دُرست استعمال۔۔۔!

July 03, 2018

الیکشن2018ء کے حوالے سے بحث پورے عروج پر تھی میرے پانچوں دوست یورپ، ملائیشیا،امریکہ اور چین میں زیر تعلیم ہیں اور الیکشن مہم میں حصہ لینے اور ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے پاکستان آئے ہوئے سارے مجھ سے ملنا چاہتے تھے تو میںنے کہا کیوں نہ ہم سارے مل کر بیٹھیں اور ایک دوسرے کی رائے جانیں کہ 2018ء کے الیکشن میں کیا ہونے جارہا ہے۔ میرے پانچویں دوستوں کا یہ خیال تھا کہ یہ الیکشن محض سیاسی جماعتوں یا امیدواروں کی کامیابی یا ناکامی کا الیکشن نہیں بلکہ یہ پاکستان کی کامیابی اور ناکامی کا الیکشن ہوگا۔پاکستان عمو ماََ مشکلات اور مشکل ترین حالات سے دوچار رہتا ہے لیکن اب واقعی چاروں طرف سے ایک ایسے دبائو کا شکار ہے کہ اگر صورتحال کو درست انداز میں ہینڈل نہ کیاگیا تو پاکستان اندرونی اور بیرونی دونوں طرف سے مشکلات کی گہری دلدل میں گھرسکتا ہے۔الیکشن 2018ء میں ایسی قیادت کا اقتدار میں آنا ضروری ہے جو عوام کے اندرونی مسائل حل کریں جس میں پانی،وبجلی کی فراہمی ،صحت اور تعلیم کے حصول کے یکساں مواقع، بے روزگاری کے خاتمہ کے لیے اقدامات کرنا اور پھر میرٹ پر ملازمتیں دینا شامل ہے۔ مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان کے آگے بند باندھنا اور لوگوں کی زندگیوں کو موجودہ حالات کے مقابلے میں آسان بنانے کے لئے اقدامات کرنا ضروری ہوگا۔کیونکہ اس مرتبہ ووٹرز کی اکثریت ماضی کے مقابلے میں ان اقدامات کے لازمی حصول کے لیے ووٹ ڈالے گی۔ خاص طورپر بڑے شہروں کے ووٹرز کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے کہ ووٹ دینے سے پہلے ان ساری باتوں کا خیال رکھیں کہ کس قیادت میں یہ اہلیت ہے کہ وہ مسائل کو ایڈریس کرسکے ،خاص طور پر کراچی کے عوام اب سیاسی وابستگیوں سے زیادہ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ شہر میں بجلی وپانی کی دستیابی کو ممکن بنانے کے ساتھ شہر جو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے اس گندگی سے انہیں صرف وعدوں کی حد تک نجات نہیں بلکہ عملی طورپر کام کرنے والی لیڈر شپ کی ضرورت ہے ۔کراچی کے عوام کو گندگی سے پاک ،پرامن کراچی چاہیے۔ یہ تو عوامی مسائل ہیں جن کا ادراک ضروری ہے اس کے علاوہ پاکستان کو ان اندرونی قوتوں کے خاتمہ کے لئے بھی ایسی پالیسی بنانا اوراس پر عمل کرنا ہے جو دانستہ یا غیر دانستہ دوسروں کے آلہ کار بن کر ملک کونقصان پہنچارہی ہیں، ایسے لوگوں کو روکنے کے لئے طا قت نہیں بلکہ حکمت عملی اورمثبت پالیسیوں کی ضرورت ہوگی۔اس میں مناسب قانون سازی بھی درکار ہوگی اور محروم طبقوں کی محرومی دورکرنے کے لئے عملی اقدامات کرنا بھی ضروری ہوگا۔ امریکہ سے آئے ہوئے میرے دوست جس کا مطالعہ بڑا وسیع ہے کا کہنا تھا کہ آنے والی نئی حکومت کو دو تین شدید نوعیت کے چیلنجز درپیش ہونگے۔پہلی بات تو یہ الیکشن کے بعد ہوسکتا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کا نعرہ لگا کر کچھ قوتیں گڑ بڑپھیلانے کی کوشش کریں اور الیکشن کے نتائج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جائے لیکن اگر الیکشن میں کس جماعت نے واضح برتری حاصل کرلی تو پھر اس کے امکانات کم ہوںگے ،قریب قریب نتائج کی صورت میں گڑ بڑ کے امکانات زیادہ ہیں۔دوسرا بڑا چیلنج پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت ہے۔جومسائل کی جڑ ہے اوراس کے نتیجے میں اندرونی وبیرونی دبائو بڑھ سکتا ہے۔اس کے لیے لانگ ٹرمز اور شارٹ ٹرمز موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی۔ میرے امریکہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لئے تعلیم حاصل کرنے والے دوست کا خیال اور خدشہ ہے کہ کچھ عالمی قوتیں پاکستان کے خلاف اکٹھی ہیں اور وہ نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں ایک اچھی مثبت قیادت اقتدار میں آئے اور نہ وہ چاہتی ہیں کہ پاکستان کی معیشت مضبوط ہو اور پاکستان اس خطے میں ایک نئی صورت لے کر ابھرے۔ ان قوتوں کی پہلی کوشش تو یہ ہوگی کہ وہ ان کی مرضی کی قیادت الیکشن میں کامیا ب ہواور اگر ایسا نہ ہوسکا ،تو جو بھی قیادت آئے وہ انکی مرضی کے مطابق اقدامات کرے، زیادہ ایماندار بن کر وہ ایسے اقدامات نہ کرے جس سے ملک اپنے پائوں پر کھڑا ہوسکے اس کے لئے وہ دھونس اورمالی امداد دونوں طرح سے اپنی بات منوانے کی کوشش کریںگے۔ اوراس کے جواب میں انہیں سفارتی انداز میں قائل کرنے کی بجائے اگر زور لگانے کی کوشش کی گئی تو بھی بات بگڑ سکتی ہے۔تاہم چین سے آئے ہوئے دوست کا خیال تھا کہ اب حالات بدل چکے ہیں قدرت پر ایمان مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ چین اور روس بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔لیکن پاکستان کو ان پر زیادہ انحصار کی بجائے خود ایسی پالیسیاں ترتیب دینا ہوںگی جو اسے اندرونی اور بیرونی طورپر مضبوط بنائے اور عوام خوش ہوں ۔لیکن اس وقت ساری باتوں کا انحصار عوام کے پاس موجود ووٹ کی طاقت کا درست استعمال ہے۔
twitter:am_nawazish