ملکی مفاد مقدم!

July 27, 2018

الیکشن 2018ء کے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج پاکستان تحریک انصاف کی وفاق ،خیبرپختونخوا اور کسی حد تک پنجاب میں بھی برتری ظاہر کررہے ہیں۔ ابتدائی نتائج کے مطابق سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی برتری نمایاں ہے جبکہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) دوسرے اور پی پی پی تیسرے نمبر پر محسوس ہوتی ہے۔ ملکی سیاست کے کئی بڑے برج ان انتخابات میں الٹ گئے ہیں جو بہت سے جمہوری ممالک کے انتخابی تجربات سے مختلف بات نہیں۔ دنیا بھر میں ایسی مثالیں موجود ہیں اور وطن عزیز میں بھی ماضی میں کئی بڑے رہنمائوں کو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ الیکشن 2018ء کے حوالے سے ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان 22سال کی جدوجہد کے بعد اپنے خواب کی تعبیر کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ خاص طور پر پچھلے پانچ برسوں کے دوران انہوں نے رائے عامہ کو اپنے حق میں منظم کرنے کے لئے غیر معمولی محنت کی۔ نتائج اس بات کی نشاندہی کرتے بھی محسوس ہورہے ہیں کہ عوام ایک نئی پارٹی کو آزمانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف مختلف سیاسی پارٹیوں نے انتخابات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ایک دوسرے سےرابطے شروع کر دیئے ہیں۔ دوسری جانب سربراہ پی ٹی آئی عمران خان کی ہدایت پر پارٹی رہنمائوں نے کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں سے رابطے شروع کر دیئے ہیں اور خود عمران خان نے اپنی پارٹی کے رہنمائوں کو اسلام آباد طلب کرلیا ہے۔ تیسری جانب مسلم لیگ (ن)، متحدہ مجلس عمل، ایم کیو ایم پاکستان، پاک سرزمین پارٹی اور تحریک لبیک سمیت دیگر جماعتوں نے انتخابی نتائج مسترد کر دیئے جبکہ مولانا فضل الرحمٰن نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ ن لیگ کے صدر شہباز شریف نے لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خوفناک دھاندلی نے ملک کو تیس سال پیچھے دھکیل دیا اور کروڑوں لوگوں کے مینڈیٹ کی توہین کی گئی جس کے منفی نتائج سامنے آئینگے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ اب آدھی رات سے زیادہ گزر گئی ہے اور مجھے کسی بھی ایسے حلقے سے ایک بھی حتمی نتیجہ نہیں موصول ہوا جہاں سے میں خود الیکشن لڑ رہا ہوں، میرے امیدوار شکایت کررہے ہیں کہ ملک کے کئی حصوں میں ہمارے پولنگ ایجنٹس کو پولنگ اسٹیشنوں سے نکال دیا گیا ہے، یہ بات ناقابل معافی اور اشتعال انگیز ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب اور دوسری جماعتوں کے رہنمائوں نے الیکشن نتائج پر جن تحفظات کا اظہار کیا ان میں یہ نکتہ نمایاں ہے کہ ان پارٹیوں کے پولنگ ایجنٹوں کو ووٹوں کی گنتی کے دوران باہر نکال دیا گیا، بند کمروں میں دھاندلی کی گئی اور فارم 45، 46 نہیں دیئے گئے۔ یہ ایسی شکایات ہیں جن سے انتخابات کی شفافیت پر سوالات ابھرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ہارنے والی پارٹیوں کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے اپنا نقطہ نظر واضح کر دیا ہے۔ الیکشن2018ء کے انعقاد سے قبل مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ان انتخابات کے متنازع ہونے کا تاثر دیا جاتا اور کئی سنجیدہ سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ اب متعدد سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کی طرف سے جو شکایات سامنے آرہی ہیں وہ متقاضی ہیں اس بات کی کہ الیکشن کمیشن ان سب کو مطمئن کرے تاکہ عام لوگ الیکشن 2018ء کی شفافیت کے حوالے سے کسی مایوس کن تاثر کے شکار نہ ہوں۔ یہ بات سیاسی پارٹیوں اور اداروں سمیت تمام حلقوں کو ملحوظ رکھنا ہوگی کہ الیکشن کی ساکھ پر ملکی وقار اور استحکام سمیت بہت سی چیزوں کا انحصار ہے جبکہ ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنج اس بات کے متقاضی ہیں کہ تمام حلقے اپنے اپنے ایجنڈوں پر قائم رہتے ہوئے ملکی مفاد کے نکتے پر ایک ہو جائیں اور وفاقی و صوبائی سطح پر جو حکومتیں بنیں وہ تمام اہم معاملات میں اپوزیشن کو اعتماد میں لیکر مشاورت کی مضبوط روایت قائم کریں۔ احترام اور شائستگی کے ساتھ ایک دوسرے سے مشاورت و تعاون میں ہی ملک کا بھلا ہے۔