انتخابات پر غیرضروری سوال کیوں؟

June 20, 2018

کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال مکمل ہونے کے بعد2018کے عام انتخابات کا عمل اگلے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی انتخابات کو مشکوک بنانے کیلئےدھاندلی کے الزامات کا پیشگی سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ یہ ہمارے سیاسی نظام کی ناپختگی کا نتیجہ ہے یا اخلاقیات سے انحراف کہ قیام پاکستان کے بعد جتنے بھی اور جس سطح پر بھی انتخابات ہوئے ان کی شفافیت پر ہمیشہ انگلیاں اٹھیں ۔2018 کے انتخابات کو غیر جانبدارانہ بنانے کیلئےآئین کے تحت نگران وفاقی اور صوبائی حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ممکنہ بے ضابطگیوں کو روکنے اور پرامن فضا قائم رکھنے کیلئےانتخابی ضابطۂ اخلاق جاری کر دیا ہے، ریٹرننگ افسر عدلیہ سے لئے گئے ہیں اور پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر نظم و ضبط برقرار رکھنے کیلئےفوج تعینات کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے مگر پری پول رگنگ سمیت انتخابات میں دھاندلیوں کے روایتی الزامات پھر بھی لگائے جا رہے ہیں جو انتخابی عمل کو مشکوک بنا رہے ہیں۔ اس حوالے سے نادرا کی جانب سے مبینہ طور پر ووٹرز ڈیٹا لیک ہونے کا تنازعہ اچانک سامنے آیا جس پر الیکشن کمیشن نے نادرا حکام سے وضاحت طلب کر لی ہے۔ نادرا سے پوچھا کیا گیا ہے کہ ووٹرز معلومات کمیشن کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی غیر متعلقہ افراد تک کیسے پہنچ گئیں،یاد رہے کہ ایک اخبار میں اس سلسلے میںرپورٹ شائع ہوئی تھی جس پر تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے نام ایک خط میں چیئرمین نادرا کی برطرفی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ چیئرمین کو مسلم لیگ ن کی حکومت نے مقرر کیا تھا اس لئے وہ جانبدار ہیں۔ پیپلزپارٹی نے بھی اس کی تائید کی تھی، الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ اسے پی ٹی آئی کا کوئی خط نہیں ملا البتہ اپنی معلومات کی بنا پر اس نے نادرا سے وضاحت مانگی ہے۔ نادرا نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے کسی سیاسی جماعت کو ووٹرز ڈیٹا فراہم نہیں کیا، چیئرمین نادرا نے اپنے خلاف پی ٹی آئی کے الزامات مسترد کر دیئے۔ ان کے ترجمان نے کہا کہ انتخابات کے حوالے سے نادرا کا کردار محدود ہے۔ وہ الیکشن کمیشن کو صرف تکنیکی معاونت فراہم کر رہا ہے، اس پر بدعنوانی کے الزامات جھوٹے اور من گھڑت ہیں، کسی بھی ملک میں ہونے والے عام انتخابات اس ملک کے مستقبل کو روشن، خوشحال اور محفوظ بنانے کیلئےبہت اہم ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے2018 کے انتخابات پاکستان کی تقدیر بدلنے کیلئےبڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کا ہر قسم کے شکوک و شبہات اور بے ضابطگیوں سے پاک ہونا ضروری ہے لیکن ہمارے ہاں سیاسی پارٹیاں اور امیدوار انتخابات سے پہلے ہی ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئےانتخابی عمل سے وابستہ اداروں اور مخالف پارٹیوں پر الزامات لگانے کیلئےحیلے بہانے تراشتے رہتے ہیں اور ایک بار الزام لگ جائے تو کچھ لوگ یقین بھی کر لیتے ہیں۔ اس طرح سارے الیکشن پر سوال اٹھ جاتے ہیں اور اس کا کوئی روشن پہلو کسی کو نظر نہیں آتا۔ الزام لگانے والے حکومت اور اداروں کی دیانتداری اور شفافیت پر قوم کا اعتماد متزلزل کرتے ہیں۔ وہ ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھتے اور دوسروں کو دکھاتے ہیں۔ اس طرح قوم میں الیکشن حتیٰ کہ ملک کے مستقبل کے حوالے سے بھی بداعتمادی پیدا کرتے ہیں، جہاں کوئی غلطی یا بے قاعدگی نظر آئے اس کی نشاندہی ہر کسی کا فرض ہے لیکن بلاجواز الزام تراشی قوم کے مفاد میں نہیں۔ مجاز اداروں نے الیکشن کمیشن کو پہلے ہی امیدواروں کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کر دی ہیں۔ ان کی رو سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے 122امیدوار دہری شہریت رکھتے ہیں اور 2178مختلف اداروں کے مالی ڈیفالٹر ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کسی کی اہلیت مشکوک ثابت ہو تو الیکشن کمیشن قانون کے مطابق مناسب کارروائی کر سکتا ہے آنے والے انتخابات پر عوام کا اعتماد بحال رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی پارٹیاں ہوں یا آزاد امیدوار حکومت ہو یا ادارےحتی الامکان کوشش کریں کہ انتخابات اور ان کے نتائج کے بارے میں غیر ضروری ابہام اور غلط فہمیاں پیدا نہ کریں۔