زنگ آلود……

June 19, 2018

’’چھان بورے، ردی ٹکڑے، ٹین ڈبے!‘‘
میں آواز لگاتا ہوا نکلا۔
ایک گلی میں کسی بچے نے پکارا۔
میں ریڑھی کھینچ کر ادھر لے گیا۔
پرانے کورس کی کاپیاں ملیں۔
اگلی گلی میں ایک بزرگ نے اشارہ کیا۔
وہاں سے ٹوٹے پھوٹے برتن ملے۔
اس سے اگلی گلی میں ایک خاتون نے روکا۔
پھٹے پرانے بیگ اور بستے حوالے کئے۔
زنگ آلود اوزار، پچکے ہوئے کنستر،
بد بو دار کپڑے، کیڑا لگی کتابیں،
سب سمیٹ کر کباڑی کی دکان پر پہنچا۔
’’کیا لائے ہو آج؟‘‘
ڈوڈو کباڑی نے پوچھا۔
میں نے ہنس کر کہا،
’’نیا کیا لاؤں گا؟
وہی ہیں، الیکٹ ایبلز۔‘‘
*****
(کہانی نویس کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)