سچ آکھاں.....

August 03, 2018

میرا دعویٰ ہے کہ میں سچا ہوں جب کہ مجھ سےاختلاف کرنے والے کا خیال ہے کہ وہ سچا ہے۔ کیسے جانیں کہ سچا کون ہے؟ نوازشریف کوبرا بھلا کہنے والے بھی سمجھتے ہیں کہ وہ سچے ہیں کہ ایک طاقتور شخص کو للکارتے ہیں، دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کےخلاف بولنے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ اصل بہادری تو طاقتور ترین کے خلاف بات کرنا ہے، نوازشریف حکومت نہ کسی کا بھلا کرسکتی تھی اورنہ نقصان پہنچا سکتی تھی، نہ کسی کو سزا دے سکتی تھی اورنہ ہی کسی کے لئے جزا کا بندوبست کرسکتی تھی، وہ توخود بے بس اور شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے۔ ہم میں سے ہر کوئی سچ کا علم اٹھائے پھرتا ہے ، سقراط کو سزا دینے والی جیوری کا خیال تھا کہ اس نے ایک لادین کو سزا دی جبکہ زہر کا پیالہ پینے والے سقراط کا خیال تھا کہ وہ انصاف کے سامنے سر جھکا کر تاریخ بنا رہا ہے۔ گیلیلیو کو مارنے والے سوچ رہے تھے وہ نئی سوچ کا راستہ روک کر مذہب میں تحریف کرنے والوں کو سزا دے رہے ہیں جبکہ گیلیلیو دنیا میں سائنس کے نام پر جان دے رہا تھا کسے صحیح کہیں، سچا کون ہے؟ دارالشکوہ صوفی اور پرامن تھا تو دوسری طرف اسے قتل کرنے والا عالم گیر ٹوپیاں سی کر گزارا کرتا تھا اور تو اور ضیاء الحق کے دور میں ایسے بھی تھے کہ جواس کیلئے مرد مومن اور مرد حق کے نعرے لگایا کرتے تھے اور دوسری طرف پھانسی پر لٹکائے جانے والے کے لئے جئے بھٹو، جئے بھٹو کہتے مار کھاتے تھے تاریخ نے کسے سچا جانا؟ آیئے پہلے سچ کا معیار مقرر کریں اور دیکھیں تاریخ میں کسے سچ کہا جاتا ہے۔ قصور نگری کے بابا بلھے شاہ نے کہا تھا ’’سچ آکھاں تے بھانبڑ بلدا اے ‘‘ یعنی سچ وہ ہے جس سے آگ لگ جائے۔ اس بات کو زیادہ بہتر طور پر جاننے کے لئے حدیث پاک دیکھئے۔ جس میں ارشاد ہوتا ہے ’’جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے‘‘ اس حدیث پاک کی روشنی میں یہ معاملہ واضح ہو جاتا ہے کہ اگر کوئی ظالم، جابر حکمران ہو تو اس کے سامنے، اس کے دور میں بات کرنا اصل جہاد ہے بس اسی اصول کی روشنی میں طے کرلیں کہ سچا کون ہے؟ جس زمانے میں یا جس عہد میں جو سب سے جابر سب سے طاقتور، سب سے ظالم ہوگا اسی کے خلاف کھڑا ہونا اصل سچ ہے اور وہی سچا ہے جو ظلم کی ان طاقتوں کے خلاف بولتا، لکھتا یا بات کرتا ہے۔ سقراط سچا تھا کہ معاشرے کی طاقت کے خلاف کھڑا ہوا، سچ بولتا رہا اور زہر کا پیالہ پی کر بھی خوش ہوا۔ گیلیلیو سچا تھا کہ زمین سورج کے گرد ہی گھومتی ہے اس زمانے کے متشدد، متعصب، تنگ نظر کہتے تھے سورج زمین کے گرد گھومتا ہے کون سچا نکلا، مارنے والے یا مرنے والا گیلیلیو؟ دارالشکوہ اور اورنگ زیب عالمگیر کے آج بھی اپنے اپنے حامی ہیں عوام کی اکثریت تب بھی دارالشکوہ کی حمایت میں بغاوت پر اتر آئی تھی۔ اورنگ زیب عالمگیر پر اتنے قاتلانہ حملے ہوئے جتنے کسی بھی مغل بادشاہ کے خلاف نہیں ہوئے تھے۔ ہم میں سے آج کون ہے جو ضیاء الحق یا جنرل مشرف کے ریفرنڈم کو درست اور منصفانہ مانتا ہو مگر یاد کیجئے کہ آج کے کئی ’’سچوں‘‘ نے اس وقت ریفرنڈم کو بھی منصفانہ قراردیا تھا۔ کیا ان میں سے کوئی اپنی ماضی کی غلطی پر شرمندہ ہے، معافی کا خواستگار ہے؟ شاید اکثریت ایسا نہیں کرے گی البتہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مشرف کے ریفرنڈم کے حوالے سے عمران خان نے قوم سے معافی مانگ لی تھی۔ اس اقدام سے ثابت ہوا کہ اگر نیت میں فتور نہ ہو اور نتیجہ نیت کے مطابق نہ آئے تو پھر سچے آدمی کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے بیانیے پر نظر ثانی کرے۔
اصل سچ کونسا؟ کی جنگ آج بھی جاری و ساری ہے وہ ’’سچ‘‘ بولنے والے آج کدھر ہیں جنہوں نے خدانخواستہ کلثوم نواز کو مردہ ڈیکلیئر کیا ہوا تھا او ر کہتے تھے کہ یہ سیاسی سٹنٹ ہے مگر ڈاکٹر صاحب تو ’’سچ‘‘ کے اس قدر رسیا نکلے کہ خود اسپتال چیک کرنے جا پہنچے پھر کہا گیا کہ دراصل کلثوم نواز کی میت لا کر شریف خاندان ہمدردی کے ووٹ لینا چاہتا ہے اب جبکہ یہ مصدقہ خبرآچکی ہے کہ کلثوم صاحبہ کی طبیعت بہتر ہورہی ہے اور وہ آنکھیں کھول رہی ہیں توکیا ان ’’سچوں‘‘ میں اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں کہ وہ اپنے جھوٹ سے سرعام توبہ کریں تاکہ لوگ ان کے مزید ’’جھوٹ‘‘ پر اعتبار تو کریں۔
دوسری طرف نونی خان بھی خواب سے آنکھیں کھولیں اور تسلیم کرلیں کہ مقتدر طاقتوں کے علاوہ بھی عمران خان ایک سیاسی طاقت بن چکا ہے۔ بائیکاٹ کرنے، حقائق کو جھٹلانے اور آج کے نتائج کو تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں، اقتدار کے خواب سے باہر آئیں اور اپوزیشن کو موثر جاندار اور بہتربنانے کی طرف توجہ دیں۔ اپنے آپ کو تحریک انصاف سے بہتر ثابت کرنے کے لئے تعمیری سیاست کا ڈول ڈالیں اور یہ مت بھولیں کہ ن لیگ نے جو سلوک محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف مہم میں کیا تھا ۔ قدرت نے وہی سلوک تحریک انصاف کے ذریعے ان کے خلاف کروایا ہے۔ بے نظیر بھٹوکو بھی غیر ملکی اثاثوں پر سیف الرحمٰن کے فون پر سزائیں سنوائی گئی تھیں اسی ادلے کا بدلہ میاں نوازشریف کے ساتھ ہوا ہے۔ اب وقت ہے کہ ہر کوئی نئے عہد کی بنیاد رکھے ،انتقام اور لڑائی کا راستہ چھوڑ کر احسان اور تعاون کا راستہ اپنایا جائے۔
سچ بولنے کے لئے ضروری ہے کہ تعصب کی عینک اتاری جائے۔ اگر تعصب کی عینک پہنیں گے صرف اپنے نظریے، اپنی پارٹی، اپنے لیڈر اور اپنی سوچ کو ہی درست قرار دینگے تو آپ کے خیالات غیر متوازن اورمتعصب ہو جائیں گے، پھر آپ کو آپ کے نظریے، پارٹی، لیڈر یا سوچ سے اختلاف کرنے والا غدار یا کافر لگے گا۔ دنیا بھر میں صدیوں سے یہ دستور ہے کہ مخالف کی رائے اور سوچ کو احترام دیا جائے۔ چاہے آپ کو مخالف سے جتنا بھی اختلاف ہو اس کے بولنے کے حق کے لئے آپ بھی لڑنے کو تیار ہوں تب جا کر جمہوری معاشرہ بنتا ہے اور اگر تعصب کی عینک نہ اتاری جائے تو معاشرہ روز بروز متشددہوتا جاتا ہے۔ فرقہ واریت، لسانیت یا تعصب، حسد اورنفرت فروغ پاتے ہیں ور یوں معاشروں کے اندر انارکی پیدا ہو جاتی ہے۔سچے معاشرےاور ان کے اندر سچ بولنے والے غیر متعصب لوگ ہی قوم کو صحیح راہ دکھاتے ہیں۔ دنیا کے مہذب ممالک میں سچ ہی کی بنیاد پر سماج کو ٹھیک کرنے کی بنیاد رکھی گئی، اپنی غلطیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرتے ہوئے آئندہ سے انہیں ٹھیک کرنے ہی سے نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔ جھوٹ کی بنیاد پر قائم کئے گئے معاشرے تضادات کا شکار رہتے ہیں، عمران خان میں سچ بولنے اور اپنی غلطیوں کے اعتراف کی جرات موجود ہے۔ انہیں چاہئے کہ گھسے پٹے احتساب، پرانےقوانین اور ماضی کے غصے اور انتقام کو پس پشت ڈالتے ہوئے تاریخ کا نیا ورق الٹیں اور ایسے خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھیں جہاں جھوٹ سے نفرت کی جائے اور جہاں صرف اور صرف سچ کی حکمرانی ہو۔ جہاں سچ کہنے پر کسی کو آگ نہ لگے۔ اے کاش!