الیکشن سبوتاژ نہ ہونے دیں!

July 19, 2018

کراچی، ملتان اور ڈیرہ غازی خان سے دہشت گردی کے 13ملزموں کی ٹھوس شواہد سمیت گرفتاری اور بعدازاں سامنے آنے والے انکشافات سے یہ بات ایک بار پھر واضح ہوگئی کہ پاکستان مخالف قوتیں اس ملک میں عام انتخابات 2018ء کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوششیں کررہی ہیں۔ قبل ازیں10جولائی کو پشاور کے علاقے یکہ توت میں عوامی نیشنل پارٹی کے انتخابی جلسے پر خود کش حملے اور 13جولائی کو مستونگ میں دہشت گردی کے جو واقعات ہوئے انہوں نے پاکستانی قوم کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ وطن عزیز میں الیکشن 2018ء کی انتخابی سرگرمیاں شرع ہوتے ہی کچھ انتخابی ریلیوں پر فائرنگ سے ظاہر ہورہا تھا کہ پاکستان دشمن قوتیں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے 2013ء کے انتخابات کی مانند ایسی فضا پیدا کرنا چاہتی ہیں جس میں سب پارٹیوں کیلئے کھل کر انتخابی مہم چلانا آسان نہ رہے۔ سینیٹ آف پاکستان میں پیش کی گئی ایک رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد عناصر بعض سیاسی رہنمائوں کو ہدف بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں تاکہ انتخابی عمل کا جاری رہنا ممکن نہ رہے۔ پھر منگل 10جولائی 2018ء کی رات بیرسٹر ہارون بلور نے کسی کے ذریعے پیغام بھیج کر اپنے صاحب زادے دانیال بلور کو جلسہ گاہ میں نہ پہنچنے کی جو ہدایت کی اس سے بھی واضح ہے کہ بیرسٹر ہارون کو آنے والے خطرے کا کچھ نہ کچھ ادراک ضرور تھا مگر انہوں نے اس بات کو ترجیح دی کہ انتخابی سرگرمیوں میں کسی طرح کا تعطل نہ آئے اور 25جولائی کو وقت مقررہ پر انتخابات ہوں۔ اس سانحے میں اے این پی کے درجنوں کارکن شہید ہوئے جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی خاصی ہے۔ 13جولائی کو مستونگ میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی اور لشکری رئیسانی کے چھوٹے بھائی سراج رئیسانی کے جس انتخابی جلسے پر حملہ کیا گیا اسے بعض حلقے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی دہشت گردی قرار دے رہے ہیں۔ آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردی کا واقعہ اگرچہ کئی برس قبل رونما ہوا تھا مگر اس میں اسکول کے بچوں اور اساتذہ کو جس بہیمیت کا نشانہ بنایا گیا اس کے زخم تاحال تازہ ہیں۔ آرمی پبلک اسکول کے واقعہ میں بھی ملک سے باہر کے عناصر ملوث تھے اور نگراں وزیراعلیٰ بلوچستان علائو الدین مری کے بیان کے مطابق سانحہ مستونگ اورا س جیسے دیگر واقعات کی کڑیاں بھی بیرونی سرزمین کے استعمال سے مل رہی ہیں۔ اس سانحے میں شہدا کی تعداد ڈیڑھ سو سے زیادہ بتائی جاتی ہے جن میں سراج رئیسانی بھی شامل ہیں۔ اگرچہ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ کس واقعہ میں نذر اجل ہونے والوں کی تعداد کتنی تھی مگر اس سے بھی زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ پاکستان کی بقا سالمیت اور استحکام کے لئے نذر کیا گیا ہر قطرہ خون قابل احترام اور وطن پر قربان ہونے والا ہر فرد پوری قوم کا محسن ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے تخریب کاروں اور قاتلوں کی پشت پناہی کہاں سے ہورہی ہے۔ نئی دہلی سے آنے والے بیانات میں پاکستان میں عدم استحکام کے مذموم ارادوں، سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کے اعلانات اور امریکہ ویورپ میں بھارتی لابی کی طرف سے پاکستان کے بعض حصوں کی علیحدگی کی مہم چلانے کے واقعات سب کے سامنے ہیں جبکہ بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سمیت نئی دہلی کی پاکستان دشمن سرگرمیوں کے شواہد وطن عزیز میں جگہ جگہ بکھرے نظر آرہے ہیں۔ ایک طرف پاکستان دشمن قوتیں واضح طور پر عام انتخابات سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں دوسری جانب ہم اپنے شہدا کی لاشیں اٹھانے کے باوجود الیکشن کے انعقاد کے لئے پرعزم ہیں تو دونوں متضاد باتوں کے پیچھے ایک ہی وجہ کارفرما ہے کہ انتخابات ملک کو مضبوط کرنے اور دلیل و منطق کے ذریعے اتفاق رائے کے مقام تک پہنچانے کا راستہ ہیں۔ آرمی چیف کی یہ یقین دہانی کہ الیکشن وقت پر ہوں گے اور ہم دشمن کے عزائم ناکام بنائیں گے، اسی حقیقت کی ترجمان ہے۔ اس ضمن میں حکومتی اداروں کی مستعدی کے ساتھ عوام کے چوکس رہنے کی ضرورت بھی بڑھ جاتی ہے۔