’’کندن مل ہائی اسکول‘‘ اب ’’جامعہ عربیہ ہائی اسکول‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے

June 20, 2018

تہذیب و تمدن کے ارتقاء میں ہمیشہ علم بنیاد بنا، علم کا ماخذ مطالعہ، مشاہدہ اور تجربے پر مشتمل ہوتا ہے، اگر زمانہ قدیم کی مختلف قوموں کے علم کا جائزہ لیں تو ہمیں بہ خوبی ادارک ہوگا کہ ابتدا میں انسان الفاظ کی بجائے اشکال بنا کر اپنےخیالات کا اظہار کرتا تھا، لیکن جب انسان غاروں سے نکل کر زمین پر پھیلا تو اس نے سب سے پہلے زبان وتحریر پر زور دیا، چناں چہ زبانوں کے ساتھ، ساتھ علم بھی فروغ حاصل کرتا رہا، برہمنوں کے قدیم دور میں گرو یا استاد ابتدائی مختصرلیکن اعلیٰ تعلیم فراہم کرتے تھے ۔وہ تعلیم کی فراہم کے عوض اپنے شاگردوں سے اُجرت یا فیس وصول نہیں کرتے تھے ۔ اس دور میں تعلیم کی اُجرت حاصل کرنا مذہبی طور پر ممنوع قرار دیا گیا تھا، البتہ تعلیم کی تکمیل کے بعد استاد کو ’’گرودکشٹا (نذرانہ) پیش کرنے کا رواج تھا، دوسری جانب شودروں اور وئش ذات کے بچوں کو مذہبی کتابوں کا مطالعہ بھی ممنوع تھا، نصاب منتروں اور قدیم منظوم کہانویں پر مشتمل تھا، جب کہ تحریری نصاب میں علم طبعی، علم کیمیا، علم شہریت اور جیومیٹری کا علم پڑھایا جاتا تھا، بعد ازاں ہر دور میں نصاب کے علاوہ تعلیمی نظام میں بھی نمایاں تبدیلی آتی رہیں۔ سندھ کے طول و عرض میں میران تالپور کے دور حکومت کے دوران نصاب پر اسلامی رنگ نمایاں ہوا، جس کی بنا پر سیوستان میں مخدوم عبدالواحد (قاضی محمد احسان)، حافظ عبدالوہاب فاروقی عرف سچل سرمت ، مولانا عبدالعلیم کنڈوں، خلیفہ محمود، مفتی محمد، بیرانی، خلیفہ محمد یعقوب ہمایوں، مخدوم محمد یوسف کی درس گاہیں، اور مولانا محمد علی سندھی کا مدرسہ خاصے معروف تھے۔ ان میں نصاب کے علاوہ قرأت، مناظرہ، عروض، رمل، نجوم، جغر، تاریخ، حکمت، منطق، فقہ، تغیر، حدیث معانی، بیان اور علم البدیع پڑھایا جاتا تھا، یہ درس گاہیں یا مدارس عموماً وقف ہوتے تھے، یا حکومت ان کی مالی اعانت کرتی تھی، لیکن مال دار یا نیک سیرت لوگ اس حوالے سے وصیتیں بھی کیا کرتے تھے، ان مدارس میں ایک یا ایک سے زائد اعلیٰ تعلیم یافتہ مخدوم ہوتے تھے جو طلبا کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے تھے،مگر جب 28؍ فروری 1843ء میں سندھ کے آخری تالپور حکم راں میر نصیر خان تالپور کو ،میانی کے مقام پر انگریزوں کے ہاتھوں شکست ہوئی اور انگریز راج قائم ہوا تو اس وقت بھی سندھ میں اسلامی تعلیمی نصاب مروج تھا، چناں چہ انگریزوں نے اس نصاب میں بے دریغ تبدیلیاں کیں اور ابتدائی تعلیم ، ثانوی تعلیم، اعلیٰ تعلیم کے علاوہ اساتذہ کی خصوصی تربیتی تعلیم متعارف کرائی ۔

طالب علم کے داخلے کی عمر کی حد 5 سال سے 6 سال مقرر کی گئی، ابتدا میں بنیادی تعلیم کے لئے کوئی مخصوص نصاب مقرر نہیں تھا،اس لئے تعلیمی نظام کی تبدیلی کے باعث نئے، نئے اسکول معروض وجود میں آئے۔ ان ہی اسکولوں میں ایک منفرد نام’’ کندن مل اسکول حیدر آباد ‘‘بھی ہے، جو 1914ء کے دوران حیدرآباد کے ایک سیٹھ کندن مل نے اپنے کثیر سرمایے 78ہزار روپےکی لاگت سے ایک سال میں تعمیر کرایا، یہ اسکول کانگریسی رہ نما گنگا دھر تلک کے نام سے موسوم اور حیدرآباد کی معروف گزر گاہ ’’تلک چاڑی‘‘ اور اسٹیشن روڈ، پولیس لائن روڈ (مولانا محمد علی جوہر روڈ) کے سنگم پر وارڈ اے میں سٹی سروے پلاٹ نمبر2941پر واقع ہے۔

کندن مل اسکول کو اس کے معیار تعلیم ، اساتذہ کی محنت، دل چسپی اور اپنے مقدس پیشے سے عقیدت کے سبب 1916ء کے دوران ہائی اسکول کا درجہ حاصل ہو گیا، جس کے سبب ناصرف اسکول کو حیدرآباد میونسپلٹی بلکہ حکومت سے بھی فنڈز ملنے لگے اور اسکول روز افزوں ترقی کے مدارج طے کرنے گا، جب کہ اس عمارت کی شہرت دور دور تک سنائی دینے لگی، اسکول کی عمارت اپنے دور کی خوب صورت اور فن تعمیر سے مرصع شمار ہوتی ہے۔ قدیم اسکول کی 2منزلہ عمارت کی تعمیر میں پختہ اینٹوں، راجھستانی پتھروں کا استعمال کیا گیا، مقامی سنگ تراشوں، راج گیروں مزدوروں نے اس اسکول کی تعمیر میں حصہ لیا، سنگ تراشوں نے پہاڑی پتھروں کو، تراش خراش سے انہیں دیدہ زیب بنایا، جس میں کھڑکیوں، دروازوں کے علاوہ نچلی اور بالائی منزل کی راہ داریوںکی جالیاں داخلی دروازے کی سیڑھیاں شامل ہیں، جب کہ خدا آبادی بڑھیوں نے اسکول کے، مشرق اور مغرب کی سمت ہر کمرے کے 4 دروازوں، ہر دروازے پر روشنی اور ہوا کے لئے کھڑکیوں کے علاوہ ہر جماعت کے کمروں میں استاد کے بیٹھنے کے لئے کرسیاں، میز اور طلبا کے لئے بینچیں، بالائی منزل پر آمدورفت کے لئے مشرق و مغرب کی دو متوازی سمتوں میں خم دار سیڑھیاں ساگواں کی قیمتی لکڑی سے بنائیں اور اس کی تیاری میں بڑھیوں نے اپنے کمال ہنر کو پیش کیا۔ اسکول کی بالائی منزل پہلی سے پانچویں جماعت تک کے لئے مخصوص تھی، جب کہ نچلی منزل میں چھٹی جماعت سے دسویں جماعت کے طلبا پڑھا کرتے تھے۔ طلبا کے لئے بالائی منزل کے ایک کمرے میں تمام تر کیمیکلز، سائنسی آلات اور دیگر سہولتوں سے آراستہ سائنسی لیبارٹری کے علاوہ قیمتی نادر و نایاب کتب، نقشوں، دستاویزات، تصویروں پر مشتمل لائبریری بھی تھی، جس میں طلبا خالی پیریڈ یا ہاف ٹائم کے دوران اخبار و جرائد کے علاوہ کتب کا مطالعہ کرتے تھے۔ اس وقت تلک چاڑی کی سمت اسکول کی دیواریں قد آدم سے بھی کم تھیں۔ ٹریفک تو نہیں تھی البتہ کبھی کبھار کوئی بگھی یا تانگہ گزرتا توماحول میں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز ارتعاش پیدا کر دیتی مگر یہ آوازیں طلبا کے مطالعہ یا حصول تعلیم کے لئے ان کی سماعتوں پر گراں نہیں گزری تھیں، کندن مل اسکول کی مرکزی عمارت میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ کی جانب مغربی سمت میں اسکو ل کے ہیڈ ماسٹر کا کمرہ ،جب کہ مشرق کی سمت اساتذہ کا کمرہ تھا۔ جہاں اساتذہ روزمرہ کے اسکول کے مسائل اور طلبا کو مزید سہولتوں کی فراہمی پر غور و خوص کرنے اور ایک مربوط لائحہ عمل تیار کرنے کے بعد اپنی اپنی کلاسوں میں درس و تدریس میں مصروف ہو جاتے۔ حیدرآباد میونسپلٹی اور حکومت کی جانب سے ملنے والی امدادی رقوم سے عمارت سے ملحقہ اسکول کے وسیع و عریض کھلے میدان میں طلبا کو جسمانی تربیت (پی ٹی) دینے کے علاوہ نصابی و غیر نصابی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا تھا، جس میں طلبا کے والدین کو بھی مدعو کیا جاتا تھا۔ اسی میدان میں ہر روز طلبا قطار در قطار اس طرح کھڑے ہوتے کہ جماعت کے طلباء میں سب سے پہلے چھوٹے قد کاطلبا اور آخر میں لمبے قد کا طالب علم کھڑا ہوتا تھا، ہر جماعت کی علیحدہ علیحدہ قطار ہوتی تھی، یہ اسکول اسمبلی کہلاتی تھی جس میں طلبا باآواز بلند بھجن، منتر اشلوک پڑھنےکے بعد اپنی، اپنی کلاسوں میں پہنچ جاتے تھے۔

… پھر ہوا یوں کہ بہت عرصے پہلے معروف مذہبی و سماجی شخصیت سادھو ہیرانند کے نام سے موسوم حیدر آباد کی پہلی پوش آباد گیر آباد کا علاقہ قائم ہو ا۔ یہ وہ ہی علاقہ ہے جس کے راستے پر روز انہ دو وقت عرق گلاب ملے پانی کا چھڑکائو ہوتا تھا،جہاں مسلمان داخل ہونے سے اجتناب کرتے ، لیکن اگر بادل نخواستہ کوئی بھولے بھٹکے اس کے داخلی یا خارجی راستے کے ذریعے آبادی کے قریب پہنچ جاتا تو اسے وہیں آگے جانےسے روک دیا جاتا تھا۔ چناں چہ اس دور میں یہاں کے رہائشی خاندانوں کی لڑکیوں کے لئے (آج جہاں سول اسپتال حیدرآباد واقع ہے وہاں کی پرانی عمارتوںمیں ان لڑکیوں کا اسکول تھا) علیحدہ اسکول تھا، چناں چہ جب حیدرآباد میں طاعون کا مرض تیزی سے پھیلا اور متاثرین کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہونے لگا تو ہیر آباد کی لڑکیوں کے اس اسکول میں تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا، بعد ازاں باقاعدہ اس عمارت کو طبی تعلیم کے لئے مخصوص کر دیا اور 1881 میں اس میڈیکل اسکول کو کالج کا درجہ مل گیا، جس کے سبب ہیر آباد کی رہائشی لڑکیوں کو تعلیمی سرگرمیاں بحال کرنے کے لئے کندن مل اسکول کو ہائی اسکول کا درجہ ملنے کے فوری بعد یہاں داخلہ دلایا گیا، حالاں کہ کندن مل اسکول کے قیام سے بہت پہلے حیدرآباد میں یونین اکیڈمی (گورنمنٹ ہائی اسکول) این ٹی ہوپ فل اسکول، شوقی رام چاندومل اسکول چھوٹکی گھٹی، ڈھولن مل توارام اسکول فقیر کاپڑ، میرا بائی اسکول، نیوودیالہ اسکول و دیگر قائم ہو چکے تھے۔

تحریک جدوجہد آزادی ہند کے دوران حیدرآباد میں آبادی کے تناسب میں تیزی سے اضافہ ہوا، قیام پاکستان کے ابتدائی چند سال کے دوران لوگوں کی آباد کاری کے عمل کو مکمل کیا گیا، بعد ازاں تعلیم کی بنیادی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ناصرف لوگوں نے اس شہر میں موجود کالج، جب کہ بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانے پر غور و خوص کیا، کیوں کہ تحریک آزادی کے دوران تدریسی نظام شدید متاثر ہو گیا تھا۔ لوگوں نے اپنےگھر بار، مال اسباب سب ہی کچھ چھوڑ کر اپنی جانوں کا نذرانہ نئے وطن کے حصول کے لئے پیش کرتے ہوئے ہجرت کی، اس لئے تعلیمی اسناد کے بغیر تعلیمی اداروں میں داخلہ ممکن نہ تھا،چناں چہ حکومت پاکستان نے تعلیمی قابلیت کے مطابق تعلیمی اداروں میں داخلے کے خواہش مند طبا کے لئے ایک حلف نامہ پر کر اکے جمع کرانےکی پالیسی کا اعلان کیا،۔سندھ یونی ورسٹی جام شورو شعبہ اردو کے پروفیسر مرزا سلیم بیگ نے ہمیں بتایا کہ ’’یہ حلف نامہ اسٹامپ پیپر پر تحریر کیا جاتا تھا، اس طرح کندن مل ہائی اسکول سمیت حیدرآباد میں تعلیم سرگرمیاں دوبارہ بحال ہونے لگیں۔ ابتدا میں کندن مل ہائی اسکول میں مھیٹرکی معروف سماجی، علمی شخصیت سید علی اکبر شاہ کو بہ حیثیت ہیڈ ماسٹر تعینات کیا گیا، بعد ازاں ان ہی کے شہر میں 30؍ سمتبر 1920ء کو جاڑو خان لغاری کے گھر میں جنم لینے والے سندھ کے معروف ادیب، دانش ور صحافی اور ماہر تعلیم مولانا غلام محمد گرامی نے جب حیدرآباد کو اپنا مستقل رہائشی مسکن بنایا تو انہیں اس اسکول میں بہ حیثیت استاد شامل کر لیا گیا، ان دونوں شخصیات نے کندن مل ہائی اسکول کا نام تبدیل کر کے جامعہ عربیہ مدرسہ کی بنیاد رکھی، جن کا مقصد اسکول کو عربی زبان کی یونی ورسٹی بنانا تھا، جس کے لئے انہوں نے مصر کی عظیم مضمرالظہر کا نصاب منگوایا اور آبادی سے قدرے فاصلے پر ایک وسیع اراضی حکومت سے الاٹ بھی کرا لی لیکن بعض وجوہات کی بنا پر یہ یونی ورسٹی تو قائم نہ ہو سکی مگر جامعہ عربیہ مدارسہ کا بھی نام تبدیل ہو کر گورنمنٹ جامع عربیہ ہائی اسکول کردیاگیا۔ سندھ ایجوکیشن سیکٹر پلان 2013-16ء کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں مجموعی طور پر 9122 رجسٹرڈ اور 1843غیر رجسٹرڈ اسکول موجود تھے، جب کہ حیدر آباد میں 878رجسٹرڈ اور 336غیر رجسٹرڈ اسکول شامل ہیں لیکن اب گورنمنٹ جامعہ عربیہ ہائی اسکول کا شان دار تاریخی و علمی مقام اور خوب صورت طرز تعمیر کو جدیدیت کا لباس پہنا کر انتہائی بھونڈی شکل دی جا رہی ہے ، جس کے سبب اسکول کو ایک منظم انداز میں اس کی شناخت سے محروم کیاجا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اسکول کی اصل شناخت و مقام کو بحال اور عمارت کو محفوظ بنانے کے لئے محکمہ تعلیم سندھ اور محکمہ ثقافت ، سیاحت اور ورثہ سندھ کو اہم اقدامات کرنے چاہئیں محض کمیشن، یا خانہ پوری کی پالیسی سے اجتناب برتنا ہو گا، کیوں کہ تعلیم ایک طاقت ہے اور یہ طاقت اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے بجائے پاکستان اور قوموں کے مستقبل کو روشن بنانے کے لئے استعمال کی جائے۔

پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کے میوزیک چیئر گیم کے سبب تعلیم کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ دوہرا نظام تعلیم متعارف ہوا، تو طلبا کی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کر دی گئیں، کبھی تعلیمی اصلاحات کے نام پر معماروں کے مستقبل کو تاریک کیا گیا، کل کے نوجوان ہاتھوں میں تعلیمی اسناد تھامے نوکریوں کی تلاش میں سرگرداں تھے تو آج ان کے بچے بھی بےروز گاری کے کرب میں مبتلا ہیں ۔ماضی میں جانکھیں توملک میں ون یونٹ کے خلاف ہونےوالی مزاحمتی تحریک کوکیسےفراموش کیاجا سکتا ہے؟ یہ 1967ء دسمبر کی 13تاریخ تھی، اس دن کمیونسٹ پارٹی نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ایس این ایس ایف) کے توسط سے حیدر آباد میں مدعو کیا تھا ، تو این ایس ایف کے ملک بھر کے طلبا کارکنوں و عہدے داروں کی کثیر تعداد جامعہ عربیہ ہائی اسکول کی عمارت میں قیام پذیر ہوئی تھی، تاکہ وہ انسداد ون یونٹ تحریک میں مکمل طور پر شمولیت کر سکیں۔ اسی سلسلے میں زیڈ اے بھٹو نے حیدر آبادمیں منعقدہ جلسے کے دوران ون یونٹ کے خلاف لگنے والے نعروں پر سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔1976ء میں زیڈ اے بھٹو کے احکامات کے تحت کسی امتحان کے بغیر پہلی تا دسویں جماعت کے طلبا کو اگلی جماعت میں بھیج دیا گیا۔ اس طرح گورنمنٹ جامعہ عربیہ ہائی اسکول سمیت تمام تر پیلے اسکولوں کی شناخت شدید متاثر ہوئی، جس کے سبب نجی اسکول قائم ہونے لگے۔ رہی سہی کثر حیدرآباد میں لسانی فسادات، کرفیو، ہنگاموں، جلائو گھیرائو ، توڑ پھوڑ کے واقعات نے پوری کر دی، سیاسی جماعتوں و سیاسی تنظیموں نے طلبا کو تعلیم سے دور کر دیا۔ ان کے ہاتھوں سے کتاب اور قلم چھین کر کلاشن کوف تھما دی۔ سڑکوں پر ان طلبا سے جھاڑو لگوائی گئی، یہ المیہ یک طرفہ نہیں تھا، چناں چہ گورنمنٹ جامعہ عربیہ ہائی اسکول میں ہر سال طلبا کی تعداد کم ہوتی گئی اور اس قدر کم ہوئی کہ چند سال پہلے محض درجن بھر رہ گی۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ سساگوان کی قیمتی لکڑی سے بنا اسکول کا فرنیچر بکتارہایا اسے گھریلو استعمال کا فرنیچر بنوا لیا۔ سرکاری فنڈز کو تعلیمی مقاصد پر خرچ کرنے کے بجائے آپس میں بندر بانٹ کر لی گئی۔ اسکول کی لائبریری کی الماریوں سے قیمتی و نادر کتابوں کا ذخیرہ اڑا لیاگیا، جبکہ ان کے اب تو بچ جانے والی کتابیں دیمک کی خوراک بن رہی ہیں۔ اسکول کی عمارت کے مختلف حصوں پر قبضے ہو گئےہیں۔ عمارت کی دیوار کے ساتھ دیوہیکل سائن بورڈ نصب کر دیئےگئےہیں، حالاں کہ یہ بورڈز بلدیہ کے ریکارڈ میں نہیں ہے۔ اسی طرح اسکول کی عمارت میں مہمانوں کے بیٹھنے کا کمرہ کسی ٹیلر ماسٹر نے حاصل کر لیا جس نے اس کمرے کو مختلف حقوںمیں تقسیم کرکے ہر کمرے کو دکانون میں تبدیل کر دیا اور اس کا کرایہ مذکورہ ٹیلر ماسٹر ہی وصول کرتا ہے۔ ان ہی دکانوں کی چھت پر نصب سائن بورڈ سے متعلق معلوم ہوا ہے کہ چند منٹ کی مسافت پر دوسرے اسکول کے ایک شخص نے ایک معروف ساز ادارے کو کرایے پر دیا ہوا ہے۔ ایک استاد سید علی حیدر جعفری نے ہمیںبتایا کہ ’’اسکول میں ہیڈ ماسٹر سمیت 28 افراد پر مشتمل عملہ تعینات ہے، جس میں 20 اساتذہ، 3 کلرک اور 4 چپراسی شامل ہیں جبکہ مجموعی طور پر 155 طلباء زیر تعلیم ہیں۔ اس کے علاوہ جامعہ عربیہ پرائمری اسکول میں 80 اور 3 سال قبل قائم ہونے والے پرائمری گرلز اسکول میں 273 طالبات نے داخلہ لیا ہوا ہے۔ اسکول کی عمارت کی تزئین و آرائش کے لئے رکن اسمبلی کے فنڈ سے 3 کروڑ روپے کا بجٹ آیا تھا، جس میں صرف فرش کی تعمیر، رنگ و روغن پر 2 کروڑ 85 لاکھ روپے کے اخراجات ہو چکے ہیں۔ یہ کام گزشتہ پانچ سال سے جاری ہے اور تاحال مکمل نہیں ہوا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اسکول کی اراضی پر آہستہ آہستہ قبضے ہو کر ان کی خرید و فروخت ہو رہی ہے۔ اسکول میں طلباء کی تعداد کم ہونے کے سبب چار سال قبل اس قدیم اسکول کو ماضی قریب میں قائم ہونے والے گورنمنٹ حمایت الاسلام ہائی اسکول کی زیر نگرانی کیا ہے۔

اسکول کو سالانہ ایک لاکھ روپے کا فنڈ ملتا ہے، جو اسکول کی اسٹیشنری، اسکول کی صفائی ستھرائی، کلاسوں کی تعمیر و مرمت، فرنیچر وغیرہ کی خریداری میں خرچ کیے جاتے ہیں۔ اب اسکول کے تمام اساتذہ کا عزم ہے کہ وہ مشترکہ جدوجہد کرتے ہوئے جامعہ عربیہ ہائی اسکول کی کھوئی ہوئی شناخت کو بحال کریں گے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے باقاعدہ ٹوٹ بٹوٹ کی کھیر بنانے کے لئے لائحہ عمل تیار کیا گیا، ایک مخیر شخص نے اسکول کا فرش، ہائی اسکول کے استاد نے رنگ و روغن، کمپیوٹر اور 50 کرسیاںاسکول کو عطیہ کیں ،جبکہ 15 پنکھے اسکول کےایک سینئر کلرک نے دیئے۔ آہستہ آہستہ طلباء کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جس کی بنا پر اسکول کی نصابی سرگرمیوں کے علاوہ طلباء میں علمی، ادبی، سماجی شعور بیدارکرنے کے لئے ماضی کی طرز پر تقریبات، سیمناروغیرہ بھی منعقد کیے جائیں گے۔ لیکن بہتر کے اس عمل میں طلباء ۔۔۔۔۔ماضی کی طرح گورنمنٹ جامعہ عربیہ ہائی اسکول میں آج بھی اسمبلی ہوتی ہے۔ طلباء اپنے تعلیمی دن کا آغاز تلاوت کلام ربانی سے کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قومی ترانہ انتہائی جوش و ولولے سے باآواز بلند پڑھا جاتا ہے، بعدازاں شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال کی دعائیہ نظم ’’لب پہ آتی ہے دعا‘‘ کے بعد طلباء قطار در قطار اپنی اپنی کلاسوں میں جاتے ہیں ،گو کہ ان کی تعداد حوادث زمانہ نے کم کردی ہے، مگر حکومتی سطح پر محض درسی کتب مفت اور فیس معاف کردینے سے تعلیمی معیار بہتر نہیں ہوگا۔ اس کے لئے دوہرے نظام تعلیم کی روایت کو ختم کرنا ہوگا۔ ایک غریب طالب علم پیلے اسکول میں پڑھ سکتا ہے تو امراء کے بچےان اسکولوں مین تعلیم کیوں نہیں حاصل کرسکتے ،جن کے اساتذہ ہزاروں روپے ماہانہ تنخواہ حاصل کرتے ہیں اور اس امر پر بھی غور و خوص کرنا ہوگا کہ اسکولوں کی موجودگی میں ٹیوشن سینٹر کلچر کیوں کر قائم ہوا، بہ صورت دیگر جامعہ عربیہ ہائی اسکول سمیت دیگر تعلیمی ادارے شاپنگ سینٹرزاور، پلازئوں میں تبدیل ہونے کا خدشہ ہے ،بہ ظاہر لگ ایسے رہا ہے کہ بلڈرز گھات لگائے بیٹھے ہیں۔