مستحکم تعمیرات کے بنیادی اصول و ضوابط

June 16, 2018

گھر اور اپنی چھت کا خواب ہر فرد کا ہوتا ہے جس کی تعمیر کے لیے وہ تاعمر کوشاں رہتا ہے تاہم کسی بھی گھر،بنگلے ،اپارٹمنٹ کے لیے جس چیز کا خیال لازمی رکھنا پڑتا ہے وہ اس کی بنیادوں سے لیکر آخری اینٹ کی چنائی تک پائیداری و مضبوطی کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس لیے آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ غیر معیاری مٹیریل سے بنی عمارات کیسے دیکھتے دیکھتے ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔

اس ضمن میں مغلیہ اور انگریز دور کی عمارات ملاحظہ کریں تو آج بھی اپنی استقامت اور مضبوطی کے حوالے سے معیار مانی جاتی ہیں کیوں کہ ان عمارات کے معماروں کے دل میں غبن کی کوئی خواہش نہیں تھی نہ ہی نئے ٹھیکے کے لیے کم زور بنیادیں ڈالنے کا رواج تھا۔لوگ مکان کو عبادت کدہ جانتے اور اس کی آرائش و زیبائش کے ساتھ تعمیر میں مضبوطی و پائیداری کو اولین ترجیح دیتے۔جن خاص لوازم کو مدنظر رکھا جاتا ہے وہ کچھ اس طرح ہیں:

بنیاد کی مضبوطی

جب کوئی مکان تعمیر کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیاجاتا ہے کہ کس قسم کی زمین پر یہ مکان بن رہا ہے۔اگر زمین بھرری ہے تو مسالہ مضبوط رکھا جاتا ہے اور بنیاد ڈالنے سے پہلے کم از کم بیس فٹ گہرائی میں گڑھا کھودا جاتا ہے، جسے مضبوط اور پائیدار پتھروں سے بھرا جاتا ہے تاکہ اس کے نیچے کی زمین کا بھرراپن تعمیراتی ڈھانچے پر اثر انداز نہ ہوں اور اگر آپ کثیر المنزلہ مکان بنانے کے خواہاں ہیں تو مضبوط بنیا د اسے سہارنے میں ممد و معاون ہو۔اس کے بعد مرحلہ آتا ہے۔بنیاد ڈالنے کا، جس میں بٹومن کی زیادہ مقدار اور سریے کا استعمال اسٹرکچر کو پائیدار بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔جب ایک مضبوط ڈھانچہ تشکیل پاتا ہے تو دیواریں اٹھاتے وقت استعمال کیے جانے والے بلاکس اور اینٹوں کی ہمورا چنائی اہم حصہ بن جاتی ہے۔

اس طرح ہر ایک اینٹ کو بٹھانا بھی فنِ تعمیر کا کمال شمار ہوتا ہے جو آج کل اسمبل کی طرح تیار ہوتے ہیں کہ بڑی عمارتوں میں پلرز اور محرابوں کے ڈھانچے الگ الگ بناکر پھر مکان پر نصب کیے جاتے ہیں۔ان تمام امور میں اس کلیے کو اولیت دی جاتی ہے کہ مکان کے ڈیزائن کی خاطر بنیاد کی مضبوطی کو نظر انداز نہیں کیا جاتا۔موجودہ تعمیراتی پروجیکٹس میں مہنگے اور قیمتی مٹیریل کی موجودگی ضروری قرار پاتی ہے لیکن اس سے بڑھ جانے والی لاگت مکان کی قیمت کو ہماری دسترس سے دور کردیتی ہے۔اس لیے مکان پر اٹھنے والی لاگت کا تخمینہ ہمیشہ جیب کو دیکھتے ہوئے کرنا چاہیے جیسے سیانوں نے کہا ہے کہ پاؤں دیکھ کو چادر پھیلانی چاہیے۔اس کا مظاہرہ ہم روزمرہ زندگی میں ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ مہنگے پروجیکٹس اپنی زیادہ لاگت کے باعث خریدار کی سکت سے آگے چلے جاتے ہیں اور بلڈرز نقصان سے دوچار جبکہ خواہش گر مکیں اپنی چھت کے خواب سے محروم ہو جاتا ہے۔ایسے ناکام پروجیکٹس کی بنیادی وجہ لاگت کا بے تحاشہ استعمال بتایا جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم دوسرے کا محل دیکھ کر اپنی جھونپڑی نہیں گراتے تھے لیکن اب نام و نمود کی نمائش کے باعث ہم اپنی کٹیا جلانے ، اپنا سکون غارت اور برباد کرنے سے بھی نہیں چونکتے۔ ان تمام باتوں میںفوقیت مستحکم تعمیر کی ہوتی ہے جس کے لیے کئی لوگ سمجھوتہ بھی کرلیتے ہیں کہ چلو گھر میں سکھ تو ہے۔

ہوادار اور کشادہ

یہ وہ بنیادی اصول اور ضابطہ ہے جس کا خیال کسی بھی عمارت کے تعمیراتی مٹیریل کواستعما ل کرتے وقت کیا جاتا ہے۔بظاہر ہوا اور کشادگی تجریدی الفاظ ہیں جن کا کوئی ٹھوس وجود نہیں لیکن اگر ان لوازم کا خیال نہ رکھا جائے توکتنی بھی ٹھوس بنیاد پر کوئی مکان کھڑاہو،اسے آپ نمی کے باعث بوسیدگی کے اثرات سے نہیں روک سکتے۔اس لیے کسی بھی مکان کے ڈیزائن میں کشادگی کے ساتھ کھڑکیوں،گیلریوں کا دانش مندانہ استعمال اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ بند گھر نہ صرف تعفن اور گھٹن کا باعث بنتا ہے بلکہ کیڑے مکوڑوں اور حشرات الارض کو بھی دعوتِ عام دیتا ہے۔کھڑکیوں اور روشن دانوں کا ایک دوسرے کے مقابل ہونا ڈیزائن کا لازمی جزو ہونا چاہیے اور کھڑکیاں اس انداز سے نصب کی جائیں کہ مکان کے کسی بھی کمرے ،باورچی خانے اور غسل خانے میں جائیں تو ہوا کے گزر میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔آج کل المونیم کی نفیس کھڑکیوں اور روشن دانوں کی تنصیب کا رواج ہے لیکن جو سماں لکڑی کی کھڑکیاں باندھتی ہیں اس کا نعم البدل کوئی نہیں ۔

آج بھی آپ لکڑی کے کام کی قدیم دیدہ زیب عمارات ملاحظہ کرتے ہیں تو دنگ رہ جاتے ہیں۔کراچی و لاہور سے کشمیر گلگت بلتستان کی عمارتی سیر کر آئیں تو آپ کو وہی عمارات و محل جاذب ِ نظر دکھائی دیں گے جن پر مختلف نقش و نگار سے مزین کھڑکیاں نظر آئیں گی جو ہمارے مشاق کاریگروں کی ہنر مندی کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔یہ ہمارا وہ ورثہ ہے جسے ہم جدیدیت کی نقل و پیروی میں بھولتے جا رہے ہیں ۔ ایسے میں جب کوئی ماہر مصور اور فوٹو گرافر ان قدیم ادوار کی نشانبر ان کھڑکیوں کی عکاسی کرتا ہے تو ہمیں یاد آتا ہے کہ ہماری مشرقی ثقافت کے رنگ کتنے تیکھے تھے۔آج جب پوری دنیا کو ماحولیاتی آلودگی کا سامنا ہے تو ایک بار پھر ٹھنڈی تاثیر رکھنے والی لکڑی کی کھڑکیاں سامنے آرہی ہیں۔ماہرینِ تعمیرات اب لکذی،ایلومینم اور اسٹیل کے حسین امتزاج سے تعمیر سازی پر دھیان دے رہے ہیں جس میں کرسٹل عمارات کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے ساتھ ہی پتھر کے استعمال کی جانب بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی پوری دنیا میں سبز مکانات کا تصور ہی اس فلاسفی پر مبنی ہے کہ ہوادار گھر کے بغیر ہمارا جینا محال ہے۔کیوں کہ تازہ ہوا انسان کی سانس کے لیے قدرت کی انمول نعمت ہے۔وہی گھر ہی فطرت سے ہم آہنگ ہوتا ہے جس میں ہوا کے گزر اور کشادگی کو ملحوظ رکھا گیا ہو۔

ماہر آرکیٹیکچرکی خدمات

مذکورہ بالا دو بنیادی اصولوں کی پاسداری کے لیے کسی بھی گھر، بنگلے،اپارٹمنٹ کے تعمیراتی نقشے کو اہم عنصر جانیے کہ ایک ماہرنقشہ ساز ہی اس امر کو ممکن بناتا ہے کہ وہ پلاٹ کے مطابق بنیادوں کو کتنا گہرا بناتا ہے!کیسے نمی و زلزلے کے اثرات سے محفوظ کیا جاسکتا ہے اور کون سا ڈیزائن کشادگی اور ہوا کی روانی کو ممکن بناتا ہے۔کھڑکیوں کا زاویہ کیسا ہونا چاہیے کہ ذراس برابر کوئی رکاوآدرمیاں حائل نہ ہو۔ایک ماہر نقشہ ساز ہی دراصل عمارتی نبض شناس ہوتا ہے۔جیسے معالج چہرہ دیکھ کر پہی مریض کی کیفیت پا لیتا ہے ویسے ہی ایک ماہر آرکیٹیکچر زمین اور اس کا رقبہ دیکھ کر ہی چشم ِ تصور میں ایسا ڈیزائن مرتب کرلیتا ہے جو مکینوں کو فطرت کے قریب کردے۔اسے پتہ ہوتا ہے کہ گھٹن زدہ تنگ گھر ذہن کو بھی تنگ نظر کردیتے ہیں اس لیے ایک محدود رقبے پر ایک ایسا نقشہ تیار کیا جائے جو نظروں کو اس طرح بھائے کہ جمالیاتی ذوق کی ساری خوبیاں اس میں سما جائیں۔