بلتستان میں دیکھنے کی جا

June 22, 2018

کیسا عجب اتفاق ہوا کہ پچھلے دنوں مجھے وہاں دور قراقرم کے پچھواڑے اور ہمالیہ کے دامن میں بلتستان جانے کا موقع ملا۔اب حال یہ ہے کہ راہ میں جو بھی ملتا ہے اس سے کہتا ہوں کہ ایک بار بلتستان ضرور دیکھے۔ میں نے وہا ں شہر اسکردو سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر شہر شگرتک جو سفر کیا ، یوں لگتا ہے کہ اس راستے پر آج تک چلا جارہا ہوں۔میراتو یہی مشورہ ہے کہ جو کوئی اسکردو سے شِگر جائے، کھلی چھت والی کار میں جائے۔کار پر چھت نہ ہو اور پورا آسمان نظر آرہا ہو کیونکہ جیسا نظارہ اسکردو سے شِگر تک ہے اس کے بارے میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ منزل سے راستہ کہیں زیادہ دلکش، حسین اور حیران کن ہے۔ پہاڑوں کی مخروطی چوٹیاںیوں سر اٹھائے کھڑی ہیں جیسے زمین کی نوکیلی انگلیاں آسمان میں چھید کرنے پر آمادہ ہیں۔ پہاڑوں کے بیچ سفر تو بہت سے ملکوں میں ہوتے ہیں۔ لیکن جو منظر قراقرم کی یہ میناروں جیسی چوٹیاں دکھاتی ہیں اور جنہیں دیکھ کر یوں لگے جیسے آسمان کو چھوتے سرو قد درخت پتھرا گئے ہوں، ایسے منظر پوری دنیامیں کہیں نہ ہوں گے۔ آپ اسکردو سے نکلیں، اس سیدھی سڑک پر چلیں جو شاید خپلو اور کارگل کو جاتی ہے، اس راہ میں اچانک آپ کی گاڑی بائیں ہاتھ کو مڑے گی۔ بس یہاں سے سارے نظا رے نیا ہی روپ دھاریں گے۔راہ میں ریگستان آئے گا۔ پھر وہ دریا آئے گا جسے اچانک سامنے پاکر میرے منہ سے چیخ نکل گئی تھی:ارے واہ ، میرا شیر دریا۔ عظیم دریائے سندھ کے پل کو پار کرکے پہلے سے بھی بڑا ریگستان آئے گا۔ یہ وہ روپہلی ریت ہے جو دریا صدیوں سے اپنے ساتھ بہا کر لاتا رہا ہے۔ پھر منظر پہلو بدلے گا۔ سامنے پہاڑ سر اٹھانے لگیں گے۔ آپ بڑھتے جائیں گے، پہاڑ اونچے ہوتے جائیں گے۔ یہاں تک کہ اچانک آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ ان ہی پہاڑوں کی آغوش میں جاپہنچے ہیں۔ پھر آپ کو بہت دور ، بہت اونچائی پر جو باریک سی سڑک نظر آرہی تھی، آپ اچانک خود کو اسی سڑک پر دوڑتا دیکھیں گے۔ بڑی بڑی موڑ کاٹتی ہوئی آپ کی گاڑی قراقرم کی اگلی ، اور اگلی اور اس سے بھی اگلی چوٹی کے سائے سے گزرتی اتنی بلندی کو چھو رہی ہوگی کہ جہاں کہیں سے نیچے دریا اور ریگستان نظر آنے لگے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ بادلوں کو چھونے ہی والے ہیں۔آپ خود کو چھوٹا سا محسوس کرنے لگیں گے۔ پھر اچانک چڑھائی پر زور لگاتی آپ کی گاڑی کو یوں لگے گا جیسے اس کی مشقت ختم ہوئی۔ اب آپ کی دائیں جانب آپ کے ساتھ پہاڑ چلیں گے اور بائیں ہاتھ پر اچانک ہریالی آپ کے ساتھ دوڑنے لگے گی۔ پھر پھلوں کے درخت جھنڈ بنائے کھڑے ہوں گے۔ موسم ہوگا تو ان کی شاخیں پھلوں کے بوجھ سے جھک رہی ہوں گی۔ اس کے بعد ان درختوں کے پچھواڑے گاؤں دیہات آنے لگیں گے۔ ہر گاؤں کے باہر اس کے نام کا بورڈ لگا ہوگا۔ ان بورڈوں کو پڑھتے جائیے کیونکہ آخر جس بورڈ پر لفظ ’شگر‘ لکھا ہونا چاہئے وہ تو نہیں آئے گا، خود شگر آجائے گا۔ درویشوں، صوفیا ، فقیروں اور پہنچے ہوئے راہ گیروں کا پڑاؤ۔اب اس کا احوال سنئے۔
میںنے پچھلے دنوں بچوںکے لئے ایک گاؤں کی کہانی لکھی۔ اس گاؤں میں علاقے کی آخری آبادی ہے۔ اس کے بعد پہاڑ ہی پہاڑ ہیں۔ مجھے کیا خبر تھی کہ جو گاؤں میں نے اپنے تصور میں بسایا تھا، حسن اتفاق سے شگر کا علاقہ ویسا ہی ہوگا۔ میرے میزبان نے بتایا کہ اس سے آگے ایک بستی اور ہے اس کے بعد صرف پہاڑ ہیں۔ اور اگر آپ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹوکے دامن تک جانا چاہتے ہیں تو سات دن کا پیدل سفر ہے۔پہاڑی پگ ڈنڈیوں پر دو چار نہیں،پورے سات دن کا پیدل سفر وہ بھی اپنا ساراساز و سامان پیٹھ پر لاد کر۔ یہ سوچ کر ہی میرا جوڑ جوڑ دکھنے لگا۔اس وقت مجھے احساس ہوا کہ صدیوں پہلے سید علی ہمدانی جیسا مفکّر صوفی اپنے ساتھ سینکڑوں ہنر مندوں کو لے کر کس طر ح منزلیں طے کرتا ہوا شگرپہنچا ہوگا اور اس سر زمین پر اس کے کاریگروں نے پہلی مسجد تعمیر کی ہوگی۔میں نے چودھویں صدی کی وہ مسجد دیکھی اور سترہویں صدی کا شگر کا قلعہ دیکھاجو اماچا خاندان کے راجاؤں نے بنایا تھا۔ وقت کے ہاتھوں دونوں کھنڈر ہو چلے تھے کہ قدامت کی نشانیوں میں نئی روح پھونکنے والے آغا خان مدد کو آئے۔ انہوںنے مسجد اور قلعہ ،دونوں کی شان بحال کی۔ آج اس مسجد میں’فائیو ٹائم‘نماز ہورہی ہے اور اس قلعہ میں فائیو اسٹار ہوٹل کھل گیا ہے۔ وہی راہ داریاں، وہی برآمدے، وہی نشست گاہیں، وہی راجا کی آرام گاہ، وہی دیوان عام اور راجا کا تخت کہ اس میں داخلے کا دروازہ نیچا رکھا گیا ہے تاکہ راجا کے حضور آنے والے عوام جھک کر داخل ہوں۔ جھروکوں میں ایسی جالیاں تراشی گئی ہیں کہ آج کل کی جدید مشینیں بھی نہیں بنا سکتیں۔ قلعے کی بیرونی دیواریں تو ایک عجوبہ ہیں۔ اس وقت علاقے میں پتھروں اور چٹانوں کی اتنی افراط تھی کہ اینٹیں بنانے کا رواج ہی نہیں تھا۔آج بھی گارے کی چوکور اینٹیں بناتے ہیں اور انہیں پکاتے بھی نہیں، یوں ہی چن دیتے ہیں۔ قلعے کی دیواروں میں چٹانیں اس طرح بٹھائی گئی ہیںکہ نیچے بہت بڑی اور بھاری، اوپر کم بڑی پھر ذرا چھوٹی اور چوٹی پر چھوٹے پتھر۔ قلعے کی فضا میں اب تک قدامت کی بو باس موجود ہے۔ لیکن ایک عجیب بات ہے۔ پوری عمارت پر اتنی مردانگی چھائی ہوئی ہے کہ کہیں کوئی زنان خانہ نظر نہیں آیا۔(ہم نے فتح پور سیکری میں مغل شہزادیوں کے آنکھ مچولی کھیلنے کا ٹھکانہ دیکھا ہوا ہے)۔ شگر کے قلعے کے باسی کہا ں گئے؟راجا محمد علی صبا سے ہم پورے تیس سال پہلے ملے تھے۔ وہ قلعے کے قریب جدید آسائشوں سے مزین بنگلے میں منتقل ہوگئے ہیں۔ ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سننے کی قوت سے محروم ہیں۔ بولتے بھی کم ہیں۔مگر تین دہائیوں قبل کی ملاقات خوب یاد ہے۔ کچھ بھی ہو، انہیں موجود پاکر ہم نے شُکر ادا کیا۔وہ بھی شِگرکی یادگارہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)