شکریہ پاک افغان مہاجرین، کرکٹ سویڈن میں مقبول ہونے لگی

June 19, 2018

کراچی(اے ایف پی، نیوزڈیسک) سویڈن کے میدانوں میں آج کل ہر طرف کرکٹ کے بلے اور گیندیں نظر آ رہی ہیں، یہاں موجود پاکستانی اور افغان مہاجرین نے اپنی معاشرتی بنیادوں سے جڑے رہنے کا ایک راستہ ڈھونڈ نکالا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کےمطابق ایک ایسے ملک میں جہاں آئس ہاکی کا کھیل ہی محبوب ترین تھا، اب کرکٹ پاپولر ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اگرچہ کرکٹ کو سویڈن میں متعارف ہوئے محض 10سال ہی کا مختصر وقت ہوا تاہم سویڈن بھر میں اس وقت کرکٹ کی 52 ٹیموں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس اسکینڈینیوین ملک میں یہ کھیل کتنی تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔سویڈش کرکٹ فیڈریشن کے چیئر مین طارق زواک نے اس حوالے سے اے ایف پی کو بتایاکہ’’ تین یا چار برس قبل سویڈن میں کرکٹ کے صرف تیرہ کلب تھے اور کھلاڑیوں کی تعداد600سے700تھی۔‘‘اب سویڈن میں کرکٹ کے ڈویژنز کی تعداد 4اور کھلاڑی 2ہزار سے زیادہ ہیں، ان میں سے نصف سویڈن کی شہریت حاصل کر چکے ہیں جبکہ بقیہ نصف ابھی انتظار میں ہیں۔ان 2000 کھلاڑیوں میں سے بہت کم تعداد ان نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی پیدائش سویڈن کی ہے۔18سالہ افغان مہاجر سعید احمد نے حال ہی میں کرکٹ کلب میں شمولیت اختیار کی ہے۔ احمد 2015میں ایک خطرناک سفر کے بعد سویڈن پہنچے تھے، پہنچنے کے بعد ان کی اولین ترجیح کسی کرکٹ ٹیم میں بطور کھلاڑی اندراج کرانا تھا۔ احمد کو امید ہے کہ اب وہ مزید بہتر کھیل سکیں گے۔سویڈن میں لندن کی معروف ایم سی سی یا ‘میلبورن کرکٹ کلب‘ نامی ٹیم کھلاڑیوں کو اس گیم کے اصول و ضوابط سے روشناس کراتی ہے۔زواک کا کہنا ہے کہ سویڈن میں کرکٹ کے کھلاڑیوں کی تعداد حالیہ کچھ برسوں میں چار گنا بڑھ گئی ہے جس کا سبب عالمی سطح پر حالات کا تبدیل ہونا ہے۔ سویڈن نے 2012سے لے کر اب تک چار لاکھ مہاجرین کا اندراج کیا ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق یہاں پناہ کی درخواست دائر کرنے والے ہر 8افراد میں سے ایک افغان شہری ہے۔سویڈن میں سب سے زیادہ پناہ کی درخواستیں 2015میں رجسٹرڈ کی گئیں جن کی تعداد ایک لاکھ 62ہزار تھی۔سویڈن میں کرکٹ کا کھیل یہاں آئے پاکستانی اور افغان مہاجرین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ کرکٹ میچ ان تارکین وطن کے لیے اُن تکالیف اور مصائب کو بھلانے کا ایک ذریعہ بھی ہے جن سے گزر کر وہ یہاں تک پہنچے ہیں۔