سر رہ گزر

July 22, 2018

بے یقینی سب کی دیکھا چاہئے
عمران خان نے کہا ہے:معلق پارلیمنٹ بننا بدقسمتی ہو گی، کہتے ہیں کہ 25جولائی کو چھم چھم بارش برسے گی، سورج نکل کر بھی نہیں نکلے گا، اسٹیج پر سب کے حوصلے بلند، فتح کا یقین مگر اندر ہی اندر دھڑکا سا لگا ہے کہ کون بنے گا وزیراعظم، اس ملک کی یہ بھی روایت ہے کہ یہاں کوئی ڈائریکٹ حوالدار نہیں بنتا میٹرک پاس سب ہوتے ہیں، وزیراعظم معلق ہی سہی پارلیمنٹ بھی معلق مگر دل بھی تو پہلو میں معلق رہ کر زیادہ آزادی سے دھڑکتا ہے، البتہ کوئی بائیں طرف سوئے تو دل پر بوجھ پڑتا ہے، اگر ووٹرز نے مساوات سے کام لیا اور تینوں کی جھولی میں برابر ووٹ ڈال دیئے تو بھی بھان متی کنبہ جوڑے گا، یقین باہر ہے اندر نہیں، ہمارے ہاں بالعموم ہر کربلا کے بعد اسلام زندہ ہوتا ہے اس لئے یہ فیکٹر بھی ووٹ فیکٹری بنا کر پانسہ پلٹ سکتا ہے، تین کا عدد طاق ہے اور اسے دو پر تقسیم کیا جائے تو باقی ایک بچتا ہے، اس ریاضی کے سوال پر بھی غور کر لینا چاہئے کیونکہ یہ نمبر گیم ہے، اس میں جمع، تفریق، تقسیم ہو سکتی ہے۔ لوگوں کی سن کر لگتا ہے کہ ووٹ ڈالنا ایک عقیدہ بن چکا ہے اور عقیدت و جمہوریت دو متضاد حقیقتیں ہیں اور ہم چونکہ عاشق مزاج بھی واقع ہوئے ہیں اس لئے زیادہ تر ان انتخابات میں بھی عشق ہی کارفرما ہو گا عقل محو لب بام ہی رہے گی، اب وقت دعا بھی نہیں وقت ووٹ ہے، اور کم مایہ ہمارا نوٹ ہے، میڈیا اس حد تک غیر جانبدار ہے کہ اس پر غیر جانبداری کا جانبدار ہونے کا گمان گزرتا ہے، البتہ سوشل میڈیا اپنے بند ہونے کا سامان کر رہا ہے، 25جولائی کا سورج بھی بے یقینی لے کر آیا تو پھر ذوق یقین پیدا کرنے کیلئے یقیناً اپنے اپنے چاند چڑھانے پڑیں گے تاکہ گھپ اندھیرا نہ ہو۔
٭٭٭٭
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے: نیب کو ہم سے فرصت نہیں نگران اور پی ٹی آئی ایک ہیں، الیکشن کمیشن خاموش تماشائی ہے۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ تب بھی نیب کو آپ سے فرصت نہ تھی ایک یہ وقت بھی ہے کہ نیب کو آپ سے فرصت نہیں، پہلی عدم فرصت نے دوسری عدم فرصت کو جنم دیا، اس لئے چنداں نیب کے حوالے سے کچھ کہنے سننے کی تو گنجائش ہی نہیں نگران اور پی ٹی آئی اگر ایک ہیں تو اس میں آپ ہی کا فائدہ ہے اور آنے والے دنوں میں یہ فائدہ کام آئے گا اور جہاں تک الیکشن کمیشن کا تعلق ہے تو اسے چپ ہی رہنا چاہئے کہ اس طرح وہ کسی کا کچھ بگاڑ نہیں سکے گا، خطرہ سب کو صرف ووٹر سے ہے کہ وہ خلوت خانہ ٔ ووٹنگ میں کس کے نشان پر مہر لگاتا ہے آج تک کوئی ووٹر کے اندر نہیں جھانک سکا، بڑے بڑے تجزیہ کار و نگار اپنی اپنی اٹکل بچوںاستعمال کر رہے ہیں مگر انہیں سن کر خواب کی تعبیر مزید بکھر جاتی ہے، اسکرینوں پر جو رونق لگی ہے وہ دیدنی ہے شنیدنی نہیں، آج اگر نواز شریف اور مریم اندر ہیں تو یہ شریف فیملی کی خوش قسمتی ہے کہ شہباز شریف اور حمزہ باہر ہیں، ن لیگ اچھے خاصے ووٹ لے جائے گی جو پارٹی کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے کافی و شافی ہوں گے، یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ن لیگ کا ’’گُجا‘‘ ووٹ ہے، کوئی بڑا بریک تھرو بھی کر سکتی ہے، کسر رہ گئی تو ن لیگ کو پورا کرنے کا ہنر آتا ہے، ن لیگ نے ٹھوس کام بھی کئے ہیں، اس کا بھی ووٹر کو احساس ہے، پکا ن لیگی کپڑے تبدیل کر سکتا ہے پارٹی تبدیل نہیں کر سکتا، پی ٹی آئی خود بھی خام مال ہے اس کا ووٹر بھی خام ہے، سیاست سے قائمہ کا رکن دونوں بے خبر ہیں پیپلز پارٹی کا نام ن لیگ اور ن لیگ کا نام پی پی نہیں لے رہی دونوں جدا رہ کر پی ٹی آئی کا پیچھا کر رہی ہیں۔
٭٭٭٭
وہ بے مہر کس کا آشنا
جیالوں کو دھوکا، بلاول کی گاڑی سمجھ کر عمران کی گاڑی سے لپٹ گئے، جب کسی کو لپٹنا آیا ہوا ہو تو وہ کسی سے بھی لپٹ سکتا ہے، اس ایک جملے میں آپ چاہیں تو ملک کی ساری سیاست کا روئے زیبا دیکھ سکتے ہیں، زور لپٹنے پر ہے، جیسے کوئی کشتی الٹ جائے تو ڈوبنے سے بچنے کے لئے یہ تمیز اٹھ جاتی ہے، کہ کمبل ہے یا کنارا، جب دلہنیں بدلنے کے واقعات ہو سکتے ہیں تو ان دنوں گاڑیاں تو سب لیڈرز کے پاس دلہنوں سے کم نہیں ہر کارکن اسے اپنی سمجھ کر لپٹ جائے تو اچھنبے کی بات نہیں اسی طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں، بہرحال سیاست میں کچھ بھی نہیں ہو سکتا، غریب عوام، غریب ہی رہیں گے، اسکول جانے کے لائق بچے کسی ورکشاپ پر ’’چھوٹے‘‘ ہی رہیں گے، مہنگائی بڑھے گی، کم نہ ہو گی، بیروزگاری، ڈاکو جنم دے گی، اس لئے کہ ہمیں لیڈران سے عشق ہے اپنے بال بچوں سے نہیں، حقیقت پسندی کی جگہ اندھی عقیدت اور بھینگے پیار نے لے لی ہے، اس وقت شہباز، عمران، بلاول وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں، ان تینوں کو چاٹنے سے بھوک مٹے گی نہ غربت، تو پھر ان میں سے ٹاس کر کے کسی کو بھی چن لیں کیونکہ کرسی آباد رہے چاہے ملک برباد رہے، کھری بات سننے کا کوئی روادار نہیں، لچھے دار تقریریں کرنے والوں کا ہر کوئی یار ہے، گرمی اور حبس نے بھی کافی گو مگو پیدا کی ہے، اس لئے جلسوں کی تعداد سے بھی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ بیل نے پٹھے کھانے ہیں وہ بھی ملیں نہ ملیں، کیونکہ پانی بھی کمیاب اور لیڈر بھی کامیاب، چھوڑیں یہ قصہ درد غالب کا یہ شعر سنئے اور تھوڑا سا غور بھی کیجئے؎
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کسی کا آشنا