اپوزیشن اتحاد

August 04, 2018

ملکی سیاست میں ایک اہم ترین پیش رفت یہ ہے کہ گرینڈ اپوزیشن الائنس میں شامل پارٹیوں نے جمہوری عمل سےہٹنے کے بجائے حکومت سازی کے عمل میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ کیلئے ن لیگ، اسپیکر کیلئے پیپلز پارٹی اور ڈپٹی اسپیکر کیلئے متحدہ مجلس عمل سے مشترکہ امیدوار لانے کا اعلان کیا ہے۔ کل جماعتی کانفرنس کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایوان کے اندر اور باہراحتجاج کیا جائے گا اور مضبوط و مربوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری انداز میں جہاں جگہ ملے گی، بنائیں گے۔ اے پی سی میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ وزیراعظم کی تقریب حلف برداری کے موقع پر اسلام آباد کے ریڈ زون کے قریب احتجاجی جلسہ کیا جائے گا۔ دوسری جانب تحریک انصاف نے اپوزیشن اتحاد کی جانب سے وزیراعظم، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر کے الیکشن لڑنے اور احتجاج کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ جمہوری عمل میں انتخابات کو سنگ بنیاد کا درجہ حاصل ہے اس لئے کہ عوام اپنی مرضی کے حاکم منتخب کرسکیں، جو ان کے نزدیک ملک کو بہتر اور احسن طریقے سے چلانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ دنیا بھر میں جہاں جمہوریت رائج ہے، انتخابات ہی عوام کے حق حکمرانی کے ضامن ہوا کرتے ہیں اور یہ عمل انتہائی مہذب طریقے سے انجام پاتا ہے۔ نہ تو دوران انتخاب کوئی بدمزگی ہوتی ہے اور نہ ہی انتخابات کے بعد شور شرابا کیا جاتا ہے۔ 2000ء میں امریکہ میں ہونے والے انتخاب کی تو مثال دی جاتی ہے کہ الگور نے جارج بش کے مقابل انتخابی عمل میں غیر شفافیت کے شواہد موجود ہونے کے باوجود اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے جمہوری عمل کو جاری رکھا۔ اسے وطن عزیز کی حرماں نصیبی ہی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں ہونے والے کم و بیش سبھی عام انتخابات دھاندلی کے الزامات کی زد میں رہے اور حکومتیں بننے سے قبل ہی انہیں گرانے پر کمر کس لی گئی۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ کسی بھی حوالے سے درخشاں قرار نہیں دی جاسکتی۔ ہر انتخاب پر ہارنے والوں نے دھاندلی کے الزامات عائد کئے اور یہ سلسلہ پاکستان کے پہلے عام انتخابات 1970ء سے لیکر حالیہ انتخابات تک جاری رہا۔ الیکشن 2018ء میں بھی یہی روایت دہرائی گئی تاہم اپوزیشن قیادت نے بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام شکایات کے باوجود اسمبلیوں کے بائیکاٹ اور حلف نہ اٹھانے کا فیصلہ واپس لے کر اپنی جمہوریت پسندی کا ثبوت دیا کہ ایسا نہ ہونے پر حالات خرابی بسیار کی طرف جاسکتے تھے۔ الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے والی تحریک انصاف کی طرف سے اپوزیشن جماعتوں کے فیصلوں کا خیرمقدم کرنا بھی ایک احسن عمل ہے کہ اختلافی معاملات طے کرنے کا سارا عمل پارلیمنٹ کے اندر ہوگا اور پارلیمنٹ کی بالادستی و مضبوطی کا باعث بنے گا۔ جمہوری عمل میں اپوزیشن کا کردار حکومت سے کم اہم نہیں ہوتا کہ یہ حکومت کو من مانی اور منہ زوری سے روکتی اور اس پر چیک رکھتی ہے۔ تاہم اپوزیشن کا کردار تعمیری ہونا چاہئے۔ حکومت کو بھی اس سلسلے میں کشادہ دلی کا ثبوت دیتے ہوئے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ خیال رہے کہ عقل کل کوئی نہیں ہوتا، پارلیمنٹ میں پہنچنے والے سب محب وطن پاکستانی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ سبھی مل کر پاکستان کو ان مسائل سے نکالنے میں ایک دوسرے کے ممدومعاون ثابت ہوں، جن میں یہ گھرا ہوا ہے۔ یہ محض حکومت کا ہی کام نہیں ہر ایک کا فریضہ ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔ امید کی جانی چاہئے کہ حکومت اپوزیشن کے تحفظات دور کر کے اسے اپنے ساتھ لے کر چلے گی اور اپوزیشن بھی جہاں کوئی غلطی محسوس کرے گی وہاں اس کی نشاندہی کر کے حکومت کی مدد کرے گی اور جہاں کوئی اچھا کام ہوگا اسے سراہے گی۔ ملک و قوم کی فلاح و بہبود کیلئے حکومت اور اپوزیشن میں ایسا تال میل ناگزیر ہی نہیں جمہوریت کا تقاضا بھی ہے ۔