غزہ سے تہران تک

July 26, 2018

اسرائیل کی پارلیمنٹ نے ایک متنازع مسودہ قانون کی منظوری دے دی ہے جس کی رو سے صرف یہودیوں کو خودمختاری حاصل ہوسکےگی،علاوہ ازیں ریاستی سطح پر نئے پرانے یہودی آبادکاروں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ گزشتہ ہفتے ’’قومی ریاست‘‘ کے عنوان سے پیش کئے گئےا س بل کو اسرائیلی پارلیمنٹ نے لگ بھگ دس گھنٹے تک جاری رہنےوالی تو تکار گرما گرم بحث کے بعد جمعرات کی صبح 55کے مقابلے میں 62ووٹوں سے منظور کرلیا اس پر پارلیمنٹ کے عرب ارکان نے اسے ’’جمہوریت کی موت اور نسل پرستی کی انتہا‘‘ قرار دیتے ہوئے ایوان میں بل کی کاپیاں پھاڑ دیں۔
ادھر ایک معتبر عالمی سروے کے مطابق دنیا کے بیس ممالک کے عوام فلسطینیوں کیلئے ایک علیحدہ ریاست کے قیام کی غرض سے اقوام متحدہ میں قرارداد منظور کرانے کے حق میں ہیں۔ گلوب اسکین کے اس سروے میں انیس ملکوں کے بیس ہزار 4سو چھیالیس شہریوں نے حصہ لیا جہاں عوام کی اکثریت نے فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے حق میںاپنی رائے کا دوٹوک اظہار کیا۔ جن ممالک میں اس قرارداد کے بارے میں مخالفت زیادہ ہے ان میں امریکہ نمایاں ہے جہاں کے عوام 45فیصد حمایت میں اور 36 فیصد مخالفت میں ہیں دوسری طرف یورپین یونین کے ممبران ممالک کے اپنے ملکوں میں 54فیصد افراد آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے حامی ہیں جبکہ محض 20فیصد مخالف ہیں۔ سابق امریکی صدر اوباما نے اپنی تقریر میں اقوام متحدہ کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے کی مخالفت کی انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا تھاکہ اگر سیکورٹی کونسل میں فلسطین کو اقوام متحدہ کا رکن بنانے کی قراردادپیش ہوگی تو امریکہ اس قرارداد کو ویٹو کے ذریعہ ناکام بنادے گا۔ میرے حساب سے امریکہ کا یہ ویٹو اسرائیل کے وجود کو بچانے کیلئے 43واں ویٹو ہوگا کہ اس سے قبل ہر امریکی صدر نے اسرائیل کے خلاف آنے والی قرارداد کو 42بار ویٹو کرکے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ صدر ٹرمپ پہلے ہی یہ یقین دہانی کروا چکے ہیںکہ غزہ سے لیکر تہران تک اسرائیل کا تحفظ کریں گے ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ایران کو ایٹمی طاقت نہ بننے دیا جائے اور حماس کے پر کاٹ دیئے جائیں اور خطے میں اسرائیلی مفاد کو مدنظر رکھا جائے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر ایران نے ایٹم بم بنالیا تو تل ابیب یونیورسٹی کے ایک سروے کے مطابق 26فیصد یہودی اسرائیل چھوڑ جائیں گے جبکہ 85فیصد اسرائیلوں کو یقین ہے کہ ایران ایٹم بم بنالے گا۔
فلسطینی صدر محمود عباس کی طرف سے اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت کے لئے پیش کی گئی قرارداد کی وجہ سے نہ صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں میں کھلبلی سی مچ گئی ہے بلکہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بھی ہوش کھوبیٹھے ہیں انہوں نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینیوں کو سمجھنا چاہئے کہ اب ’’وقت‘‘ آگیا ہے کہ وہ یہودی ریاست کو تسلیم کرلیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ دنیا کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ قراردادوں سے امن قائم نہیں ہوگا انہوں نے تجویز پیش کی کہ امن مذاکرات کا سلسلہ فوری شروع کیا جائےدوسری طرف فلسطین کے وزیر خارجہ ریاض المالکی نے اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے کی تازہ کوششوں کو نامکمل ادھورا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر روکنے کی اپیل شامل نہیں۔ انہوں نے اسرائیل کو ایک قابض قوت قرار دیتے ہوئے کہا کہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں فلسطینی علاقوں پر اس کا قبضہ کسی علاقے کو کالونی کے طور پر اپنے کنٹرول میں رکھنے کی پالیسی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت کی درخواست پر اعتراض کرنے والے ملکوں کے حیلے بہانے بالکل لغو بے بنیاد اور مکڑی کے جالے کی مانند ہیں کہ وہ اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے ’’بات چیت‘‘ کی دعوت دے رہے ہیں جبکہ نہ اس کا ٹائم ٹیبل مقرر کیا گیا ہے نہ اس کی مدت مقرر کی گئی ہے اور نہ ہی اس کا قانونی دائرہ حدود متعین کیا گیا ہے جس کے دائرے میں یہ مذاکرات کرانا چاہتے ہیں۔ بے فیض اور بانجھ مذاکرات اوربات چیت پر 20سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ 1991ء میں میڈرڈ (اسپین) میں منعقد امن کانفرنس کے بعد سے فلسطینی نہایت تلخ تجربات سے گزرتے رہے ہیں اور ان20 برسوں سے بدترین مشکل حالات اور ظلم و بربریت کو جھیلتے رہے ہیں ان دوہائیوں کے دوران جو نسل پیدا ہوئی ہے جو بچپن سے جوانی کی حدود میں داخل ہوئی ہے اس نے صرف مذاکرات ، گفتگو اوربات چیت کے دور کا ہی مشاہدہ کیا ہے اور یہ جانا ہے کہ ایک طرف فلسطینی فریق کو مذاکرات اور بات چیت میں الجھا کر رکھا گیا ہے اور دوسری طرف ان کی زرخیز زمینوں کو تیزی سے ہڑپ کیا جارہا ہے۔ بستیاں بسائی جارہی ہیں جن میں غیرممالک سے لا کر یہودیوں کو بسایا جارہا ہے۔
جون 2009ء کو قاہرہ یونیورسٹی میں اوباما نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسرائیل کو2003 کے روڈ میپ کے پہلے مرحلے کی شرائط کی پیروی کرنے پر آمادہ کرے گا اس روڈ میپ کی پہلی شرط کے مطابق ’’اسرائیل کو مزید نئی بستیوں کے قیام کا سلسلہ منقطع کردینا چاہئے‘‘۔ فلسطینیوں اور عرب ممالک نے اس شرط کو اس حقیقت کے باوجود قبول کرلیا کہ اسرائیل نے اس روڈ میپ میںایسے مزید 14ریزویشن کا اضافہ کیا ہے جن سے اسے نئی بستیوں کی تعمیر کا اختیار حاصل ہوگا۔ میرے حساب سے یہ ’’روڈ میپ‘‘ فلسطینیوں کی قسمت کا وہ باب ہے جس میں ان کے لئے اپنی تہذیب و تمدن ، سماج و معاشرہ ، معیشت اور سیاست سے دور رہنا ہی لکھا ہے۔
ان سارے مصائب اور تکالیف کے باوجود اب پھر سے فلسطینیوں سے امریکہ اور مغربی طاقتیں سامنے آکر کہہ رہی ہیں کہ ’’مذاکرات‘‘ کی میز پر واپس آیا جائے اور اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے حصول کیلئے پیش کی گئی درخواست کو بھول جائیں اور کسی ٹائم ٹیبل کے بغیر اسرائیل سے بات چیت کی جائے جیسے یہ مسئلہ نہ ہو دل بہلانے کا ذریعہ ہو، تفریح طبع ہو ، مگر شاید وہ یہ بھول رہے ہیں کہ اب مظالم اور بے بسی کی انتہا ہوچکی ہے وہ اپنا ملک چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب فلسطینی اتھارٹی نے اقوام متحدہ میں خصوصی نشست کے بجائے مکمل رکنیت کیلئے سیکورٹی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹایا تو سارے فلسطینی، عرب اور دنیا کی 54فیصد آبادی نے ان کی تائید میں ہاتھ کھڑے کردیئے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اقوام متحدہ کی رکنیت مل جانے کے باوجود فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ختم نہیں ہوگا مگر اس سے فلسطینیوں کی اخلاقی فتح اور ان کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔ اس وقت فلسطینیوں کو امریکہ کی طرف سے جوسالانہ ’’امداد‘‘ مل رہی ہے وہ 500ملین ڈالر ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ اگر فلسطین اتھارٹی نے اقوام متحدہ میں آزاد فلسطین کی قرارداد پیش کی تو وہ اس قرارداد کو ویٹو کردے گا اور فلسطین کی امداد بند کردےگا۔
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ تاریخ فاتح کی فتوحات لکھتی ہے اس کے دسترخوان پر پڑے انڈے، مکھن ، توس ، جام جیلی یا پراٹھے نہیں گنتی…
چلو یہ مانا کہ ادنیٰ سا اک چراغ ہوں میں
مگر ہوائوں کو الجھن میں ڈال رکھا ہے!