’’نئے پاکستان‘‘ کا خواب پورا کرنے کا موقع

August 06, 2018

انتخابات کے نتائج کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے گزشتہ دنوں تاریخی تقریر کی جس نے مجھ سمیت ملک و بیرون ملک تمام پاکستانیوں کو متاثر کیا اور اس پر سوشل میڈیا میں بے شمار تعریفی پیغامات شیئر کئے گئے۔ ملک کی تعمیر نو اور ترقی کیلئے ہمیں تنقید کے ساتھ ساتھ اچھے اقدامات کو سراہنا بھی چاہئے اور یہی سوچ کر میں نے آج کا کالم لکھنے کا فیصلہ کیاہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ جمہوری عمل برقرار رکھتے ہوئے 25 جولائی کو ملک میں عام انتخابات ہوئے جس میں اوسطاً 55 فیصد سے زیادہ لوگوں نے حصہ لیا۔ چند افسوسناک واقعات کے علاوہ بالعموم انتخابات پرامن رہے اور تمام سیاسی جماعتوں کو بھرپور انتخابی مہم چلانے کا موقع ملا۔ یورپی یونین آبزرور مشن نے پاکستان میں انتخابات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر سیکورٹی اہلکاروں کی موجودگی کی وجہ سے پولنگ کے دوران نظم و ضبط قائم رہا لیکن پولنگ کے بعد الیکشن نتائج کے دوران کچھ بے ضابطگیاں بھی دیکھنے میں آئیں۔ الیکشن کمیشن نے رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (RTS)کو بغیر آزمائش استعمال کیا اور سسٹم کے بیٹھ جانے سے نتائج کے اعلان کرنے میں تاخیر ہوئی جبکہ فارم 45 پر انتخابی نتائج کی عدم فراہمی پر پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، متحدہ مجلس عمل، ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی سمیت کچھ سیاسی جماعتوں نے الیکشن کی شفافیت پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کے تسلسل کیلئے پارلیمنٹ میں بیٹھنے پر اتفاق کیا تاکہ وہ مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرسکیں جبکہ اکثریتی جماعت پی ٹی آئی حکومت بنانے کیلئے سرگرداں ہے۔
عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد الیکشن کے اگلے روز عمران خان نے نہایت سادگی سے اپنی تقریر میں کہا کہ ان کی 22 سالہ جدوجہد کامیاب ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں نیا پاکستان بنانے کا خواب پورا کرنے کا موقع دیا، ان کی حکومت میں احتساب ان سے شروع ہوگا اور اس کے بعد وزراکا احتساب کیا جائے گا، وہ کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنائیں گے، کسی کو اگر دھاندلی کی شکایت ہے تو وہ اس سے تعاون کریں گے جس کیلئے وہ پورے پاکستان میں حلقے کھلوانے کیلئے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں، وزیراعظم ہائوس کو تعلیمی مقاصد اور تمام گورنر ہائوسز کو عوامی مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے گا اور ملک کو سادگی، کفایت شعاری، کرپشن فری اور عوام کی ترقی کیلئے بہترین گورننس سے چلائیں گے۔ انہوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور سرمایہ کاروں کو ملک میں واپس لانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ چین اور ایران سے تعلقات مزید بہتر کرینگے، افغانستان سے ایسے تعلقات ہوں کہ ہماری سرحدیں کھلی ہوں، امریکہ سے متوازن تعلقات چاہتے ہیں‘ مشرق وسطیٰ میں جنگیں ختم کرنے میں ثالث کا کردار ادا کرنیکی کوشش کرینگے، پاک بھارت تجارت میں اضافے کے خواہاں ہیں، مسئلہ کشمیر مذاکرات سے حل ہوناچاہئے ،اگر بھارت کی لیڈر شپ تیار ہے تو ہم بھی بات چیت کیلئے تیار ہیں، بھارت ایک قدم آگے بڑھائے، ہم دو قدم بڑھیں گے۔
عمران خان اور ان کی حکومت اگر واقعتا اپنے کہے پر عمل کرتی ہے تو یقینا ًہم سب ایک نئے پاکستان کیلئے پرامید ہیں۔ معاشی فرنٹ پر قوم اور بزنس کمیونٹی کو عمران خان کی حکومت سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ ہیں۔ 18 ارب ڈالر کا ریکارڈ کرنٹ اکائونٹ خسارہ ، 31ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ، اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر جو صرف 10 ارب ڈالر تک رہ گئے ہیں، روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں عمران خان کی نئی حکومت کو درپیش وہ چیلنجز ہیں جن سے انہیں ترجیحی بنیادوں پر نمٹنا ہوگا۔ عمران حکومت کے متوقع وزیر خزانہ اسد عمر پہلے ہی اشارہ دے چکے ہیں کہ ان کی حکومت کو قرضوں کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کے پاس سخت شرائط پر جانا ہوگا جو حکومت کیلئے غیر مقبول فیصلہ ہوسکتا ہے کیونکہ آئی ایم ایف مالی خسارہ کم کرنے کیلئے حکومتی سبسڈی کا خاتمہ، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی اصلاحات اور نجکاری، ایکسپورٹس بڑھانے کیلئے روپے کی قدر میں مزید کمی، بجلی میں دی جانے والی حکومتی سبسڈی کا خاتمہ اور ترقیاتی کاموں کے بجٹ میں کٹوتی وہ شرائط ہوسکتے ہیں جن سے عمران خان کے سستے مکانات، اسکول اور اسپتال بنانے کے عوام پسند وعدے خطرے میں پڑسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی سی پیک منصوبوں کیلئے دی جانے والی مراعات پر بھی آئی ایم ایف اعتراضات کرسکتا ہے جو حکومت کیلئے ایک سخت آزمائش ہوگی۔ امریکہ نے پہلے ہی اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کے آئی ایم ایف سے لئے جانے والے نئے قرضے سے چینی قرضوں کی ادائیگیاں نہیں ہونے دے گا۔اس کے علاوہ خارجہ امور پر ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات قائم کرنا بھی آنے والی حکومت کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا جبکہ گزشتہ حکومت نے 4 سال تک وزیر خارجہ کا تقرر نہ کرکے اہم خارجہ امور کو نظر انداز کیا تھا۔
2008ء سے لیکر 2018ء کے حالیہ الیکشن تک عمران خان نے نوجوانوں اور خواتین میں مقبولیت حاصل کی جس سے پارٹی کے ووٹ بینک میں اضافہ ہواہے۔ عمران خان کا ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ ایک ایسی امید کو ظاہر کرتا ہے جو کسی دوسری بڑی جماعت میں نظر نہیں آتی۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی وہ بڑی جماعت ہے جسے اس سے قبل آزمایا نہیں گیا لہٰذا عوام اس بار پی ٹی آئی کو بھی ایک موقع دینا چاہتےتھے۔ میاں نواز شریف کی تاعمر نااہلی کی سزا اور لمبی قید کے بعد پنجاب میں پی ٹی آئی کیلئے میدان تقریباً خالی تھا۔ شہباز شریف عمران خان کی تبدیلی کے آگے اپنی ترقی کا پرچار کرتے رہے۔عمران خان نے 2008ء میں اس وقت سیاسی جگہ بنائی جب سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت سے ایک سیاسی خلا پیدا ہوگیا جس سے عمران خان اور ان کی جماعت نے فائدہ اٹھایا۔ پنجاب میں بھی پی ٹی آئی نے پیپلزپارٹی کو بڑا نقصان پہنچایا۔ پی پی اور ن لیگ کی فرینڈلی اپوزیشن نے بھی عمران خان کو واحد اپوزیشن لیڈر بن کر ابھرنے کا موقع دیا۔ سندھ میں بلاول بھٹو نے پیپلزپارٹی کو ایک اور زندگی عطا کی اور نہایت کامیاب انتخابی مہم چلائی لیکن بلاول کو پنجاب پہنچتے پہنچتے بہت دیر ہوچکی تھی اور پنجاب میں تبدیلی کا رنگ چوکھا ہوگیا تھا۔ اسی طرح 2013ء کے انتخابات کے بعد ایم کیو ایم میں مسلسل دھڑے بندی نے عمران خان کو کراچی میں پائوں جمانے میں مدد دی لیکن 2013ء میں ایم کیو ایم کی عسکری طاقت اور خوف نے پی ٹی آئی کو مطلوبہ ووٹ حاصل نہیں کرنے دیاتھا۔ کراچی کے عوام جماعت اسلامی کی طرف لوٹ کر نہیں گئے بلکہ انہوں نے 2013ء اور 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو ایم کیو ایم کے متبادل کے طور پر چنا۔ عمران خان کی جماعت نے مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک کو بھی کافی نقصان پہنچایاہے۔ میرے نزدیک پی ٹی آئی کے کراچی میں جیتنے کی اہم وجہ ایم کیو ایم کی چار دھڑوں میں تقسیم، قیادت کا بحران، ایم کیو ایم کی عسکری طاقت اور خوف کا خاتمہ تھا جس کے باعث پی ٹی آئی نے کراچی میں 2013ء کی نسبت 2018ء میں د گنے ووٹ حاصل کئے جبکہ خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک حکومت اپنے 5 سالہ دور میں صحت ، تعلیم اور پولیس کے نظام میں بہتری لائی جسے پی ٹی آئی نے 2018ء کے الیکشن میں اپنی بہتر کارکردگی کے طور پر پیش کیا اور کامیابی حاصل کی۔ اس طرح حالیہ انتخابات میں عمران خان تمام سیاسی جماعتوں کے مضبوط ووٹ بنک پر تبدیلی کانعرہ لگاکر نچلے طبقے سے اپر کلاس تک اپنا مضبوط ووٹ بنک بنانے میں کامیاب رہے۔
عمران خان نے 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف جو دھرنے اور احتجاج کی روایت قائم کی تھی، کے پیش نظر 2018ء کے انتخابات کے نتائج پر بھی اگلے انتخابات تک دھاندلی کے الزامات اور احتجاجات کئے جاتے رہیں گے جس کیلئے انہیں اور ان کی حکومت کو تیار رہنا چاہئے۔ عمران خان کے رول ماڈل ملائیشیا کے ڈاکٹر مہاتیر محمد ہیں لیکن یہ کہا جارہا ہے کہ عمران خان پاکستان کے طیب اردوان بننے جارہے ہیں۔ پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے۔ عوام اور بزنس کمیونٹی عمران خان کی نئی حکومت سے ضرورت سے زیادہ توقعات لگارہے ہیں۔ متوقع وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنی حکومت کے پہلے 100 دن کا معاشی ایجنڈا پیش کیا ہے جس میں ایس ایم ایز اور مینوفیکچرنگ سیکٹر کی بحالی، سستی بجلی و گیس کی فراہمی اور سی پیک ترجیحات ہیں۔وہ جلد ہی آئی بی اے کراچی میں حکومتی ترجیحات اور پالیسی ریفارمز کیلئے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ایک میٹنگ کررہے ہیں جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا ہے۔ میری دعا ہے کہ آنیوالی حکومت جلد از جلد معاشی بحران پر قابو پاکر ترقی کے راستے پر گامزن ہوسکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)