پائیدار امن... ایک خواب

July 18, 2018

میزبان : بیدار بخت بٹ

اسلم جاوید، آصف محمود

عکاسی: افضل عباس

امن و امان وسیع تر قومی معاملہ ہے جس پر قومی فوکس ہونا چاہیے،انتخابی عمل کو پُرامن بنانا حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے،دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے سویلین خفیہ اداروں کو مستحکم کرنا ہو گا

ڈاکٹر رشید احمد خان

انتہاپسندی کے خاتمہ کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے،پالیسیوں پر عمل درآمد کے حوالے سے خامیاں موجود ہیں

خواجہ خالد فاروق

اکانومی کے امن و امان پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں،امن و امان پر قابو پانے کیلئے سویلین اداروں کی استعداد بڑھانی ہو گی،کریمنل جسٹس سسٹم کی بہتری پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے

چوہدری محمد یعقوب

آمرانہ حکومتوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے گھنائونے کھیل کھیلےقوانین پر عمل کرنے کی بجائے ہم انہیں بتدریج توڑ رہے ہیں،انتہاپسندی کے خاتمہ کیلئے وژنری قیادت کی ضرورت ہے

پرویز لودھی

انتخابی عمل کے دوران امن و امان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے،فرقہ واریت نے انتہاپسندی کو عروج تک پہنچایا،افغان سرحد پر باڑ لگنے سے بہتری آئے گی

بریگیڈیئر (ر) غضنفر علی

پولیس کے اندر سیاسی مداخلت کا خاتمہ ہونا چاہیے، امن و امان اب صوبائی معاملہ ہے

جنرل راحت لطیف

مؤثر انٹیلی جنس سے دہشت گردی کے نیٹ ورک کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے،ملک دشمن قوتیں سیاسی عمل کو ڈی ریل کرنا چاہتی ہیں

احمد وقاص ریاض

پاکستان کو موجودہ اور مستقبل میں درپیش امن و امان اور سکیورٹی کےچیلنجز کے حوالے سے سکیورٹی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی سے زیادہ اہم ایشو انتہا پسندی کاہے جس کے بارے میں ابھی کچھ شروع ہی نہیں کیا گیا جس سے عدم برداشت کی فضا پیدا ہو رہی ہے۔ ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ دہشت گردی کیسے پھیلی۔افغان جنگ کے بعد پاکستان میں ایک فضا موجود تھی جس کو تحریک طالبان، لشکر جھنگوی اور دیگر گروپوں نے استعمال کیا۔ افغان جنگ کا بیانیہ امریکہ نے دیا۔ ہمارا مقصد صرف سوویت یونین کو واپس بھیجنا تھا لیکن ہم پراکسی وار کرتے رہے۔ پاکستان کو شیعہ سنی ایشو کی سرزمین بنایا گیا۔ انتہا پسندی کی فضا بہت طاقت پکڑ چکی ہے۔ پاکستان میں امریکہ کی نفرت کی وجہ سے انتہا پسندی بڑھی۔

انسداد دہشت گردی کیلئے تاحال کوئی سکیورٹی انفراسٹرکچر نہیں بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ نہ تو سیاسی جماعتوں میں اتفاق ہے اور نہ ہی سول ملٹری تعلقات اچھے ہیں۔ غیر ملکی مداخلت کی وجہ سے بھی سکیورٹی چیلنجز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے وسائل میں ایک بڑا خلا موجود ہے۔ ہماری سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف بیانیے کی تشکیل نہیں کر سکے۔ دہشت گردوں کا بیانیہ ہے جو عوام کو متاثر کرتا ہے جب تک دہشت گردی کے خلاف ہمارا ایک مضبوط بیانیہ نہیں ہوتا تب تک دہشت گردوں کے سہولت کار معاشرے میں موجود رہیں گے۔ انٹیلی جنس اداروں میں تعاون اور رقابت کی بجائے اختلافات ہی نہیں بلکہ دشمنی نظر آتی ہے۔ ہمیں اپنی قومی پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہارسیاسی تجریہ نگار پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد خان، میجر جنرل(ر)راحت لطیف،بریگیڈئیر (ر) غضنفرسابق آئی جی چودھری یعقوب،سابق آئی جی خالد فاروقسابق اڈیشنل آئی جی پرویز لودھی،نگران وزیر اطلاعات احمد وقاص ریاض نے ’’جنگ‘‘ فورم میں کیا۔

پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد خان

سیاسی تجزیہ نگار

امن وامان ایک وسیع قومی ایشو ہے جس پر پوری طرح فوکس کیا جانا چاہئے کیونکہ 25جولائی کو انتخابات ہو رہے ہیں اور انتخابی مہم جاری ہے ہر جماعت کی سیاسی قیادت اور امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں دورے کر رہے ہیں جبکہ لیڈرز جلسے اور ریلیاں کررہے ہیں پر امن ماحول میں صاف شفاف انتخاب کا ہونا ہماری قومی ضرورت ہے گذشتہ روز ڈی جی آئی ایس بی آر جنرل عبدالغفور نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ 2013کے مقابلے میں حالیہ عام انتخابات نسبتاً پر امن ماحول میں ہو رہے ہیں جس کا کریڈٹ سکیورٹی فورسز کو جاتا ہے جنہوں نے اپنی قربانیوں سے کافی حد تک دہشت گردی پر قابو پا یا ہے لیکن ہمارے نزدیک ابھی تک نہ صرف خدشات دور نہیں ہوئے بلکہ کافی حد تک خطرات موجود ہیں 2013میں اے این پی کے سینکڑوں کارکن اور لیڈر دہشت گردی کا نشانہ بنے اس وقت تحریک طالبان پاکستان سرگرم تھی اور انہوں نے ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کے حوالے سے باقاعدہ اعلان کر رکھا تھا کہ ان کے اجتماعات اور قیادت کو جماعتوں کو اپنی انتخابی مہم چلانے کاپورا موقع ہی نہیں ملا تھا آج بھی دہشت گردی میں واضح کمی کے باوجود خدشات ختم نہیں ہوئے ہیں کیونکہ ابھی تک کائونٹر یٹر رازم کے حوالے سے سکیورٹی انفراسٹرکچر کا فقدان ہے اس کی واضح شکل موجود نہیں ہے اور قومی سطح پر کائونٹر ٹیرراز م کا متبادل بیانیہ نہیں ہے جبکہ دہشت گردوں کا بیانیہ نہ صرف موجود ہے بلکہ وہ عوام کو اپیل کرتا ہے دہشت گردوں کو کافر،غیر ملکی ایجنٹ، ظالم اور جانو ر کہہ دینا کوئی بیانیہ نہیں ہے عوامی مفاد میں متبادل بیانیہ اور راستہ بنانا ہو گا دہشت گرد کہتےہیں کہ غیر منصفانہ سسٹم میں غربت کو انصاف نہیں ملتا ہے ، امریکہ مسلمانوں کا دشمن ہے اور وہی دنیا بھر میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے ایسی باتیں عام لوگوں کو اپیل کرتی ہیں قومی سطح پر متبادل بیانیہ تشکیل نہ دیا جاتا ہماری بڑی ناکامی اتفاق رائے موجود نہیں ہے جبکہ سول ملٹری تعلقات میں بھی فرق ہے اس حوالے سے دانشوروں کا ان پٹ بھی نہیں ہے غیر ملکی مداخلت بھی موجود ہے جب تک معاشرے کے اندر اینٹی کائونٹر ٹریرازم کے خلاف مضبوط بیانیہ نہیں ہوگا مسائل موجود رہیں گے آج صورتحال یہ ہے کہ آپ کسی بھی شاپنگ سنٹر میں چلے جائیں تو دکانوں پر کالعدم تنظیموں کے چندے کی صندوقچیاں رکھی ہوئی ہیں اور لوگ انہیں چندہ دیتے ہیں لوگ افغانستان میں لڑنے والوں کو مجاہد سمجھتے ہیں ہم سب نے دیکھا کہ حلقہ این اے 120کے ضمنی انتخابات میں کالعدم تنظمیوں کے افراد نے انتخاب میں حصہ لیا بلکہ ان تنظیموں کی قیادت پر لوگوں نے پھول نچھاور کئے جبکہ دوسری طرف ریاستی اداروں خصوصاً خفیہ ایجنسیوں کے مابین باہمی رابطے کا فقدان ہے حتیٰ کہ ان کے مابین جھگڑے چل رہے ہوتے ہیں اور ان کی فنڈنگ اور صلاحیت میں بھی تضاوت موجود ہے حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ انگریز نے اس خطے میں امن و امان کے قیام کے لئے سویلین خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ اپنی حکومت چلانی ہے جبکہ ہم نے انہیں تباہ کر دیا ہے اگر یہ حالت جاری رہے تو ہم کیسے دہشت گردی پر قابو پا سکیں گے ہمیں پولیس اور اپنے سویلین خفیہ اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا کیونکہ وہ آسانی سے عوام کے اندر رابطہ رکھ سکتے ہیں۔

خواجہ خالد فاروق

سابق آئی جی پولیس

متبادل بیانیہ قدرتی طور پر خود بخود آیا ہے کیونکہ جب طالبان کا آغاز ہوا تو انہیں عوام کےاندر سے سپورٹ ملی لیکن جب انہوں نے پاکستان کے اندر دہشت گرد حملے کر کے عوام کو مارنا شروع کیا تو پھر لوٹوں کو معلوم ہوا کہ وہ ظلم کر رہے ہیں اس لئے اب عوام کے اندر ان کی سپورٹ نظر نہیں آتی ہے یوں معاشرے کے اندر ایک نیچرل طریقہ سے متبادل بیانیہ پیدا ہوا ہے جہاں تک اداروں کا تعلق ہے تو ہماری پارلیمنٹ نے دو مرتبہ دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی دی ہے اس طرح بیانیہ کی حد تک ریاست کی طرف سے کوشش کی گئی ہے مگر عمل درآمد کے حوالے سے خامیاں موجود رہی ہیں پاکستان کے اندر موجود تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام کی طرف سے دہشت گردی کی مخالفت کی گئی ہے حتیٰ کہ ہمارے نئی علماء کرام خود شہید بھی ہوئے ہیں مساجد اور دینی اداروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے البتہ معاشرے کے اندر انتہا پسندی کے خاتمہ کے لئے زیادہ اقدامات نہیں کئے گئے جن کی سب سے زیادہ ضرورت ہے انتہا پسند مذہبی جماعتیں نئی نئی شکلوں میں سامنے آ رہی ہیں ان کی تعداد پہلے سے کم نہیں ہوتی ہے جس کے امن و امان پر اثرات بڑھ رہے ہیں زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے سکیورٹی فورسز نے آپریشن کئے ہیں لیکن ابھی تک سیاسی جماعتوں کی متفقہ واضح قومی پالیسی نہیں ہے عوام کے اندر کچھ بات کی جاتی ہے اور اندر بیٹھ کردوسری بات کی جاتی ہے جس کی وجہ سے قومی سطح پر ایک لانگ ٹرم وژن کا فقدان نظر آتا ہے ،پولیس کو ریفارم کرنے کے لئے ایک بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے جنرل پرویز مشرف کے دور میں پولیس آرڈر 2002آیا تھا وہ ایک سنجیدہ کوشش تھی مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوا ہماری سیاسی حکومتوں نے اس کے اندر موجود ناپسندیدہ چیزیں ختم کر دیں اب ایک ترمیم شدہ پولیس آرڈر چل رہا ہے صوبوں میں جدید نو آبادیاتی نظام لاگو ہے پولیس کے نظام میں ریفارمز کر کے آگے بڑھنے کی بجائے ہم آج عملی طور پر انگریز دور کے نو آبادیاتی نظام کے تحت چل رہے ہیں، موجودہ حالات میں ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کس طرح کی پولیس چاہتے ہیں ایسی پولیس جو قانون کی حکمرانی پر عمل کرے۔ تو پھر ایک مؤثر پولیس نظام ہونا چاہیے، پولیس سے اندرونی نظام میں سیاسی مداخلت ختم ہونی چاہیے لیکن جب آئی جی پولیس کی پوسٹنگ ایک مسئلہ بن جاتے تو پھر عام آفیسر کو زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جو ادارہ خود اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہو سکے وہ دوسروں کو تحفظ کیسے دے سکتا ہے۔ پنجاب میں پولیس پر اخراجات کو دیکھا جائے تو فی کس آٹھ ڈالر سالانہ بنتے ہیں۔ بھارتی پنجاب میں ڈیڑھ سو ڈالر فی کس جبکہ انگلینڈ میں ساڑھے سات سو ڈالر فی کس خرچ کیے جاتے ہیں۔ پولیس کا 80فیصد بجٹ تنخواہوں اور الائونسز میں صرف ہو جاتا ہے۔8 فیصد پٹرول جبکہ تربیت پر محض دو فیصد خرچ ہوتا ہے حالانکہ پولیس میں کوالٹی آف ٹریننگ بہت اہم معاملہ ہے پولیس اور عوام کے درمیان معاملات کو احسن طریقہ سے چلانے کیلئے ایک گیپ موجود ہے ۔ ایسے تمام بنیادی ایشوز موجود ہیں جو قومی سطح پر ایک طویل ڈائیلاگ چاہتے ہیں۔18ویں ترمیم کے بعد امن وامان کی ذمہ داری صوبوں پر عائد ہوتی ہے لیکن وہاں صلاحیت کے ایشوز موجود ہیں۔

چودھری محمد یعقوب

سابق آئی جی بلوچستان

معاشرے میں امن وامان کا قیام ایک سنجیدہ موضوع ہے قانون کی حکمرانی کے اثرات سے روایتی جرائم میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ اکانومی کے بھی گہرے اثرات ہوتے ہیں پولیس کے مؤثر ہونے سے بھی بہت فرق پڑتا ہے لیکن پاکستان سمیت اس خطے میں جو دہشت گردی کی لہر آئی اس کی دنیا میں مثال نہیں مثال نہیں ملتی ہے۔ یہاں انتہا پسندی کی فضاء میں دہشت گردی پروان چڑھی ہے ایک ایسا ماحول موجود تھا جس سے فا ئدہ اٹھا کر دہشت گرد گروپ قائم ہوئے اس ماحول کی بیک گرائونڈ میں افغان جنگ بھی ایک بڑا عنصر ہے۔ امریکہ جیسی سپر پاور نے مسلمانوں کو ایک بیانیہ دیا تو برادر اسلامی ممالک نے بھی اس جنگ کو اون کیا۔ روس کو گرم پانیوں تک جانے لے روکنے کیلئے یہاں سی آئی اے کے ساتھ مل کر مجاہدین تیار کیے گئے۔ پاکستان کو اس سے قبل فرقہ واریت کی بنیاد پر پراکسی وار کا ایک میدان جنگ بنایا گیا تھا۔ شیعہ سنی مسائل کو ابھارا گیا، ایران کے انقلاب کے ری ایکشن میں مسلم اسلامی ممالک کی طر ف سے دینی مدارس کو فنڈنگ آنا شروع کی گئی۔ پنجاب اس جنگ میں سب سے زیادہ میدان جنگ بنا دیا ہے۔ اسلامک انتہا پسندی کی فضاء میںجو بنا بنایا بیانیہ موجود تھا۔ اسے استعمال کیا گیا اور پھر جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر کے وہاں موجود انتہا پسندوں کو ٹارگٹ کیا تو پھر پاکستان کے مسلمانوں نے اسے اسلام پر حملہ قرار دیا۔ انتہا پسندی کی فضاء مزید مستحکم ہوئی حتیٰ کہ ہمارے تاجر اور دکاندار بھی انتہا پسندوں کو چندہ دینے کے عمل کو نیکی تصور کرنے لگے ۔افغانستان میں جب امریکہ نے طالبان کو دھکیلا تو وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں چلے گئے اور پھر جب ہم نے امریکہ کے ساتھ مل کر انہیں مارنا شروع کیا تو ان کا ہمارے خلاف ری ایکشن آیا جو اتنا زیادہ تھا کہ پھر ہمارے اداروں کو بھی سوچنا پڑا کہ اب یہ لوگ ہمارے گلے پڑ گئے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات بڑھ گئے۔ سیاسی جماعتوں کےاندر یہ رویہ موجود تھا کہ یہ ہمارے اپنے بندے ہیں ان کے خلاف آپریشن کرنے کی بجائے مذاکرات کے ذریعہ معاملات حل کیے جائیں لیکن جب معاشرے کے اندر عام آدمی طالبان کے خلاف ہوئے تو تب آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا گیا ، پھر وسات سے اس عمل کا آغاز ہوا، آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد اداروں نےمحسوس کیا کہ اب بات بہت بڑھ گئی ہے تب سول ملٹری قیاد ت کے اتفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان قوم کے سامنے رکھا گیا اور ملک بھر میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف سخت گیر آپریشن شروع ہوا، آج2018ء کے عام انتخابات،2013ء کے انتخابات سے بہتر ماحول میں ہورہے ہیں لیکن اب بھی بدقسمت واقعات ہو رہے ہیں۔ کوئٹہ اور پشاور کا سانحہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ اس سے ہمیںسبق حاصل کرتے ہوئے امن وامان کے بہتر انتظامات کرنے ہونگے اور انتہا پسندوں کو نئے عزم کے ساتھ ختم کرنا ہوگا۔ ہم نے فاٹا سمیت قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانے پلاننگ کے آلات تو ڑ کر انہیں بھگایا ہے اور وہ اب افغانستان کےاندر چلے گئے ہیں پاکستان میں ان کیلئے صورتحال ٹھیک نہیں رہی ہے وہ افغان سرحدوں کے اندر موجود ہیں۔ دہشت گرد ختم نہیں ہوئے ہمیں آپریشن جاری رکھنے ہونگے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہم نے فوجی عدالتیں بنا کر سزائے موت کا قانون بحال کرنا پڑا ہے مگر مستقل حل کیلئے ہمیں اپنا کریمینل جسٹس سسٹم ٹھیک کرنا ہوگا کیونکہ فوجی عدالتیں ہمیشہ نہیں رہتیں لیکن بد قسمتی سے کریمینل جسٹس سسٹم کی بہتری کیلئے زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے ۔ قانون سازی پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کا کام ہے یہ عدلیہ کا کام نہیں ہے ہمیں لانگ ٹرم پالیسی کے تحت اپنے کریمینل جسٹس سسٹم کو ٹھیک کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ کو مستحکم کرنا پڑے گا ، حکمرانوں کو اپنی ترجیحات تبدیل کرنی ہوں گی عملی طور پر آج بھی نیکٹا کو وزیر اعظم کی بجائے وزارت داخلہ چلا رہی ہے اس طرح مدارس کی رجسٹریشن اور نصاب تعلیم کو جدید بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مائنڈسیٹ تبدیل ہو سکے غریبوں کے بچوں کو سکولوں میں لانے کے لئے خصوصی مراعات دینا ہوں گی تاکہ وہ تعلیم کے لئے مدارس کی بجائے سکولوں کی طرف آسکیں ہمیںسڑکوں اور علاقوں کی بجائے ہیومن ڈویلپمنٹ پر اخراجات کرنے ہوں گے تاکہ ایک بہتر قوم پیدا کی جاسکے مدارس کی فنڈنگ بھی ایک اہم معاملہ ہے اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا تب ہی مسائل حل کی طرف جا سکتے ہیں اور ملک میں پرامن فضا قائم ہو سکتی ہے۔

پرویز لودھی

سابق ایڈیشنل آئی جی پولیس

پاکستان میں عالمی سامراج اور آمرانہ حکومتوں نے اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے ایسے گھنائونے کھیل کھیلے کہ آج پوری قوم انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عذاب کا شکار ہے ہمارے اداروںملک اور عوام کی ترقی و خوشحالی کی منزل ٹھہرائو کا شکار ہو چکی ہے جنگ سے قبل سرحدی علاقوں میں مدارس بنا کر دفاع کو مضبوط کرنے کی پالیسی سے بہت نقصان ہوا ہے اس طرح وہاں انتہا پسند گروپ پیدا کرنے کے لئے ایک موقع فراہم کیا گیا اور پھر انہیں خوش کرنے کے لئے حکومتیں جو اقدامات کرتی رہیں وہ قوم کے سامنے ہے حتیٰ کہ لبرل صدر بھی انہیں خوش رکھنا چاہتے تھے لیکن بدقسمتی سے انتہا پسند گروپوں کی وجہ سے جو دہشت گردی پیدا ہوئی وہ ہمارے گلے پڑ گئی ہے اسی طرح بلوچستان میں بھی کچھ ایساہی کیا جاتا رہا ہے اگر حکومتیں اپنے مخصوص مفادات کے لئے قومی پالیسی سے درگزر نہ کرتیں تو آج حالات مختلف ہو سکتے تھے ہمارے حکمرانوں نے سیاسی جماعتوں اور پارلیمینٹ کو کمزور کرنے کےلئے ایک مولانا کوبیٹھا کر اسلام آباد میں دھرنا دلوایا تو پھر کسی کو کیسے روکا جاسکتا ہے اسی طرح مساجد میں پانچ لائوڈ سپیکرلگانے کی اجازت بھی حکومتوں نے دی ہے ساری حکومتیں اپنی بقاء کے لئے ایسے لوگوں کے ساتھ ہاتھ ملاتی رہی ہیں پھر ان کے مطالبات بڑھتے گئے اور انتہا ہوگئی، جنرل ضیاالحق نے مدارس کی ڈگریوں کو تسلیم کرکے ایک ایسا ظلم کیا جو آج تک جاری ہے۔ ہمارے خطے میں نیپال، بھارت اور سری لنکا نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے انسانی حقوق کی پروا کئے بغیر اقدامات کئے اور اس پر قابو پایا ہمارے ہاں کسی نے سزائے موت سے نہیں روکا ہے اور یہ مذہبی جماعتوں کا مطالبہ ہرگز نہیں ہو سکتا ہےمگر ہم دنیاسے خود ڈر گئے حالانکہ دنیا بھر کے جن ممالک میں سزائے موت کا قانون موجود ہے وہاںبھی تجارت ہو رہی ہے نہ صرف تجارت بند نہیں ہوئی بلکہ کم بھی نہیں ہوئی ہے تجارت کا سزائے موت کے قانون سے کوئی تعلق نہیں ہے اس کے اپنے توازمات ہوتے ہیں جن پر عمل ہونا چاہیے ، بنگلہ دیش نے حال ہی میں سیاسی لوگوں کو سزائے موت دی ہے ان کی تجارت پر کوئی اثر نہیںپڑا ہے ہمارے ملک میں فوجی حکمران اپنی پوری طاقت کے ساتھ جب اقتدار میں آئے تو عوام نے مزاحمت نہیں کی مگر جب وہ اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے سیاسی گھوڑے اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں تو پھر عوامی مزاحمت شروع ہو جاتی ہے ملک میں جب تک کرپشن، چوری، ناانصافی اور اختیارات کا ناجائز استعمال ہوگا اور بڑے لوگ قانون سے بالا رہیں گے تو ملک کے اندر دہشت گردی ختم نہیں ہو سکے گی، فیکٹریوں کے اندر قانون کے تحت انسپکشن کو ختم کردیا گیا تو اب ایف بی آر کے لوگ مارکیٹوں میں نہیں جاسکتے ہیں جب حکمران قانون اور میرٹ کی بجائے اپنی بقاء کے لئے کام کریں گے تو پھر قانون کی حکمرانوں کیسے ہو سکے گی قانون موجود ہے مگر ہم اس پر عمل کرنے کی بجائے اسے تیلا تیلا کرکے توڑ رہے ہیں جب کوئی رکن پارلیمینٹ کسی تھانے میں جا کر تھانیدار کو تھپڑ مار کر اپنا بندہ حوالات سے چھڑا کر لے جائے گا تو پھر لوگ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلوس نکال کر اپنے بندنے چھڑائیں گے اور قانون کی دھجیاں اڑتی رہیںگی ہماری افواج اورپولیس فورسز دنیا کی بہترین فورسز میں شامل ہیں امریکہ ستر ممالک کی مدد سے جنگ لڑ رہا ہے ہم نے اپنے زور بازو پر دہشت گردی کا مقابلہ کرکے اسے ختم کیا ہے پنجاب پولیس کو بہترین پیکیج حاصل ہے ہمارے شہداء کو شہادت کے بعد ریٹائرمنٹ کی عمرتک تنخواہ دی جاتی ہے ایک زمانہ تھا جب ہمارے پاس چاند ماری کے لئے اسلحہ نہیں ہوتا تھا لیکن اب جدید آٹو میٹک اسلحہ، گاڑیاں اور بلٹ پروف جیکٹس موجود ہیں ہمارے افسران جب بھی سرکار کے پاس فنڈز کے لئے درخواست لے کر جاتے ہیں انہیں مطلوبہ وسائل مہیا کئے جاتے ہیں بلڈنگوں کی کوئی کمی نہیں ہے ہمیں قومی سطح پر ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اتفاق رائے سے پالیسی دے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں تب ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے عذاب کا خاتمہ کرسکیں گے۔

بریگیڈیئر (ر) غضنفر علی

ماہر دفاعی امور

انتخابی عمل کے دوران امن و امال کی اہمیت سے پہلے سے بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ پرامن انتقال اقتدار جمہوری سفر میں سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔ معاشرہ ترقی اور خوشحالی کی منزل کی طرف گامزن ہوسکتا ہے۔ ہمارے ہاں امن و امان اور سکیورٹی کے تناظر میں اندرونی حالات اہم ہیں۔ جنرل مشرف کے دور حکومت میں انتہا پسندی سے دہشت گردی کے فیز میں داخل ہوئے پھر اس کے آڈٹ پروڈکٹ اور باقی پروڈکٹ سامنے آئے۔ پراکسی وار فرقوں کی بنیاد پر معاشرے میں آئی، سپاہ محمد اور لشکر جھنگوی کے مابین جو جنگیں ہوئیں وہ انتہا پسندی کا عروج تھیں۔ لشکر جھنگوی کے لوگ گرائونڈ پر جس حالت میں رہ رہے تھے انہیں اپنے پکڑے جانے اور گرفتار ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ انہیں کوئی معاشی اثر نظر نہیں آتا تھا۔ انتہا پسندی کی لہرسے قبل ہمارے معاشرے میں تمام فرقوں کے لوگ آرام سے رہ رہے تھے۔ ایک دوسرے کی تقریبات میں شریک ہوتے تھے، ایک محلے میں رہتے تھے اور سب دوسروں کی تعظیم کرتے تھے مگر پھر جب بیرونی فنڈنگ آئی تو انتہا پسندوں میں اضافہ ہوا۔ غیر ملکی فنڈنگ کے بند ہونے پر سب پکڑے گئے اور سکون کی کیفیت پیدا ہوئی۔ ہماری سرحدوں پر خطرات ہیں، افغانستان میں امریکہ کی سربراہی میں 47ممالک کی آرمی موجود ہے جو جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہونے کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ وہاں آج بھی افغانستان کے 60فیصد علاقہ پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ امریکہ اس خطہ میں اپنے مفادات کے تحت موجود ہے۔ ان کی افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے وسائل پر نظر ہے اور اس مقصد کے لئے وہ وہاں مستقل موجودگی کے خواہاں ہیں۔ ہمارے تحریک طالبان، سنگل باغ اور خالد خراسانی کی وجہ سے جو خدشات ہیں ان پر وہ سنجیدہ نہیں ہیں لیکن ان کے اثرات پاکستان کے اندر آ رہے ہیں۔ خود کش بمباروں میں اب پڑھے لکھے نوجوان بھی شامل ہو رہے ہیں لیکن اکثریت غریبوں کی ہے جنہیں باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ ہم اپنے معاشرے میں وسیع پیمانے پر مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں جبکہ آپریشنل سطح پر فوج اور پولیس نے اہم اقدامات کرکے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ملک کے اندر دہشت گردی میں واضح کمی ہوئی ہے اور عام آدمی بھی ریلیف محسوس کرتا ہے لیکن اس کے مکمل خاتمہ کے لئے ایک واضح قومی پالیسی کی ضرورت ہے۔ مائنڈ سیٹ کی تبدیلی کے لئے ایک مضبوط اور مستحکم قومی بیانیہ درکار ہے لیکن بدقسمتی سے ہم آج تک ایک جامع متبادل بیانیہ اور قومی پالیسی کے فقدان سے گزر رہے ہیں۔ افغان سرحد پر تار لگانا ایک مثبت عمل ہے۔ ایسا کرنے سے بغیر ویزہ اور پاسپورٹ جاری نقل و حمل رکے گی اور دہشت گردی میں واضح کمی آئے گی۔ دونوں ممالک کے مابین بارڈر مینجمنٹ سے دہشت گردی کے خدشات میں واضح کمی ممکن ہوسکے گی۔

جنرل (ر) راحت لطیف

ماہر دفاعی امور

انتخابات قوموں کے لئے ایک انتہائی اہم مرحلہ ہوتے ہیں جن میں پرامن ماحول کی فراہمی حکومتوں کے لئے ٹیسٹ ہوتی ہے جس سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کوئی حکومت قانون کی بالادستی کے لئے کتنی موثر ہے لیکن ہم نے بدقسمتی سے پاکستان میں اداروں کو ادارہ رہنے نہیں دیا ہے۔ انہیں اپنی ذاتی ملازم کے طور پر ڈیل کرتے ہیں جب حکومتیں اداروں خصوصاً امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ دار پولیس میں مداخلت کریں گی حتیٰ کہ ان کے کمانڈر آئی جی کا مقام اور اتھارٹی کمپرومائز ہوگی، انہیں مکمل اختیارات حاصل نہیں ہوں گے تو پھر اس کا اثر امن و امان پر پڑے گا۔ پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد امن و امان صوبائی معاملہ ہے۔ جب صوبوں میں پولیس کے کمانڈر سٹرکچر میں مداخلت کی جائے گی تو وہ موثر نہیں رہیں گے۔ اسی طرح فارن پالیسی سمیت اندرونی پالیسی سازی میں ملک و قوم کی بجائے ذاتی و پارٹی مفادات کو ترجیح دی جائے گی تو اس سے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھیں گے۔ پارلیمینٹ کی رکنیت کے لئے تعلیمی قابلیت کے معیار کو ختم کر دینا قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ ان پڑھ جاہل کیسے بہتر اور جدید تقاضوں کے مطابق قانون سازی کرسکیں گے۔ ہمیں رائٹ مین فار دی رائٹ جاب کے اصول کو ہر جگہ قائم رکھنا ہوگا وگرنہ مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب اے کیو خان جیسے قابل آدمی کو ذمہ داری سونپی تو اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم آج ایٹمی قوت ہیں۔ ہم بطور قوم بہت باصلاحیت اور محنتی ہیں۔ جب بھی ہم نے کوئی فیصلہ کیا اور بہتر قیادت ملی تو ہم نے سنگ میل عبور کیا ہے۔ آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد قوری قوم نے مل کر ایک فیصلہ کیا تو ہماری بہادر افواج نے اکیلے دہشت گردی کا سامنا کرتے ہوئے اسے ختم کیا جبکہ دنیا بھر میں ایسے معاملات کے حل کیلئے دوسروں کی مدد لی جاتی ہے۔ ہمیں ملک کے اندر موجود کالی بھیڑوں کو ختم کرنا ہو گا۔ ان کی موجودگی میں مسائل ختم نہیں ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں ایک موثر انٹیلی جنس کا نظام موجود ہے۔ جس کی مدد سے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو ختم کیا جا سکتا ہے۔البتہ حکومتوں کو بروقت موثر فیصلہ سازی کے ساتھ ساتھ ایکشن لینا ہوگا۔ وگرنہ کام آگے نہیں بڑھ سکتا ہے اور ملکی سلامتی و تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے واضح قومی پالیسی کے ساتھ موثر اقدامات ضروری ہیں۔

احمد وقاص ریاض

نگران وزیر اطلاعات پنجاب

پنجاب میں انتخابی عمل کو پر امن انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے حکومت شفاف اور غیر جانبدار طریقہ سے عملی اقدامات کر رہی ہے۔ اداروں کی طرف سے ہر روز تھریٹ الرٹ جاری کئے جاتے ہیں۔ ان خطرات سے نمٹنے کیلئے سیاسی قیادت کو آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مطلوبہ سیکورٹی مہیا کی جاتی ہے اور ریلیوں جلسوں اور کارنر میٹنگز کو مانیٹر کیا جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے قافلے کو ہر گز نہیں روکا گیا تھا۔ وہ دراصل پلان سے ہٹ کر ایک دربار میں جانا چاہتے تھے۔ ان کے پاس وہاں جانے کا اجازت نامہ نہیں تھا لیکن ہم نے سیکورٹی کو کلیئر کر کے انہیں وہاںجانے کی اجازت دی۔ پنجاب میں سیکورٹی صورتحال ماضی کے مقابلے میں بہتر ہے۔ ہم اس بات سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ جو ملک دشمن قوتیں سیاسی عمل کو ڈی ریل کرنا چاہتی ہیں۔ وہ حالات کو خراب کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں لیکن ہم تمام وسائل بروئے کار لا کر انتخابات کو پر امن بنائیں گے۔ ہم سیاسی قیادت سے درخواست کریں گے کہ وہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی پاسداری کرتے ہوئے جلسے جلوسوں کیلئے حکومت اور انتظامیہ کو پیشگی آگاہ کریں اور سیکورٹی خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے احتیاط برتیں۔ مقامی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کریں تاکہ معاملات خوش اسلوبی سے آگے بڑھ سکیں۔ ہمارا کام بروقت صاف شفاف انتخابات کرانا ہے۔ اس حوالے سے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں ۔ حالات خراب ہونے کی صورت میں پولیس کے ساتھ رینجرز بھی طلب کی جا سکتی ہے۔ امن و امان کے قیام کیلئے کابینہ کی خصوصی کمیٹی موجود جو ہر روز اپنا اجلاس کرتی ہے اور وہاں غیر جانبدارانہ فیصلے کئے جاتے ہیں۔ پنجاب میں اب تک بڑے سیاسی قائدین کو 15تھریٹ موصول ہوئے ۔ سب کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔ صوبائی وزارت داخلہ دیگر متعلقہ کے ساتھ مل کر روزانہ کی بنیاد پر اجلاس بلا کر معاملات کو حل کیا جاتا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے اور ملک میں جاری جمہوری سفر آگے بڑھے۔