نصر اللہ بلوچ جو فنکاروں میں ہنر بانٹنے کا فن جانتا ہے

June 11, 2018

Your browser doesnt support HTML5 video.






کہتے ہیں کہ علم کسی کی میراث نہیں جو کوئی علم کے حصول کی کو شش میں لگا رہا وہ دنیا کو کچھ نیا دینے میں کا میاب ہوگیا ۔


نصر اللہ بلوچ بھی انھی لوگوںمیںسے ایک ہیں جو مصوری اور دیگر فنون لطیفہ کے ذریعے دنیا کو کچھ نیا دینے کی جستجو میںہیں۔

اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے نصراللہ بلوچ نے اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے پانچ روزہ تربیتی ورکشاپ منعقد کی جس میں کوٹر ی ،جامشورو کےتقریباً 50 طلبا و طالبات نے مصوری کے اسرار و رموز سیکھے۔

ورکشاپ کے دوران طلبہ نے مختلف قسم کے کرافٹس اور اسکیچز بھی بنائے ۔انہیںدیکھ کر نصر اللہ بلوچ نے بے ساختہ خوش ہوکر کہا کہ اندرون سندھ میںوسائل کی کمی کے باوجود طلبہ میں مصوری کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے ، بس زرا اس فن میںطلبہ کو ’پالش ‘ کرنے کی ضرورت ہے۔

نصراللہ بلوچ ایک ماہر آرٹسٹ ہیں ۔ انہوں نے 1996 میں فائن آرٹس میں ایم اے کرنے کے بعد کراچی کے اسکولو ں میں طلبہ کو ان فنون کی تعلیم سے آراستہ کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ 20 سال تک کراچی میں طلبہ کو فائن آرٹس پڑھاتے رہے۔ ان طلبہ میںسے کچھ اندرون ملک اور کچھ دنیا کے دیگر ممالک میں بحسن و خوبی اس فن کو آگے بڑھارہے ہیں۔

نصر اللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ ان کا خواب ہے کہ اس ملک کا ہر بچہ فائن آرٹس کی تعلیم باآسانی حاصل کر ے اور اس فن کو ہمیشہ زندہ رکھے ۔

انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ فائن آرٹس کے ذریعے طلبہ اپنی ثقافت ،آرٹ اور کرافٹ سے آگاہ رہیں تاکہ وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر آرٹس کے جمالیاتی پہلو کو اجاگر کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں ۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فن مصوری کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی تہذیب انسان کی تاریخ ۔ پہلے زمانے میں جب انسان لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا توتب بھی وہ پتھروں اور دیواروں پر نقش و نگار بنایا کرتا تھا جسے دیکھ کر لوگ ایک دوسرے سے پیغام رسانی بھی کیا کرتے تھے ۔ گویا مصوری پیغام رسانی کی خاموش زبان کا دوسرا نام ہے۔

ایک سوال کے جواب میںان کا کہنا تھا فن کو کبھی موت نہیں آتی۔ اگر واقعی ایسا ہوتا تو دورحاضر کی انتہائی جدید ترین کمپیوٹر ٹیکنالوجی اس فن کو نگل لیتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی نے اس فن کو دوام عروج بخشا ہے۔

ان کا یہ بھی نظریہ ہے کہ فائن آرٹس کے شعبے کا مقصد طلبہ میں تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنا ہے۔ آرٹ ایک ایسی بنیادی قوت ہے جو ثقافتوں کو قریب لاتی ہے۔