مقصود قتل کیس، سی سی ٹی فوٹیج نے پولیس کی بربریت کا پردہ فاش کر دیا

June 21, 2018

کراچی(افضل ندیم ڈوگر) کراچی میں شاہراہ فیصل پر پولیس کے ہاتھوں مقصود کے قتل کی سی سی ٹی وی فوٹیج پولیس نے چار ماہ سے زائد عرصہ تک خفیہ رکھی۔ پولیس ذرائع کے مطابق شارع فیصل پر پی اے ایف بس اسٹاپ کی 2 منٹ 35 سیکنڈ کی یہ واضح سی سی ٹی وی فوٹیج پولیس کی بربریت کی "خوفناک مثال" ہے۔ پی اے ایف فلائی اوور کے عین نیچے 20 جنوری 2018 کو پولیس گردی کی یہ واردات اس وقت ہوئی جب کراچی کی ملیر پولیس کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود اور کلفٹن میں اینٹی کار لفٹنگ سیل پولیس کے ہاتھوں بے گناہ نوجوان انتظار کے قتل کے واقعات پر ملک بھر میں خوب لے دے ہو رہی تھی۔ پی اے ایف فلائی اوور کے نیچے لگے سی سی ٹی وی کیمرے نے تمام خوفناک مناظر ریکارڈ کرلیے تھے۔ فوٹیج نے پولیس کے روایتی دعووں جھوٹا ثابت کیا تھا۔ پولیس تفتیش کے مطابق اس کارروائی کی شروعات 20 جنوری 2018 کی علی الصباح ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن کے قریب ایئرپورٹ سے صدر جانے والے شارع فیصل کے ٹریک سے ہوتی ہیں، جب سلور رنگ کی سوزوکی کلٹس پرائیویٹ کار میں سوار شاہراہ فیصل تھانے کے اے ایس آئی طارق خان، پولیس کانسٹیبل اکبر خان، عبدالوحید اور شوکت علی اور موٹر سائیکل پر سوار دو پرائیویٹ افراد عاشق حسین چاچڑ اور محسن قمر صدیقی کے ساتھ گشت پر تھے کہ پولیس کے دعوے کے مطابق ایئرپورٹ کی جانب سے آنے والی کار نمبر بی ڈی پی 211 کو اہلکاروں نے روکنے کی کوشش کی۔ پرائیویٹ کار اور موٹرسائیکل سوار عام افراد کے اشارے پر رکنے کے بجائے کار سواروں نے اسپیڈ بڑھا دی تھی۔ پولیس کا الزام تھا کہ کار سوار ملزمان نے فرار ہونے کی کوشش میں جان سے مارنے کی نیت سے فائرنگ کی تھی۔ پولیس ذرائع کے مطابق ملزمان فرار ضرور ہوئے مگر انہوں نے پولیس پر فائرنگ نہیں کی بلکہ پولیس اہلکاروں نے مقدمے کے لیے یہ فرضی اور روایتی کہانی گھڑی تھی۔ تفتیشی حکام کو دستیاب عینی شاہدین کے بیانات کے مطابق سفید کار کے تعاقب کے دوران پولیس اہلکاروں نے مذکورہ کار پر برابر سے فائرنگ کی جس سے کار پر تین گولیاں لگیں اور کار سوار ایک نوجوان اکبر معمولی زخمی ہوا،اس کے باوجود کار سوار تیزی سے گاڑی بھگا کر لےگئے۔ پولیس تفتیش کے مطابق اس کارروائی کا دوسرا حصہ شارع فیصل پر کارساز فلائی اوور سے پہلے ایف 6 مونومنٹ کے ساتھ پیش آتا ہے جب مذکورہ کار ایک ٹائر برسٹ ہونے کی وجہ سے فٹ پاتھ سے ٹکرا کر بند ہوگئی۔ پولیس کے مطابق کار میں سوار 3 افراد میں سے ایک اندھیرے میں ریلوے ٹریک کی طرف چھپ کر فرار ہوگیا جبکہ دو افراد اکبر اور علی شارع فیصل کی درمیانی فٹ پاتھ پیدل عبور کرکے ایئرپورٹ کی طرف جانے والے ٹریک پر چلے گئے اور ڈرگ روڈ کی طرف جانے والے رکشہ نمبر 17123 ڈی 15 میں بہانہ کرکے سوار ہوگئے۔ کراچی میں رواں سال جنوری کے دو بدنام زمانہ پولیس مقابلوں کے برعکس اسی ماہ مقصود قتل کیس میں ملوث پولیس اہلکاروں کیخلاف سخت کارروائی نہیں کی گئی بلکہ مقدمہ درج ہونے کے باوجود انہیں ڈھائی ماہ تک اسی تھانے میں عہدوں پر برقرار رکھا اور جنگ میں خبر کی اشاعت پر انہیں محض معطل کیا گیا جبکہ عدالت سے فرار میں پولیس نے مدد دی۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق چاروں پولیس اہلکار شارع فیصل تھانے کی دارلصحت پولیس چوکی میں ڈیوٹی دیتے رہے اور اس دوران انہیں مقدمے میں گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ پیٹی بند بھائیوں کو ضمانت قبل از گرفتاری کرانے میں سہولت کاری دی گئی۔ 4؍ اپریل کو روزنامہ جنگ میں تمام ملزم پولیس اہلکاروں کے اسی تھانے میں سابقہ عہدوں پر کام کرنے کی خبر شائع ہوئی تو کراچی پولیس چیف مشتاق مہر کی جانب سے 6؍ اپریل کو پولیس پارٹی کے انچارج اے ایس آئی طارق خان، پولیس کانسٹیبل اکبر خان، عبدالوحید اور شوکت علی کو معطل کرنے کا آرڈر جاری کیا گیا۔ مگر پولیس افسران کی جانب سے مقدمے میں نامزد پولیس اہلکاروں کیخلاف مزید کوئی محکمانہ کارروائی نہیں کی گئی۔