افسانہ اور غزل، ماخذ ایک

June 20, 2018

احسان بن مجید

اردو ادب کو دو بڑی اصناف میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 1۔ نثر، 2۔ نظم۔ ان دونوں اصناف کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے، جتنی خود ادب کی، ادب کے تخلیق کاروں نے اپنے لیے وہی صنف منتخب کی، جس میں سہولت سے وہ اپنے فن اور خیال کا اظہار کرسکیں۔ یوں نثر کے حوالے سے ادب کی مقبول اور معروف صنف، افسانہ ہے۔ اردو افسانے کی عمر کم و بیش ڈیڑھ صدی ہے۔ یوں تو نثر میں افسانے کے علاوہ دیگر تخلیقات مثلاً سفر نامہ اور آپ بیتی وغیرہ نے اپنی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی، لیکن افسانے کے رو برو گھٹنے ٹیک دیے۔ افسانے کے گلدان میں تین قسم کے پھول سجے: 1۔ بیانیہ، 2۔ علامتی، 3تجریدی۔

لیکن افسانہ نگار پر یہ کوئی قدغن نہیں لگائی گئی کہ وہ کسی ایک کا انتخاب کرے، یوں افسانہ نگاروں نے ان تین افسام پر بھرپور طبع آزمائی کی اور شہکار افسانے تخلیق کیے، لیکن مقبول بیانیہ افسانہ ہی ہوا کہ یہ سہل الفہم تھا۔ افسانے کی دوسری دو اقسام گنجلک ہیں، اس لیے قاری کو تفہیم کے لیے ایک پُر مشقت مخمصے سے گزرنا پڑتا ہے۔ اُردو افسانے کی دنیا میں چند مزید تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں۔ چونکہ افسانے کی بنیاد ،کہانی پر ہے، اس لیے اب (100) لفظوں کی کہانی لکھی جارہی ہے۔ مائیکرو فکشن بھی لکھا جارہا ہے، اس کی ہیئت، علامتی افسانے کے قریب ترین ہے اور ابھرتے افسانہ نگار اس کی طرف زیادہ متوجہ ہورہے ہیں۔ یہ ایک گروہ ہے، جسے قاری کی ضرورت ہی نہیں، یہ گروہ سوشل میڈیا پر مصروف ِکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے افسانے دھڑا دھڑ لکھے جارہے ہیں اور بیانیہ طرز کا افسانہ اس سے کتنا متاثر ہورہا ہے، وقت جلد اعلان کرے گا۔افسانہ، اس کی اقسام سے قطع نظر، ضخامت کے حوالے سے (1) طویل افسانہ (2) طویل مختصر افسانہ (3) مختصر افسانے کے طور پر بہت عرصہ پہلے متعارف ہوچکا ہے اور افسانہ لکھنے والے پر اس کی کوئی پابندی عائد نہیں ہوتی۔ تخلیق چونکہ شعوری واردات ہے، اس لیے مشاہدہ اور مجاہدہ اس وقت تک یہ دریا عبور نہیں کرسکتے، جب تک شعور ان کو پتوار مہیا نہیں کرتا۔ افسانے کی عمارت، کہانی کی بنیادوں پر اٹھتی ہے، اس لیے افسانہ نگار پہلے ایک ماحول استوار کرتا ہے، ایسا ماحول، جس میں وہ خود سانس لے رہا ہو، یا اس کے قریب ترین ہو، پھر اس ماحول میں چلتے پھرتے کردار، یہ لوگ چونکہ قرطاس پر ابھرتے ہیں، اس لیے گونگے اور بہرے ہوتے ہیں، ان کو گویائی اور اور سماعت فراہم کرنا بھی فسانہ نگار کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اب ان کرداروں کے لیے حالات اور واقعات لکھنا بھی تخلیق کار کا وظیفہ ہے، کہانی کا ڈھانچہ تو سیدھے سبھائو بنتا ہے، اس کو افسانے کے قالب میں ڈھالنے کے لیے افسانہ نگار کو مزید جتن بھی کرنے پڑتے ہیں۔ کہانی کی چار دیواری میںداخل ہوکر ان کرداروں کے درمیان بیٹھنا پڑتا ہے، ان کے چہرے پڑھنے پڑتے ہیں اور وہ مکالمے جو ان کی زبان پر رکھے گئے تھے۔ ان کا تاثر کردار کے چہرے پر ابھر ایا نہیں۔ افسانے کا قصہ ختم نہیں ہوتا کہ کہانی کے آغاز و انجام کے علاوہ عنوان بھی ایک مرحلہ ہوتا ہے، جو افسانہ نگار کی مشقت کا صلہ ہوتا ہے۔

افسانے کو نقاد بھی ایسا چاہیے جو اس کے اندر اتر کرحصے بخرے کرنے کا فن جانتا ہو۔ اس حوالے سے مراد، الفاظ کا وہ نظام، جس میں اگرچہ لفظ بے ترتیب ہوں، لیکن قرأت میں ایک کشش اور مفہوم کا ذخیرہ ہو، اسی کو شاعری کا نام دیا گیا۔ غزل کی دو اقسام ہیں (1) مردف (2) غیر مردف۔ غزل کے کتنے اشعار ہونے چاہئیں، اساتذہ نے اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی، بلکہ غزل کے ہر شعر کو اکائی قرار دے کر شعرا کو ایک سہولت میسر کردی۔ غزل کا آغاز مطلع سے ہوتا ہے، ایک غزل میں ایک سے زائد مطلعے بھی ہوسکتے ہیں،لیکن ضروری امر یہ ہے کہ مطلع کے ’’مصرعۂ اولیٰ‘‘ اور ’’مصرعۂ ثانی‘‘ میں قوانی کا اہتمام کیا جائے، اسی طرح مقطع میں جہاں شاعر یہ سمجھتا ہے کہ اب شعور سے مزید کچھ نہیں برآمد ہونے والا تو وہ اپنا تخلص استعمال کرتے ہوئے غزل کے اختتام کا اعلان کرتا ہے۔ ایک بھیڑ چال سی چلی تھی، جس میں غزل کا مقطع نہیں کہاجاتا تھا یا مقطع لکھنے سے گریز کیا جاتا تھا۔ شعرا کا یہ رویہ غزل کے حسن پر تیزاب ڈالنے کے مترادف ہے اور ہیئت کے حوالے سے بھی کوئی خوش کن اقدام نہیں ہے۔ غزل کو غزال سے اخذ کیا گیا ہے۔ وہ یوں کہ شکاری کا تیر جب ہرن کے گلے میں پیوست ہوتا ہے تو ایک درد ناک چیخ اس کے گلے سے نکلتی ہے گویا غزل غم و اندہ کا اظہار ہے۔ غزل تو ایک Seasoned صنفِ سخن ہے، طرب میں ہو تو پائوں میں گھنگر و باندھ کے رقص کرتی ہے اور کرب میں بال کھول آنسو بہاتی ہے۔ یوں شاعر کے ہر خوشی اور غم میں شریک رہتی ہے۔

غزل کو اپنی سبکی کا احساس اُس وقت ہوا، جب اس کا ملبوس چیتھڑے بن کر رہ گیا، خیالات اور الفاظ کی جگالی سے اسے ایک حبس محسوس ہوا۔ غزل نے سرگوشی کی ’’مجھے کچھ نیا چاہیے‘‘ اور یہ کوئی ایسی پہیلی نہیں تھی، جسے شاعر نہ سمجھتا ہو، پس دست بستہ کھڑا ہوگیا، کئی شعور و قلم حرکت میں آگئے، بافندوں نے مشقت کی اور ایسے ایسے پیرہن تیار کر ڈالے کہ غزل کو نویلی دلہن بنا ڈالا۔ غزل کی نوک پلک سنوارنے کا وظیفہ جس شخص کے سپرد کیا گیا، اُس کے دروازے پر ’’نقاد‘‘ کی تختی لٹکا دی گئی۔ نفاد کا کردار کچھ خاص اس لیے نہیں سراہا گیا کہ اس فن میں نابالغ حضرات نے تنقید کو تنقیص کے برابر لاکھڑا کیا اور فن پارے کے محاسن یکسر نظر انداز کردیے گئے اور تنقید کی کسوٹی کو ایک عام پتھر سمجھ کر پرے پھینک دیا گیا، لیکن اس فن کے مولا لوگوں سے یہ حرکت برداشت نہیں ہوئی اور تنقید کے لیے کچھ اصول وضع کیے گئے اور تنقید پھر اپنے پائوں پر کھڑی ہوگئی۔

اردو ادب کی عمارت خیال کی مرہونِ منت ہے، لیکن خیال، شعور کے حکم کا پابند ہے۔ شعور ایک ایسا تھریشر ہے، جو عام اور خاص خیال کو فوراً الگ کردیتا ہے۔ عام خیال رد کردیا جاتا ہے، جب کہ خاص خیال کے لیے الفاظ تیار کرنے والی مشینری حرکت میں آجاتی ہے۔ یوں ہر افسانہ نگار اور شاعر کو اس عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ افسانہ اور غزل کا مآخذ ایک ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔