نواز ،مریم،صفدر نے سزا اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردی،آج سماعت ،جج محمد بشیر نے نواز شریف کیخلاف باقی ریفرنسز کی سماعت سے معذرت کرلی

July 17, 2018

اسلام آباد (ایجنسیاں)سابق وزیراعظم نواز شریف،ان کی بیٹی مریم نواز اورداماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر نے ایون فیلڈریفرنس میں ملنے والی سزاکو چیلنج کردیا ‘ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے دی جانے والی سزاؤں کے خلاف اپیلیں آج سماعت کے لیے مقرر کردی ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بینچ (آج) منگل کو سماعت کرے گا۔ ہائیکورٹ میں دائر اپیلوں میں احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دینے اور اپیل پر فیصلہ آنے تک سزا معطل کر کے مجرموں کو ضمانت پر رہا کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ادھرنواز شریف نے العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز کی دوسری عدالت میں منتقلی کی اپیل مسترد کرنے کا احتساب عدالت کا فیصلہ بھی چیلنج کردیا‘دوسری جانب احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف کے خلاف دیگر دو ریفرنسزالعزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس پر سماعت سے معذرت کر لی‘جج محمد بشیر کی جانب سے معذرت کا خط اسلا م آباد ہائیکورٹ کو موصول ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز دوسری عدالت کو منتقل کردیں کیونکہ میں ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ کر چکا ہوں اس لیے اب العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت نہیں کر سکتا‘ان کا کہنا تھا کہ اگر چاہیں تو مجھے ٹرانسفر کردیں کیونکہ نواز شریف کے وکیل نے بھی مجھ پر اعتراض کیا ہے ۔ایون فیلڈریفرنس کے فیصلے کے خلاف اسلام آبادہائی کورٹ میں دائر اپیلوں کے متن کے مطابق نواز شریف نے کبھی ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کیا اور استغاثہ نواز شریف کے اپارٹمنٹس کے مالک ہونے کے ثبوت پیش نہیں کرسکا ‘ نیب آرڈیننس کے تحت الزام ثابت نہیں ہوا‘ احتساب عدالت کا فیصلہ حقائق پر مبنی نہیں‘ عدالت نے انصاف کے تقاضے پورے کئے بغیر سزا سنائی جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر بری کیا جائے۔ اپیلوں میں کہا گیا ہے کہ ضمنی ریفرنس اور عبوری ریفرنس کے الزامات میں تضاد تھا، صفائی کے بیان میں بتا دیا تھا کہ استغاثہ الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا اس لیے شک کا فائدہ ملزم کو ہوتا ہے اس لیے سزا سنا کر احتساب عدالت کے جج قواعد کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔ اڈیالہ جیل میں قید تینوں مجرموں کی جانب سے دائر اپیلوں میں کہا گیا کہ واجد ضیاءکے بیان کی بنیاد پر سزا سنائی گئی جو تفتیشی افسر تھے لیکن انہیں بہت سے حقائق کا علم ہی نہیں تھا، واجد ضیاءکا بیان ناقابل قبول اور غیر متعلقہ شہادت ہے۔ اپیلوں میں کہا گیا ہے کہ کہ واجد ضیاءایسی دستاویز نہیں پیش کرسکتے جس کے وہ گواہ نہ ہوں اور ان کی گواہی محض سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے۔ اپیلوں میں کہا گیا کہ نواز شریف نے کبھی ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کیا اور استغاثہ نواز شریف کے اپارٹمنٹس کے مالک ہونے کے ثبوت پیش نہیں کرسکا جبکہ استغاثہ نے بھی تسلیم کیا کہ نواز شریف کے فلیٹس کے مالک ہونے کے کوئی ثبوت نہیں۔ اپیل کے مطابق کرپشن اور بدعنوانی سے متعلق نیب آرڈیننس کی سیکشن 9 اے 5 کے تحت الزام ثابت نہیں ہوا، ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی قیمت خرید بتائے بغیر سزا دینے کا جواز نہیں تھا جبکہ ضمنی ریفرنس میں نیا الزام لگایا گیا اور نواز شریف کو اسی ریفرنس کی بنیاد پر سزا سنائی گئی۔ اپیلوں میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف پر دوبارہ فرد جرم عائد کی جانی چاہیے تھی لیکن ایسا کیے بغیر سزا سنائی گئی اور احتساب عدالت نے شواہد کے بغیر فیصلہ سنایا ۔ اپیل میں استدعا کی گئی ہے نواز شریف کو سزا دینے کا کوئی قانونی جواز نہ تھا اس لیے ان کے خلاف غیر قانونی فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔اپیلوں کے مطابق واجد ضیاءنے تسلیم کیا کہ بچوں کا نواز شریف کے زیر کفالت ہونے کا ثبوت نہیں ملا اور بچوں کو کاروبار چلانے کے لئے نواز شریف نے پیسہ دیا اس کا بھی ثبوت نہیں ملا جبکہ عدالت نے واجد ضیاءکے اس بیان کو مکمل نظر انداز کیا اور غلط مفروضے کی بنیاد پر سزا سنائی اور احتساب عدالت کا فیصلہ حقائق اور شواہد پر مبنی نہیں ہے۔ اپیلوں کے مطابق جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاءنے خود تسلیم کیا کہ ایم ایل اے کا جواب نہیں آیا اس کے باوجود الزام لگانا بدنیتی ہے جبکہ رابرٹ ریڈلے نے تسلیم کیا کہ اس نے خود کیلبری فونٹ ڈاؤن لوڈ کیا اور انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ کمپیوٹر گیک نہیں ہے۔اپیلوں کے متن کے مطابق واجد ضیاءنے کہا کہ انہیں نہیں پتا 7 جولائی کو بی وی آئی کا خط جے آئی ٹی رپورٹ میں کس نے کب لگایا۔ اپیلوں کے متن میں کہا گیا کہ موزیک فونسیکا کے خطوط پوری سماعت کے دوران متنازعہ رہے، استغاثہ کی ذمہ داری تھی کہ خطوط کی متن کی تصدیق کرتا تاہم وہ اس میں ناکام رہا، بغیر تصدیق کے مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر پر معاونت کا الزام لگانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اپیلوں میں کہا گیا کہ معلوم ذرائع کون سے ہیں استغاثہ یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا جبکہ استغاثہ نواز شریف اور دیگر کے خلاف اپنا الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا اس لیے دفاع میں گواہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ علاوہ ازیں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز کی دوسری عدالت میں منتقلی کی درخواست مسترد کرنے کا احتساب عدالت کا فیصلہ چیلنج کردیا۔خواجہ حارث کے توسط سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیاگیا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ اور گلف اسٹیل ملز سے متعلق عدالت اپنا فیصلہ سنا چکی ہے جبکہ دیگر دو ریفرنسز میں بھی یہ چیزیں مشترکہ ہیں ۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ احتساب عدالت کے جج ایون فیلڈ پراپر ٹیز ریفرنس کا فیصلہ سنا چکے ہیں اس لیے قانون کا تقاضا ہے کہ دیگر ریفرنسز کسی اور عدالت کو منتقل کیے جائیں۔