9ملین اموات ہر سال

July 22, 2018

آج پوری دنیا میں ورلڈ برین ڈے منایا جا رہا ہے۔ ورلڈ برین ڈے کے حوالے سے میرخلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی (جنگ گروپ آف نیوز پیپرز)کی طرف سے خصوصی سیمینار منعقدکرایا گیا۔ جس کا موضوع تھا Clean air for brain health اس سیمینار میں ماہرین نے صاف ہوا اور دماغی صحت کے حوالے سے کئی حیران کن باتیں بیان کیں۔ جس سے اس سے قبل نہ ہم آگاہ تھے اور شاید قارئین بھی آگاہ نہ ہوں۔ پریزیڈنٹ پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی پروفیسر ڈاکٹر اطہر جاوید نے اپنی پریزنٹیشن میں بتایا کہ پوری دنیا میں فضائی آلودگی سے سالانہ نو ملین افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں فضائی آلودگی سے سالانہ 135000 افراد مر جاتے ہیں۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں فضائی آلودگی انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کرچکی ہے۔ ہمارے حکمران اس چیز سےبے خبر ہیں کہ ماضی میں جو لوگ یہاں برسراقتدار رہے انہوں نے انسانی صحت کی بہتری کے لئے دعوے توبہت کئے لیکن انہوں نے فضائی آلودگی سے ہونے والی ہلاکتوں پر کبھی توجہ نہیں دی۔ ہماری فضا میں کچھ مضر صحت مادے ہوتے ہیں جو ماحول کو آلودہ کرتے رہتے ہیں۔ عزیز قارئین آپ کے لئے یہ بات بڑی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ آلودگی دو طرح کی ہوتی ہے۔ اِن ڈور فضائی آلودگی اور آئوٹ ڈور فضائی آلودگی۔
میڈیکل کی تحقیق کے مطابق پچاس فیصد بچے اِن ڈور فضائی آلودگی کے باعث نمونیا ہونے سے مر جاتے ہیں۔ اب ان ڈور فضائی آلودگی کیا ہے۔ مثلاً کارپٹ، گردو غبار، پینٹ، ہمارے گھروں میں پچھلے تیس چالیس برسوں میں ڈور ٹو ڈور کارپٹ کا کلچر شروع ہوا اور جب اس سے بیماریاں بڑھیں تب لوگوں کو احساس ہوا کہ کارپٹ سانس،دمہ، کھانسی، نزلہ زکام اور کئی بے شمار بیماریوں کا باعث بنتا ہے چنانچہ کارپٹ سے لوگوں نے گریز کرنا شروع کردیا۔ اب اگرچہ ووڈن فلور کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے لیکن گھروں کے اندر کچن آگیا۔ گھروں سے روشن دان غائب ہوگئے۔ بڑے بڑے شیشے لگا دیئے گئے اور کوشش کی گئی کہ دھوپ کا کم سے کم گزر اندر سے ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کچن ہمیشہ گھر سے باہر ہونا چاہیے یعنی گھر کی عمارت سے ذرا ہٹ کر۔ ماضی میں انگریزوں نے جتنے بھی ریسٹ ہائوس، سرکاری اور پرائیویٹ گھر تعمیر کئے ان سب کے کچن باہر ہوتےتھے حتیٰ کہ کبھی گھروں کے واش رومز بھی باہر ہوتے تھے۔ تب لوگ کم بیمار ہوتے تھے ۔ جونہی کچن اور واش رومز گھر کے اندر آئے ساتھ ہی بیماریاں بھی آگئیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق 2012 میں 4.3 ملین لوگ ان ڈور فضائی آلودگی کے باعث مرگئے۔ جبکہ 3.7ملین آئوٹ ڈور فضائی آلودگی کے باعث مر گئے۔ ہر سال 1135000 اموات آئوٹ ڈور پالوشن کے باعث ہو رہی ہیں۔ آج تک کسی حکومت نے فضائی آلودگی پر بات نہیں کی اور نہ کسی سیاسی پارٹی کے منشور میں فضائی آلودگی کے بارے میں کوئی منصوبہ بندی بیان کی گئی ہے۔ حالانکہ باہر کی دنیا فضائی آلودگی کی روک تھام پر بہت توجہ دے رہی ہے۔
پاکستان میں پچھلے کچھ عرصے سے احتجاج کے دوران ٹائر، پوسٹرز،بینرز جلانے کا نیا رجحان شروع ہوا ہے۔ ٹائروں کے دھوئیں سے انتہائی مضر صحت کیمیکلز فضا میں پھیل جاتے ہیں۔ احتجاج کرنے والوں نے کبھی نہیں سوچا کہ ٹائروں سے نکلنے والا دھواں زہر قاتل ہے۔ اس سے سانس کی مختلف بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں مختلف کیڑے مکوڑوں کو مارنے کے لئے اور خاص طور پر مچھروں کو مارنے کے لئے مختلف اقسام کے اسپرے کئے جاتے ہیں جو انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ اب تو لوگ باغیچوں میں بھی کیڑے مکوڑوں کو مارنے کے لئے اسپرے کرتے ہیں۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ فرنیچر پر جمی ہوئی دھول بھی فضائی آلودگی کا باعث بنتی ہے اور اس سے بھی مختلف بیماریاں لگ جاتی ہیں۔
پوری دنیا میں ہر سال دو ملین افراد ان ڈور پالوشن سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ سالانہ ایک ملین افراد COPD سے مرجاتے ہیں۔ COPDکو (Chronic obstructive pulmonary disease) کہتے ہیں۔ا ن ڈور فضائی آلودگی کے باعث 30 فیصد اموات COPDکے باعث، 18فیصد اموات دیگر بیماریاں اسٹروک ودل کے امراض کے باعث ہوتی ہیں جبکہ آئوٹ ڈور فضائی آلودگی کے باعث 22فیصد اموات اور دیگر بیماریوں ا سٹروک و دل کے امراض کے باعث، پانچ سال کے پندرہ فیصد بچے نمونیا کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ 5 فیصد اموات COPDکے باعث ہوتی ہیں۔ فضائی آلودگی کینسر، دمہ اور ٹی بی کاباعث ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 2012میں 4.3 ملین اموات ہائوس ہولڈ فضائی آلودگی کے باعث ہوئیں اور ان میں 88فیصد اموات Non communi cable بیماریوں کے باعث ہوئیں جیسا کہ COPD ، دل کے امراض وغیرہ۔
Ambient فضائی آلودگی کے باعث 2012 میں 3.7 ملین اموات ہوئیں۔ 21 فیصد اموات دل کے امراض کےباعث، 23 فیصد اموات اسڑوک کے باعث اور 13فیصد اموات COPD کےباعث ہوئیں۔ ہمارے ہاں لوگ فصلوں کی کٹائی کے بعد جو ویسٹ بچتا ہے اس کو آگ لگا دیتے ہیں جو کہ انتہائی خطرناک بات ہے اور سردیوں کے دنوں میں جب یہ دھواں فضا میں نہیں جاسکتا تو ایک عجیب و غریب صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جسے دھواں والی دھند بھی کہتے ہیں۔
قارئین آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال اس دھند سے سانس کی کافی بیماریاں لاحق ہوئی تھیں۔ پچھلےبیس برسوں میں پاکستان میں ٹرانسپورٹ دو ملین سے 10.6ملین بڑھی ہے اور ہر سال اس میں 8.5فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ 1921سے لے کر 2012تک موٹرسائیکلیں اورا سکوٹرز 450 فیصد بڑھے ہیں جبکہ گاڑیاں 650فیصد تک بڑھی ہیں۔ اسی طرح ہمارے ہاں بے شمار صنعتیں لگی ہوئی ہیں۔ ان صنعتوں، کارخانوں اور فیکٹریوں سے بھی مضر صحت دھواں فضا میں شامل ہوتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ فیکٹریاں، کارخانے شہروں سے دور حتیٰ کہ دیہات سے بھی دور بنائے جاتےتھے۔ آج تمام آبادیاں ان کارخانوں اور فیکٹریوں تک پہنچ چکی ہیں۔
ہمارے ہاں کوئی منصوبہ بندی نہیں، جنگلوں کو، کوڑے کرکٹ کو آئے دن آگ لگا دیتے ہیں۔ درخت کاٹنے کی وجہ سے فضائی آلودگی بڑھتی جا رہی ہے۔ لاہور میں رنگ روڈ کے پاس ایک علاقہ ہے جہاں پر پورے شہر کا کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے اور وہاں پر کوڑا کرکٹ کا پہاڑ بن چکا ہے جو زمین سے 70 فٹ بلند ہے۔ جب سارا علاقہ کوڑا کرکٹ سے بھر جائے گا تو یہ کہاں پھینکا جائے گا۔؟ حالات یہ ہیں کہ ہر پانچ سال بعد الیکشن کے موقع پر امیدوار آتے ہیں، مختلف دعوے اور سبز باغ دکھاتے ہیں۔ دوسری جانب حالات یہ ہیں کہ پورے ملک میں کسی بھی امیدوار کا حلقہ اس قابل نہیں کہ اس کی مثال دی جاسکے۔ گندگی، ہر جگہ کوڑا کرکٹ، پینے کے لئے صاف پانی میسر نہیں، سیوریج کاخراب نظام۔
پنجاب میں ن لیگ کی حکومت ایک عرصے سے رہی اور صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی، دونوں جماعتوں نے دعوے تو بہت کئے، کراچی کوڑا کرکٹ کا ڈھیر ہے اور اس کا اعتراف خود پیپلز پارٹی کے کئی رہنما اور میئر کراچی بھی کر چکےہیں۔ فضائی آلودگی کے حوالے سے کراچی کو گندا ترین شہر کہا جاتا ہے۔ اسی طرح پنجاب کے بھی کئی شہر فضائی آلودگی کے حوالے سے گندے ترین شہر ہیں اور ان میںگوجرانوالہ اور فیصل آباد سرفہرست ہیں۔
عزیز قارئین لاہور شہر میں بھی بے شمار ایسے علاقے ہیں جہاں پر انسان کیا جانور بھی رہنے کو تیار نہیں۔ کئی برس قبل حکومت نے فضائی آلودگی اور ماحولیات کے حوالے سے ایک محکمہ بھی قائم کیا تھا۔ اس محکمے کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔ اس محکمے نے لوگوں کو شعور اور آگاہی دینے کے لئے آج تک کوئی کام نہیں کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں اس دن کے حوالے سے سیمینارز اور تقریبات ہونی چاہئیں۔ نوجوان نسل کو اس حوالےسے شعور دیا جائے۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں جہاں پہلے ہی مختلف نوعیت کی بے شمار بیماریاں ہیں جبکہ فضائی اور ماحولیاتی آلودگی سے ناصرف بیماریاں پھیل رہی ہیں بلکہ اس سے لوگ مر بھی رہے ہیں۔ ہمیں اس حوالے سے ٹھوس بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)