عمران خان کی جیت: اقوامِ عالم کے خدشات و توقعات

August 05, 2018

25جولائی 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کی روشنی میں عمران خان کی جماعت، پاکستان تحریکِ انصاف مرکز سمیت پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں حکومت بنانے کا فیصلہ کر چُکی ہے اور الیکشن کے اگلے روز چیئرمین ، پی ٹی آئی کی وکٹری اسپیچ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہی پاکستان کے اگلے وزیرِ اعظم ہوں گے۔ تاہم، اسی کے ساتھ ہی پاکستان مسلم لیگ (نون)، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ مجلسِ عمل اور متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج کو ’’دھاندلی زدہ‘‘ قرار دیتے ہوئے احتجاج کا اعلان کیاہے ۔ اپنی جغرافیائی اہمیت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار کے باعث اگلے 5برس کے لیے مُلک کا حُکم راں منتخب کرنے کی غرض سے پاکستان میں منعقد ہونے والے عام انتخابات پر دُنیا بَھر کے ذرایع ابلاغ کی گہری نظر رہی۔

سو، انتخابات کے حتمی و سرکاری نتائج سامنے آنے سے پہلے ہی پاکستانی میڈیا کی طرح انٹرنیشنل میڈیا نے بھی پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین، عمران خان کے وزیرِ اعظم بننے کی توقّع ظاہر کر دی تھی، جب کہ اس کے ساتھ ہی انتخابی عمل میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا بھی ذکر کیا۔ معروف امریکی اخبار، واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ’’ دہشت گردی کے واقعات اور شریف خاندان کے خلاف کرپشن کے مقدّمات کے باوجود پاکستان میں عام انتخابات منعقد ہوئے اور عمران خان، پاکستان کے نئے وزیرِاعظم ہوں گے‘‘۔ ایک اور امریکی اخبار، ہفنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ ’’سابق وزیرِ اعظم پاکستان، میاں نواز شریف کے جیل میں ہونے کی وجہ سے عمران خان کے وزارتِ عظمیٰ کے امکانات میں اضافہ ہو گیا ہے‘‘۔ اسی طرح برطانوی اخبار، دی انڈیپنڈنٹ نے بھی عمران خان کے اگلے وزیرِ اعظم ہونے کی توقّع ظاہر کی۔ متحدہ عرب امارات کے معروف اخبار، گلف نیوز نے عام انتخابات میں عمران خان، شہباز شریف اور بلاول بُھٹّو کے درمیان سخت مقابلے کا امکان ظاہر کیاتھا، جب کہ بھارتی ذرایع ابلاغ نے اپنے سرویز میں عوامی مقبولیت کے اعتبار سے عمران خان کے نواز شریف سے برتر ہونے کا دعویٰ کیا۔ دوسری جانب برطانوی اخبار، دی گارجیئن نے پاکستان کے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ خواجہ سرائوں کی شرکت پر ایک خصوصی رپورٹ شایع کی، جب کہ قطری جریدے، الجزیرہ نے انتخابات سے متعلق مکمل معلومات کواپنی خبروں کا حصّہ بنایا۔

امریکی اخبار، نیویارک ٹائمز کے نمایندے، جیفری گیٹل مین کے مطابق، گرچہ نتائج کی روشنی میں سابق کرکٹر، عمران خان کی جماعت، پاکستان تحریکِ انصاف کو برتری حاصل ہے، لیکن درجنوں امیدواروں کی جانب سے دھاندلی کی شکایات سامنے آنے پر الیکشن کے نتائج متنازع ہو گئے ہیں۔عمران خان پاکستان کے سب سے متحرّک سیاست دان ہیں اور متعدد افراد کا ماننا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اُن کے حریفوں کو ڈرا دھمکا کر، اُن کی راہ میں رُکاوٹیں کھڑی کر کے اور انہیں بلیک میل کر کے چیئرمین، پاکستان تحریکِ انصاف کو اُن کی انتخابی مُہم میں مدد فراہم کی، جب کہ اس سے قبل وہ خطّے میں امریکی کردار کی مذمّت بھی کر چُکے ہیں۔

جیفری گیٹل مین کا ماننا ہے کہ دیگر اہم سیاسی جماعتوں کے متعدد مرکزی رہنمائوں نے بیلٹ پیپرز کی خفیہ شمار گزاری اور دیگر بے قاعدگیوں کے الزامات عاید کرتے ہوئے نتائج کو مسترد کر دیا۔ با ایں ہمہ متعدد مبصّرین نے الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن کے اگلے روز تک کم از کم حلقوں کے حتمی نتائج پیش نہ کرنے کو بھی غیر معمولی قرار دیا۔

اس موقعے پر معروف برطانوی نشریاتی ادارے،بی بی سی نے اپنی ویب سائٹ پرعمران خان کی جیت کو کئی گھنٹوں تک شہ سُرخی کے طور پر شایع کیا اور لکھا کہ ’’سابق کرکٹر کو واضح برتری حاصل ہے‘‘۔نیز، اسی خبر میں عمران خان کی جانب سے پاکستان کو کرکٹ ورلڈ کپ جتوانے سمیت ان کی دیگر اہم کام یابیوں کا بھی ذکر کیا گیا۔ امریکی نشریاتی ادارے، سی این این نے اپنی رپورٹ میں عمران خان کو ’’گریٹ‘‘ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ’’سابق کرکٹر نے پاکستانی انتخابات میں واضح برتری حاصل کرلی۔ ‘‘ اسی رپورٹ میں لکھا گیا کہ گرچہ نتائج پر دیگر سیاسی جماعتوں نے خدشات ظاہر کرتے ہوئے دھاندلی کے الزامات عاید کیے ہیں، تاہم عمران خان مُلک کے اگلے وزیرِ اعظم کے طور پر سامنے آ چُکے ہیں۔ معروف امریکی اخبار، واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ ’’سابق کرکٹر نے انتخابات میں برتری حاصل کرلی، جس سے ان کے وزیرِاعظم بننے کا راستہ آسان ہوگیا‘‘۔ ایک اور امریکی اخبار،نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ‘‘ سابق کرکٹر ،عمران خان نے پاکستان کے اگلے وزیرِاعظم بننے کے لیے اکثریت حاصل کرلی‘‘۔معروف بھارتی اخبار،ہندوستان ٹائمز نے لکھا کہ ’’کرکٹ سے سیاست میں اینٹری دینے والے عمران خان پہلی بار ایٹمی طاقت کے حامل مُلک کے وزیرِاعظم بنیں گے‘‘۔دی ہندو کی ویب سائٹ نے عمران خان کی جیت کی خبر کو کئی گھنٹوں تک اپنی شہ سُرخی بنائے رکھا۔

مذکورہ اخبار نے عمران خان کو کرکٹ سےسیاست میں اینٹری دینے والے’’ ہیرو‘‘ کے طور پر پیش کیا، جب کہ اسی رپورٹ میں پاکستان مسلم لیگ (نون) سمیت دیگر جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات کا بھی ذکر کیا گیا۔اسرائیلی نشریاتی ادارے، ٹائمز آف اسرائیل نے لکھا کہ’’ عمران خان نے ’’نئے پاکستان ‘‘ کا نعرہ لگا کر انتخابی مُہم چلائی، جس کے تحت مُلک کو کرپشن سے پاک کرنے سمیت یہاں ترقّیاتی و فلاحی کاموں کا جال بچھایا جائے گا۔ ایرانی نشریاتی ادارے، پریس ٹی وی نے بھی عمران خان کی جیت کی خبر کو نمایاں خبر کے طور پر شایع کیا ۔’’عرب نیوز‘‘ نے اپنی خبر میں بتایا کہ عمران خان کی جیت پر مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات کو پاکستان کے الیکشن کمیشن نے مسترد کر دیا، جب کہ الجزیرہ کی طرح تُرک نشریاتی ادارے، ٹی آر ٹی نے بھی انتخابات کےنتائج براہِ راست دِکھائے۔

عام انتخابات سے ایک روز قبل ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں شایع ہونے والے ایک مضمون میں عمران خان سے متعلق یہ سوال اُٹھایا گیا کہ ’’ کیا ایک لیجنڈری کرکٹر اور بین الاقوامی سیکس سِمبل ،جوہری ہتھیاروں کے حامل ایک اسلامی مُلک، پاکستان کے وزیرِ اعظم بننے والے ہیں؟ اس مضمون کے مطابق، عمران خان نے دُنیا بَھر کے کرکٹ کے میدانوں اور لندن کے نائٹ کلبز میں نام کمایا، لیکن گزشتہ دو عشروں سے، جب سے انہوں نے پاکستان کا اہم ترین عُہدہ حاصل کرنے کی کوششیں شروع کی ہیں، اُن میں کئی پیچیدہ تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ گرچہ اُن کی جماعت کا انتخابی نشان بَلاّ ہے، لیکن اپنے ماضی سے فاصلہ اختیار کرنے کے لیے وہ نہ صرف ایک نیک و پارسا مسلمان بن چُکے ہیں، بلکہ امریکا کے مخالف بھی ہیں اور جب بدھ کے روز پاکستان بَھر میں انتخابات ہوں گے، تو وہی حکومت سازی کے لیے ایک سیاسی رہنما کے طور پر سامنے آئیں گے۔ امریکی اخبار نے یہ بھی لکھا کہ عمران خان مُلک بَھر میں اپنی حقیقی شُہرت اور اسٹیبلشمنٹ سے گرم جوشی پر مبنی تعلقات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی نام وَری، کرشماتی شخصیت اور پیسے کو کرپشن کے خلاف مُہم کی خاطر استعمال کیا، جوکئی اقسام کی تقسیم کے خلاف برسرِ پیکار ۔

پاکستان جیسے ایک غریب مُلک کو متّحد کرنے والے مسائل میں سے ایک ہے۔نیویارک ٹائمز نے اپنے مضمون میں دعویٰ کیا کہ پاکستانی عوام ایسے سیاسی خانوادوں کے شاہد ہیں کہ جنہوں نے خود کو تو مالا مال کیا،لیکن مُلکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑاکیا۔ پاکستان کے سرکاری اسپتالوں کی صورتِ حال خوف ناک حد تک خراب ہے، مُلک میں شِیر خواروں کی شرحِ اموات ایشیا میں سب سے زیادہ ہے اور ہر سال لاتعداد پاکستانی باشندے روزگار کی تلاش میں مُلک کو خیر باد کہہ کر بیرونِ مُلک ڈرائیور، چوکی دار اور مستری سمیت دیگر بے وقار ملازمتیں کر رہے ہیں کہ اُن کے آبائی مُلک میں معقول ملازمتوں کی تعداد ناکافی ہے اور اس صورتِ حال میں عمران خان نے خود کو ایک تریاق کے طور پر پیش کیاہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق، گرچہ عمران خان ’’مسٹر کلین‘‘ کا تاثر رکھتے ہیں، جو ان کی فتح کا ایک سبب ہے، لیکن پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ساز باز کے شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔

اس بارے میں پاکستان میں موجود انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کا ماننا ہے کہ عمران خان کے سیاسی حریف خود کو مقتدر اداروں کی جانب سے ہدف بنانے کے الزامات عاید کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت، مسلم لیگ (نون) کے سربراہ اور تین مرتبہ مُلک کے وزیرِ اعظم بننے والے، میاں نواز شریف کو انتخابات سے چند روز قبل جیل میں ڈال دیا گیا اور اس سے ایک برس قبل سپریم کورٹ نے انہیں وزارتِ عُظمیٰ کے عُہدے سے برطرف کر دیا تھا۔ امریکی اخبار نے یہ بھی لکھا کہ پاکستان توجّہ کا محور رہنے والا دُنیا کا چھٹا گنجان ترین، جوہری طور پر مسلّح اور اپنے پڑوسی مُلک، بھارت کے ساتھ طویل دُشمنی رکھنے والا مُلک ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ پُر امن تعلقات قائم کریں گے ۔ گرچہ انہوں نے طالبان کی بعض پُر تشدّد کارروائیوں کی مذمّت کی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ طالبان اور ان کے مقاصد کا برملا دفاع بھی کرتے رہے ہیں۔

علاوہ ازیں، چیئرمین، پاکستان تحریکِ انصاف نے پاکستان میں ڈرون حملوں کی شکایات کرتے ہوئے امریکا کے خلاف سخت مؤقف اپنایا اور وہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو ’’پاگل پن‘‘ بھی قرار دے چُکے ہیں ۔ نیز، جنوبی ایشیا میں ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے ڈپٹی ڈائریکٹر، عُمر وڑائچ، عمران خان کی خارجہ پالیسی کو امریکا مخالفت پر مبنی قرار دیتے ہیں۔ عمران خان کی انتظامی صلاحیتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے نیو یارک ٹائمزکا ماننا ہے کہ گرچہ انتظامی اُمور کے اعتبار سے عمران خان کی ذاتی صلاحیتیں ابھی سامنے نہیں آئیں۔ اُن کی جماعت 2013ء سے 2018ء تک ایک وسیع، لیکن کم گنجان صوبے میں حُکم راں رہی۔ حالاں کہ اس کا حُکم رانی کا ریکارڈ مِلا جُلا ہے، لیکن اسے سرکاری شعبوں کی کارکردگی بہتر کرنے کا سہرا دیا گیا۔

اسی مضمون میں عمران خان کی شخصیت پر کچھ اس طرح روشنی ڈالی گئی ہے کہ انہوں نے ایک پُر مسرّت زندگی گزاری۔ وہ ایک متموّل گھرانے میں پیدا ہوئے، اوکسفرڈ میں تعلیم حاصل کی، کئی حسین اور مشہور خواتین کے محبوب رہے، نیز انہیں کرکٹ کی تاریخ کے بہترین سُپر اسٹار ایتھلیٹس میں سے ایک قرار دیا گیا۔ وہ 1992ء میں اُس وقت ہیرو کے درجے پر پہنچے کہ جب اُن کی قیادت میں پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ کے فائنل میں انگلینڈ پر فتح حاصل کی۔ اس فتح کے چند برس بعد اُن میں تبدیلی واقع ہوئی۔ انہوں نے عطیات جمع کر کے غریب افراد کے لیے کینسر کا اسپتال تعمیر کیا اور اسلام میں دِل چسپی لینے لگے۔ اس دوران وہ گلیمر کی چکا چوند دُنیا سے یہ کہتے ہوئے دُور ہو گئے کہ اس طرز کی زندگی کبھی بھی بہت زیادہ طمانیت بخش نہیں رہی۔

اس ضمن میں ایک برطانوی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’’ یہ بہ ظاہر بہت زیادہ دِل فریب دِکھائی دیتی ہے، لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ یہ غیر یقینی اور کھوکھلے تعلقات ہوتے ہیں‘‘۔نیویارک ٹائمز کے مطابق، 1996ء میں عمران خان نے’’ پاکستان تحریکِ انصاف‘‘ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ اُن کی جماعت برسوں تک گُم نامی کی وادیوں میں بھٹکتی رہی اور پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں بہ مشکل ہی کوئی نشست حاصل کر سکی۔ تب سُپر اسٹار، عمران خان ایک لطیفہ بن گئے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مقامی اخبار نے ’’ I am the Dim‘‘ اور دوسرے نے ’’Imran Khan't‘‘ قرار دے کر اُن کا مذاق اُڑایا۔

تاہم، اس عرصے میں عمران خان نے پُرجوش چاہنے والوں کو اپنی جانب متوجّہ کیا اور اُن کے حمایتی اکثر یہ نعرہ لگاتے تھے کہ ’’کون بچائے گا پاکستان، عمران خان، عمران خان‘‘۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق، اس وقت بیش تر پاکستانی اُن کے ابتر ماضی پر انہیں معاف کر چُکے ہیں۔ اس ضمن میں امریکی اخبار نے مشرقِ وسطیٰ میں کرین آپریٹر کے طور پر خدمات انجام دینے والے تنویر حیدر کی گفتگو کا حوالہ دیا، جو اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے اپنے گھر آئے ہوئے تھے۔ تنویر حیدر کا کہنا تھا کہ ’’ انہوں نے (عمران خان) ماضی میں جو طرزِ عمل اختیار کیا، وہ اُن کا ذاتی فعل تھا۔ مُجھے صرف اس سے سروکار ہے کہ وہ اپنے مُلک کے لیے کیا کریں گے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ دیگر سیاست دانوں کے مقابلے میں وہ مُلک کے لیے زیادہ اچّھا کام کریں گے‘‘۔ نیویارک ٹائمز نے مقامی تجزیہ کاروں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ پاکستان تبدیلی کے لیے بے تاب ہے اور اس کی نمایندگی عمران خان کر رہے ہیں۔ پاکستان کی شہری آبادی کا ایک بڑا طبقہ دو سیاسی جماعتوں سے بے زارہو چُکا ہے اور ان سے ہٹ کر کسی تیسری پارٹی کو موقع دینا چاہتا ہے۔ امریکی اخبار کا عمران خان کی سابقہ بیویوں اور موجودہ اہلیہ سے متعلق کہنا تھاکہ پاکستان کے متوقّع وزیرِ اعظم کی پہلی اہلیہ، جمائما گولڈ اسمتھ برطانیہ سے تعلق رکھنے والی یہودی خاتون تھیں۔

ان سے رشتۂ ازدواج سے منسلک ہونے کے فوراً بعد ہی بعض پاکستانیوں نے عمران خان پر صیہونیوں کے زیرِ اثر ہونے کا الزام عاید کیا، جسے انہوں نے ہنسی میں اُڑا دیا۔ اُن کی دوسری بیوی، ریحام خان نے حال ہی میں ایک سوانح شایع کی ہے، جس میں عمران خان پر نہایت بھیانک الزامات لگائے گئے ہیں، لیکن انہوں نے اسے بھی پسِ پُشت ڈال دیا۔ چیئرمین، پاکستان تحریکِ انصاف کی تیسری اہلیہ، بُشریٰ بی بی ایک ’’روحانی طبیب‘‘ کے طور پر مشہور ہیں اور متعدد پاکستانی ،شادی کے بعد عمران خان اور اُن کی شریکِ حیات کی جانب سے ادا کی جانے والی رسومات پر نکتہ چینی کر رہے ہیں۔

بھارتی اخبار، فرسٹ پوسٹ کے مطابق، عمران خان نے پاکستان کو تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن پاکستان نے انہیں تبدیل کر دیا۔ چند برس قبل تک چیئرمین، پاکستان تحریکِ انصاف، مذہبی انتہا پسندی کے خلاف تھے اور انہوں نے گورنر پنجاب، سلمان تاثیرکے قتل کی شدید مذمّت کی تھی، لیکن اپنی حالیہ انتخابی مُہم کے دوران انہوں نے ممتاز قادری سے ہم دردی رکھنے والے عناصر کی حمایت کا تاثر دے کر پاکستان کی قادیانی کمیونٹی میں اضطراب کی لہر پھیلا دی ۔ فرسٹ پوسٹ کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس اقلیتی کمیونٹی نے نہ صرف خود کو انتخابی عمل سے باہر رکھا، بلکہ یہ خود کو غیر محفوظ اور مظلوم تصوّر کر تی ہے۔ بھارتی اخبار نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے ’’شریف‘‘ اور’’ بُھٹّو‘‘ خانوادے کی نسبت عمران خان کو کم تکلیف دہ سیاست دان سمجھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ اُن کے وزیرِ اعظم بننے کا راستہ آسان بنا رہی ہے۔ تاہم، اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے، تو سابق کرکٹر کے حریفوں کی کرپشن نے بھی انہیں عوامی حمایت حاصل کرنے میں مدد فراہم کی۔

معروف برطانوی اخبار، فنانشل ٹائمز نے جامعہ کراچی میں بین الاقوامی تعلقات کی پروفیسر، ڈاکٹر ہما بقائی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھاکہ ’’ وہ (عمران خان) مایوسی میں امید کی کرن ہیں۔ اُن کا ماضی کا کوئی سیاسی تجربہ نہیں۔ گرچہ انہوں نے کئی فاش غلطیاں کیں، لیکن ہم دو مرکزی سیاسی جماعتوں کو آزما چُکے ہیں، جنہوں نے عوام کو مایوس کیا۔‘‘ بھارتی اخبار، فرسٹ پوسٹ نے ماضی کے انتخابات کی طرح حالیہ الیکشن میں بھی پاکستانی عوام کے انتخاب کو اُن کی ’’سیاہ بختی‘‘ قرار دیا اور اس ضمن میں بعض دلائل بھی پیش کیے ۔ مثلاً، عمران خان ایک طویل عرصے سے سیاست میں ہیں، لیکن اُن کا انتظامی تجربہ خاصا کم ہے۔ وہ صرف کرپشن کے خلاف یک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ ہی آگے بڑھ رہے ہیں۔ فرسٹ پوسٹ کا دعویٰ ہے کہ 2013ء میں صوبہ خیبر پختون خوا کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف اپنے وعدوں کو حقیقت میں بدلنے میں ناکام رہی۔ علاوہ ازیں، بھارتی اخبار نے عمران خان کے پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے دعوے کو بھی تباہی کا نسخہ قرار دیا۔

اس سلسلے میں بھارتی معاصر نے یہ دلیل پیش کی کہ اس وقت پاکستان کو ادائیگیوں کے عدم توازن، کرنسی کی قدر میں گراوٹ، تیل کی بڑھتی قیمتوں، معاشی عدم استحکام، بجلی و پانی کی قلّت، دُنیا میں سب سے زیادہ شِیر خواروں کی شرحِ اموات، غیر معیاری طرزِ زندگی اور خوراک کی کمی جیسے خطرناک بُحرانوں کا سامنا ہے، جن کا خاتمہ عمران خان کے لیے تقریباً ناممکن ہو گا۔ بھارتی اخبار نے مزید لکھا کہ عمران خان برطانوی اخبار، سن ڈے ٹائمز کو دیے گئےانٹرویو کے دوران پاکستان میں چائنا ماڈل کے اطلاق کی وضاحت سے بھی مطمئن نہیں کر سکے تھے۔ دوسری جانب بھارتی ذرایع ابلاغ نے پاکستان کے عام انتخابات میں حافظ محمد سعید کی حمایت یافتہ سیاسی جماعت، تحریکِ اللہ اکبر کی شکست کو بھی خُوب اُچھالا۔