ایک یقین دہا نی۔۔۔۔۔۔!

June 14, 2018

بحیثیت قوم ہمارے بارے میں مشہورہے کہ ہمیں اس وقت خیال یا ہوش آتاہے جب پانی سر تک پہنچ چکا ہو تاہے۔پھر ہم ہاتھ پائوں مارنا شروع کردیتے ہیں۔ ایک مولانا صاحب کی تقریر کی ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں وہ فرما رہے تھے کہ ایک سیاسی لیڈر صاحب کاکہنا ہے کہ کالا باغ ڈیم میری لاش پر ہی بنایاجاسکتاہے۔ جس کے جواب میں مولانا صاحب فرما رہے تھے کہ اس ملک کو حاصل کرنےکےلیے بھی ہمیں اپنی بہت ساری جانیں قربان کرنا پڑی ہیں، اپنی عزتیں لٹانا پڑی۔اگر کالا باغ ڈیم بھی ہمیں اپنی لاشوںپر بنانا پڑے تو ڈیم ضرور بناناچاہیے۔ مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ اگر اس کےلیے میری جان کی ضرورت ہے اور ڈیم میری لاش پر بنانا پڑے تو بھی میں حاضر ہوں کیونکہ ہم نے پاکستان کو اپنی آنے والی نسلوں کےلیے ہر صورت بچاناہے۔ یہ تو بڑا کام ہے کہ جس کےلیےلاشوں کی ضرورت کی بات ہورہی ہے اللہ نہ کرے کہ ہمارے ملک میں ایسی نوبت آئے ،بلکہ ملک کی ضرورت اور بقا کو سمجھتے ہوئے ہمیں ڈیم ضرور بناناچاہیے اس کے لیے ہمیں کچھ بھی کرنا پڑے ۔لیکن اس سے پہلے پوری قوم کو مل کرپانی کےلیےایک عہد کرنا ہوگا۔ سب کچھ سیاست دانوں یا حکمرانوں پر ڈا لنے کے لیے نعرے بازی نہیں بلکہ سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ ماہ ر مضان تیزی سے اپنے آخری ایام سے گزررہا ہے۔عام مہینوںکے مقابلے میں مساجد نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔آپ کسی مسجد میں چلے جائیں اوراس بات کامشاہدہ کریں کہ ہم وضوکرتےہوئے ،غسل کی ضرورت سے بھی زیادہ پانی ضائع کررہے ہوتے ہیں۔ کچھ مساجد میں ایسی ٹوٹیاں ضرور لگی ہیں جو صرف پریس ہونے پرہی پانی خارج کرتی ہیں اور ہاتھ ہٹانےسے بند ہوجاتی ہیں یہ ایک اچھی کوشش ہے لیکن اس کے ذریعے بھی پانی ضرورت سے زیادہ خرچ ہوتا ہے عام ٹوٹیوں سے تو وضوکرتے نمازی پانی کھول کر ایسے بیٹھ جاتے ہیں جیسے بغیر رکاوٹ کے قدرتی چشمے بہہ رہے ہوں اور وہ جب تک ان کا دل چاہتا ہے اسے ضائع کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح گھروںمیں دیکھیں۔ایک چمچ یا پیالی دھونےکےلیے فل پانی کھول کر اس قیمتی دولت کو ضائع کیاجاتا ہے ۔گھروں کے لانزمیںپلاسٹک کے پائپ کھول کر پانی بہایاجاتاہے اور یہ سوچے بغیر کہ ان پودوںکو پانی کی کتنی ضرورت ہے۔ ہم پانی چھوڑ کے بیٹھ جاتے ہیں۔ گاڑیاں دھوتے ہیں تو بھی پانی کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اورپانی پینے یا استعمال کرتے ہوئے اکثر ہم اللہ کی ذات کا شکر ادا نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے اس قدرتی نعمت سے برکت جاتی رہی ہے اوراس وقت پاکستان پانی کی قلت کا شکار ہوتاجارہا ہے۔ ٹینکر مافیا دیگر شعبوں کی طرح ضرورت مند عوام کو لوٹ رہا ہے۔ سمندر کے کنارے کراچی جیسے شہر کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں دنیا بہت عرصہ پہلےسے منصوبہ بندی کرچکی ہے اور مسلسل کررہی ہے۔ڈیم بنائے جارہے ہیں ،بارش کےپانی تک ضائع نہیں ہونے دیاجاتا۔ گھروں میں استعمال ہونے والے پانی کو پیوریفیکشن پلانٹس سے گزار کر دوبارہ قابل استعمال بنایاجاتا ہے لیکن جس پانی کو پہلے بے دریغ استعمال کرکے ضائع کرتے رہے ہیں۔پانی کومحفوظ کرنےکے لیے ڈیم نہ بنانے کی مجرمانہ غفلت کرتے رہے ہیں اور اب جب قیامت سر پردیکھ رہے ہیں تو صرف واویلا کررہے ہیں اور صرف ڈیم ڈیم کی رٹ لگائی ہوئی ہے۔ ڈیم ضرور بننے چاہیں لیکن پانی کے حوالے سے دیگر اقدامات پر بھی غوراور عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔مساجد میں وضوکے استعمال ہونےکےبعد ضائع ہونےوالے کروڑوں گیلن پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنانےکے اقدامات، گھروں ،کارواشنگ اسٹیشنز ، ہوٹلوں اور دیگرجگہوں پر استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے اقدامات کیےجا ئیں۔ اس کے علاوہ گوادر میں سمندری پانی، جسے چائینز قابل استعمال بنانے کے پلانٹس لگا کر اپنے لیےپانی حاصل کررہے ہیں ،بلکہ وہاں آباد دیگر لوگوںکو بھی فراہم کررہے ہیں، کراچی میں بھی ایسے اقدامات کیےجائیں ۔وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پاس اس کی تکنیکی مہارت موجود ہے بلکہ وزارت نے چھوٹے چھوٹے پلانٹس جوچند ہزار روپے میں بنتے ہیں بنا کر ایک سندھ کی این جی او کو دیے ہیں اس طرح کے اقدامات کرنے ضروری ہیں۔ اورہاں الیکشن سر پر ہیں، ووٹ مانگنے والوں سے یہ وعدہ ضرورلیں کہ وہ دودھ کی نہریں نہ بھی بہائیںکم ازکم عوام کوصاف پانی کی فراہمی کے اقدا مات کی یقین دہانی تو ضرور کرائیں۔