے، یاد رہے کہ قومی اسمبلی ممبر کو ایک سیشن کے ملیں 5ہزار، یہاں سوچنے کی یہ بات کہ جو رہنما جعلی حاضریاں لگا کر 5ہزار نہیں چھوڑتے، ان کے حوالے ہم نے ملک کیا ہوا۔
ویسے تو دس سالہ اقتدار کے آخری دن شہباز شریف سے یہ سن کر تسلی ہو چکی تھی کہ ’’اگر اب لوڈشیڈنگ ہوئی تو میں ذمہ دار نہیں‘‘، لیکن نواز شریف نے یہ فرما کر تو ٹھنڈ ہی ڈال دی کہ ’’لوڈ شیڈنگ کی ذمہ دار نگراں حکومت‘‘ ہوسکتا ہے کہ کسی دن نواز شریف یہ بھی کہہ دیں گے کہ پاناما سے اقامہ تک سب کیا دھر ا بھی انہی نگرانوں کا، حد ہی ہوگئی، باقی چھوٹے میاں صاحب کے بجلی کے حوالے سے دعوے اور اصل صورتحال دیکھ کر یاد آیا کہ کہیں سردیوں میں شہباز شریف جیسے کسی سیانے میزبان کے گھر مہمان آگیا، رات کو جب مہمان کہہ بیٹھا کہ ’’جو رضائی مجھے دی گئی وہ اتنی چھوٹی کہ منہ پرلوں تو پاؤں ننگے، پاؤں پر لوں تو منہ ننگا‘‘ تو میزبان بولا ’’آپ رضائی منہ پر لے کر لیٹو، مسئلہ حل کرتا ہوں‘‘ مہمان رضائی منہ پر ڈال کر لیٹا تو میزبان نے اس کے دونوں پاؤں پر دو چار چھڑیاں رسید کر دیں، مہمان نے گھبرا کر ٹانگیں دہری کر کے پاؤں رضائی کے اندر کر لئے، میزبان بولا ’’لو بھائی میں نے تمہارا مسئلہ حل کر دیا، اب تم جانو اور رضائی جانے‘‘، شہباز شریف صاحب شکریہ آپ نے تو بجلی کا مسئلہ حل کر دیا تھا، اب لوڈشیڈنگ جانے اور قوم۔
ملاحظہ ہو ترجیحات کا فقدان، ایک طرف لاہور کی اورنج ٹرین کیلئے چین سے قرضہ لیا گیا 162ارب اور اس پر سالانہ سود 10ارب، اب ٹرین کے 14ارب سالانہ ٹکٹ خسارے کو شمار نہ کریں تو بھی سود ملا کر قرضہ بنا 172ارب، اب دوسری طرف پورے پنجاب کی تعلیم، صحت، پانی کی فراہمی، ویمن ڈیویلپمنٹ اور سماجی تحفظ کا بجٹ 168ارب 48کروڑ، مطلب پورے صوبے کی صحت، تعلیم، پانی، خواتین کی ترقی اور سماجی تحفظ کا بجٹ صرف لاہور کی 27کلو میٹر والی اورنج ٹرین سےبھی کم ۔
ویسے تو میرے محبوب قائد ڈیکلیئر صادق و امین نہیں، لیکن حضرت علی ؓکے اس قول کو سامنے رکھتے ہوئے کہ ’’یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا، یہ دیکھو کیا کہہ رہا‘‘، چند باتیں میاں صاحب کی اس پریس کانفرنس پر جس میں سال بھر ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی بتی کے پیچھے لگا کر اچانک قوم کو یہ خوشخبری سنادی کہ ’’مجھے پتا، مجھے کیوں نکالا ‘‘لیکن بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتا دوں کہ میرے بغاوتی، انقلابی اور مزاحتمی قائد کا 3بار وزیراعظم بن کر، 37سالہ سیاست کے بعد اور68سال کا ہو کر بھی سیاسی ویژن کا حال یہ کہ پریس کانفرنس میں ایک طرف بیٹھے پرویز رشید اور دوسری طرف براجمان مشاہد حسین، یعنی ایک طرف پرویز مشرف دور میں جیلیں کاٹنے اور ماریں کھانے والا پرویز رشید جبکہ دوسری طرف پرویز مشرف کا ساتھی مشاہد حسین اور جب میاں صاحب پرویز مشرف کو کوس رہے تھے تو ساتھ ساتھ مشاہد حسین کی تعریفیں بھی کر رہے تھے، بہرحال پریس کانفرنس میں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی پہلی وجہ میاں صاحب نے بتائی کہ ’’میں نے خارجہ پالیسی کو نئے رخ پر استوار کرنے کی کوشش کی‘‘ حقیقت یہ کہ میاں صاحب نے 4سال ملک کا وزیر خارجہ ہی نہ لگایا اور اوپر سے ان چار سالوں میں سوا ارب کے 100دوروں کے بعد قوم کو ملی عالمی تنہائی، ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی دوسری وجہ یہ کہ ’’میں نے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنایا‘‘حقیقت یہ کہ اس پھسپھسے مقدمے کے غبارے سے تو ہوا اسی دن نکل گئی تھی جس روز میاں صاحب نے انہیں باہر جانے دیا اور پھر دو سال تک واپس لانے کی جعلی سی کوشش بھی نہ کی، مجھے کیوں نکالا کی تیسری وجہ یہ کہ ’’میں نے سر جھکا کر نوکری نہیں کی‘‘ حقیقت یہ کہ دھرنوں پر مشاہد اللہ کے انٹرویو کے بعد انہیں سرجھکا کر فارغ کیا اور سر جھکا کر نوکری کی، ڈان لیکس کے بعد طارق فاطمی اور پرویز رشید کو سرجھکا کر فارغ کیا اور سرجھکا کر نوکری کی، پرویز مشرف کو سرجھکا کر جانے دیا اور نااہلی تک سرجھکا کر نوکری کی اور تو اور بقول میاں صاحب جب دھرنوں کے دوران انہیں ایک خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے پیغام بجھوایا کہ ’’مستعفی ہو جاؤ یا لمبی چھٹی پر چلے جاؤ‘‘ اگر ایسا ہوا تب بھی میاں صاحب نے اپنے ماتحت ایجنسی کے سربراہ کو اس گستاخی پر برطرف کرنے کی بجائے سرجھکا کر نوکری کرنے کو ہی ترجیح دی، میاں صاحب نے اپنی پریس کانفرنس میں آگے فرمایا ’’کاش لیاقت علی خان اور ذوالفقار بھٹو کی روح سے کوئی پوچھ سکتا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا، میاں صاحب پہلی بات تو یہ کہ بھٹو صاحب کو پھانسی آپ کے پیرومرشد ضیاء الحق نے دی اور اگر بھٹو صاحب کو پھانسی نہ ہوتی، یا ضیاء الحق کا مارشل لاء نہ لگتا تو آج آپ اتفاق فونڈری میں بیٹھے کاروبار کر رہے ہوتے جہاں تک بات ہے لیاقت علی خان کی روح کی تو کاش کسی روز قائداعظم کی روح سے بھی یہ پوچھ لیں کہ جو حال پاکستان کا ہو چکا، اس پر وہ کیا محسوس کر رہے، لیکن میاں صاحب آپ چھوڑیں ان باتوں کو، آپ ووٹ کو عزت دو کی آڑ میں اپنا کام جاری رکھیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)