سر رہ گزر

June 25, 2018

کرپٹ سیاست، ناقابل تسخیر ملک اور ڈاکٹر قدیر
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا ہے: سیاستدانوں کے اثاثوں سے لگتا ہے سب کرپٹ ہیں۔ تانگوں میں بیٹھ کر گھومنے والوں کے پاس سیاست میں آنے سے پہلے کچھ نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ سیاست برائے دولت نے اسے بے پیر بنا دیا، اب دو میں ہے رخش ہوس دیکھئے کہاں جا کر رکے، جو اثاثے ظاہر کئے گئے وہ تو اثاثے چھپانے کیلئے ظاہر کئے گئے ورنہ اثاثوں کا حجم تو کچھ اور ہے، اور شاید ہم وہ کرپٹ ہیں کہ دولت لوٹنے سے پہلے بھی جب تانگوں میں سوار ہوتے تھے کرپٹ تب بھی تھے، انسان کی نیت بہت پہلے خراب ہوتی ہے، اعمال تو بعد میں ظاہر ہوتے ہیں، کرپٹ ذہنیت نے ہمیں کرپٹ بنا دیا، ناقابل تسخیر ہونے کو غنیمت جانا کہ اب اطمینان سے غریبوں کی کمائی لوٹنے کا سامان ہو گیا، ہم نے اپنے محسنوں کو ان کے احسان کے کیسے کیسے بدلے دیئے، کیا یہ کم ہے، اب بقول ڈاکٹر صاحب سب کرپٹ ہیں تو ہمیں کسی کم کرپٹ کو ہی چننا ہو گا، یا جو عادتیں ہمیں ڈال دی گئی ہیں اب کسی مہا کرپٹ کو ہی لانا پڑے کہ؎
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
جب سیاستدان، سیاست پر سوار ہونے سے پہلے تانگے پر سوار تھے، تب سے تانگہ پارٹی کا آئیڈیا پیدا ہوا، اور آج سیاست تانگے پر نہیں بلٹ پروف چم چم کرتی گاڑیوں پر سوار در عوام پر کھڑی سوالی ہے، ظاہر ہے خیر تو کسی نہ کسی جھولی میں ڈالنا ہے، سو ڈال دیں گے، ڈاکٹر صاحب اطمینان رکھیں اب پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کے کارنامے پر خوش رہیں، جیسے قائد کی روح پاکستان بنانے پر خوش ہو گی، یہ کم بختی کس کی ہے مگر اتنا تو ہو گیا کہ کرپٹوں کیلئے ناقابل تسخیر پاکستان موجود ہے، اب اس سے جو بھی کوئی کرے میدان محفوظ ہے۔
٭٭٭٭
ٹکے کی بڑھیا دمڑی سر منڈائی
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا ہے: اثاثوں میں 8روپے مرلہ اراضی ظاہر کرنے والوں کے کاغذات مسترد کئے جائیں، کاش ایسا ہوتا کہ الیکشن لڑنے کیلئے غریب ہونے کی شرط رکھ دی جاتی، ممکن ہے اس قوم کو اپنے ستر سالہ خدام سے نجات مل جاتی، پھر نئے خادم آتے، وہ مخدوم بنتے اور ہم کہہ سکتے کہ تبدیلی آئے رے، جن غریبوں نے الیکشن کے کاغذات میں 8روپے مرلہ اپنی ملکیتی اراضی کا اندراج کیا، ان سے 8روپے فی مرلہ ان کی زمین خرید کر زمین کو ریاستی ملکیت قرار دے دیا جاتا تو بہت اچھا ہو جاتا مگر اچھا ہونا شاید ہمارے نصیب میں نہیں، بگاڑ اور سدھار دو بھائی ہیں۔ ایک موج کرتا دوسرا کڑھتا رہتا ہے یہ دونوں بھائی کجا ہم زلف بھی نہیں ہو سکتے زلف سے یاد آیا کہ یار لوگوں نے زلفوں کے نام بھی بہت کچھ کر رکھا ہے، اور غریبوں کا دیا ان کے پاس اتنا کچھ ہے کہ اپنے مالیوں، باورچیوں اور عزیزوں کے نام بھی حفاظتی بند باندھ کر بہت کچھ کر رکھا ہے، برصغیر پاک و ہند میں مسلمان پاکستان بننے سے پہلے کبھی اس قدر سرمایہ دار نہ تھے البتہ سردار ضرور تھے، اللہ نے قائداعظم کے توسط سے اقبال کے تصور کو حقیقت بنا دیا پھر کیا تھا ہندو ساہو کاروں کی لکڑیاں چیرنے والے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے اور جن کے پاس بقدر اشک بلبل کچھ کھانے کو اور کچھ سر اٹھا کر چلنے کو عزت تھی وہ نان شبینہ کو محتاج ہو گئے، اب یہ سلسلہ اس قدر زور پکڑ گیا ہے کہ زور و زر والے ان سے عزت بھی چھین رہے ہیں، یہ جو 8روپے مرلہ زمین والے ہیں انہوں نے کم از کم 8لاکھ مرلہ زمین کی جو توہین کی ہے، انہیں کاذب و خائن قرار دے کر کاغذات مسترد کئے جاتے مگر ہر افسر کا معیار الگ ہے، کہیں روپے کی چیز ایک پیسہ اور کہیں پیسے کی چیز ایک روپے کی قرار دے کر ایک بار پھر ہمارے کاندھوں پر ان کو سوار کر دیا جن کو کاندھا دینا چاہئے تھا۔
٭٭٭٭
گریٹر اقبال پارک
اتفاق سے گریٹر اقبال پارک دیکھنے 8بجے گیٹ پر پہنچا کہ دیکھوں تو کیا بنایا ہے، جن مشکلات سے گزر کر پہنچا وہ اپنی جگہ لیکن جو مشکل در پارک پر پیش آئی اس کا سامنا تو در یار پر نہیں کرنا پڑتا، دربان نے کہا داخلہ بند ہے، جو اس شہباز کی جنت میں داخل ہو چکا وہ اب 10بجے باہر نکلے گا، اور مزید کسی کو اندر جانے کی ضرورت نہیں، دل میں آیا کہ کیا عجیب جیل جنت بنائی ہے، پارک کے باہر ایک قیامت کا ہجوم تھا، کہ کسی طرح وہ اندر جائے مگر کسی کو جانے نہ دیا گیا، باہر گاڑیوں، رکشوں، موٹر سائیکلوں، اڑن کھٹولوں کا اژدھام اور عوام الناس کی اکثریت اور گھروں میں بیٹھی اقلیت کا احساس ہوا، پارکوں میں تو صلائے عام ہوتی ہے مگر یہاں عوام کیلئے بنایا گیا پارک اور اسکے دروازے عوام پر ہی بند، آخر یہ کیا نظام ہے؟ اگر عام داخلہ ہوتا تو پارک کے باہر ٹریفک جام نہ ہوتی، اور لوگ کچھ اندر جاتے کچھ باہر نکلتے خود بخود رش اندر ہوتا نہ باہر ہوتا، یقین جانئے لوگوں سے زیادہ اس دلکشا پارک میں روشنیاں تھیں، ہمیں تو اندر اکا دکا خوش نصیب ہی نظر آئے اور سمجھ نہ آیا کہ شائقین پارک کی بڑی تعداد کو اس عظیم تر اقبال پارک میں کیوں داخل ہونے سے روکا گیا، یہ قصہ ہے اتوار کی شام کا جو رات میں بدل گیا مگر منظر نہ بدلا، بہت شوق سے گئے تھے کہ روشن روشن سیر چمن ہو گی، مگر خار دار باڑ کے باہر ہی کانٹے چنتے رہ گئے جو کوئی بھی اس پارک کا ذمہ دار یا ذمہ داران ہیں، وہ ذرا جواب تو دیں کہ یہ پارک کس لئے بنایا گیا ہے، عوام کے پیسے اتنے کھوٹے کہ ان کی اچھی بھلی قسمت کھوٹی کر گئے، یہ نہیں ہو سکتا ضرور کھوٹی نیت، کھوٹا نظام اور کھوتا ذہنیت ہی نے نظام چمن کو درہم برہم کیا۔ یہی حال شاید سارے ملک کا بھی ہے، اب تو نگران حکومت سے بھی گلہ عبث کہ وہ الیکشن کرائے کہ چمن کی سیر کرائے، بہرحال حسرت سیر چمن لیکر انسانوں کے سمندر کو پار کر کے جیسے تیسے گھر لوٹے اور ہوم سویٹ ہوم کا ورد کرتے ہوئے سو گئے۔
٭٭٭٭
ناطقہ سر بہ گریباں
....Oجہانگیر ترین:کسی سے کوئی خوف نہیں، مجبوری ہے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا۔
یہ نعمت کیا کم ہے کہ اب آپ کو کسی سے کوئی خوف نہیں، یہ بڑا اعلیٰ مقام ہے۔ اللہ کا شکر ادا کریں۔
....Oخواجہ آصف اور ان کی اہلیہ کروڑوں کے مقروض۔
مقروضوں کا رہن سہن دیکھ کر ایمان پختہ ہو جاتا ہے کہ بیشک خالی ہاتھ سیاستدانوں کو پردئہ غیب سے غیبی کمک ملتی رہتی ہے۔
....O عابد شیر علی کے بھائی 55لاکھ 79ہزار 27روپے کے نادہندہ۔
پھر بھی لوگوں کو شکوہ کہ بجلی پوری نہیں ملتی۔
....Oامریکا میں نئے پاکستانی سفیر علی جہانگیر نے ٹرمپ کو سفارتی اسناد پیش کر دیں۔
ٹرمپ کتنے خوش ہوئے ہونگے کہ پاکستان میں ’’نوبت بہ اینجا رسید‘‘۔
....Oنامکمل اور ٹمپرنگ شدہ کاغذات جمع کرانے پر شاہد خاقان عباسی کو نوٹس۔
نامکمل سفیر امریکا بھیج سکتے ہیںتو کیا نامکمل کاغذات جمع نہیں کرا سکتے۔