مسئلہ رہائش گاہ کا

August 13, 2018

اتفاق سے میں نے وزیر اعظم ہائوس کی رہائش گاہ اندر سے دیکھی ہے۔ چنانچہ عمران خان کا یہ فیصلہ ’’برحق‘‘ ہے کہ وہ وہاں رہنا پسند نہیں کریں گے۔ اتفاق سے اگر میں کبھی وزیر اعظم بنا تو میں بھی وہاں رہنا پسند نہیں کرونگا۔ اور وہ سب لوگ میرے اس فیصلے کو سراہیں گے جو یہ رہائش گاہ اندر سے دیکھنے سے ’’محفوظ‘‘رہے ہوں گے، تاہم مستقبل کے وزیر اعظم عمران خان حتمی طور پر بتائیں کہ وہ کہاں رہنا پسند کریں گے۔ ابھی تک اس ضمن میں ان کے مختلف فیصلے ’’براستہ‘‘ فواد چودھری سامنے آ چکے ہیں اور ہاں فواد چودھری ان دنوں ایک بہت سیزنڈ (Seasoned)اور متحمل انداز میں گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔

خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے

بہرحال آخری خبریں آنے تک عمران خان ملٹری سیکرٹری کی رہائش گاہ میں رہیں گے اور شنیدہے جس کی ابھی تک تصدیق یا تردید نہیں ہو سکی کہ ملٹری سیکرٹری کی رہائش گاہ وزیر اعظم ہائوس کے احاطہ ہی میں واقع ہے ۔ خاں صاحب نے اپنی رہائش کے لئے جو رہائش گاہ بھی منتخب کرنی ہے براہ کرم اولین فرصت میں فیصلہ کریں۔ قوم بہت بے چین ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف تو ان دنوں اڈیالہ جیل کے ایک سیل میں قید ہیں جہاں ایک چارپائی اور ایک میز کی گنجائش ہے ان سے پہلے بھی جتنے وزیر اعظم گزرے ہیں وہ تقریباً اسی طرح کے حالات سے گزرے ہیں۔ اللہ کرے عمران خان صاحب ایسی کوئی حرکت نہ کریں کہ ان کے قیام کی جگہ کا فیصلہ ان کے اپنے ہاتھ ہی میں نے رہے۔ ویسے اگر کسی کے پاس اس وقت قلم کاغذ ہے تو وہ لکھ لے کہ ان کے ’’ہنی مون‘‘ کے دن برسوںپر محیط نہیں ہوں گے۔ یہ ایک سلسلہ ہےجو چلتا چلا آ رہا ہے اور چلتا چلا جائے گا ۔ یورپ کو تو اس گھمن گھیریوں سے نکلنے کے لئے تقریباً دو سو سال لگے تھے۔

سچی بات یہ ہے کہ مجھے اپنے دو گورنر دوستوں کی فکر زیادہ ہے ایک گورنر کے پی کے جھگڑا صاحب اور دوسرے گورنر پنجاب رجوانہ صاحب !میاں نواز شریف کے مقرر کردہ ان دوستوں نے ابھی تک گورنر سندھ زبیر صاحب کی طرح استعفیٰ نہیں دیامیں نے گورنر بلوچستان کا حوالہ بھی نہیں دیا۔ وہ بھی تاحال گورنر ہائوس ہی میں مقیم ہیں میری ان سے راہ و رسم نہیں ہے۔ اور میں تو اپنی دوستیاں نبھانے کے حوالے سے بہت بدنام ہوں چنانچہ مجھے جھگڑا صاحب اور رجوانہ صاحب کی بہت فکر ہے کیونکہ سنا ہے کہ ان کے قائد (اگر ابھی تک وہ ایسا سمجھتے ہیں) میاں نواز شریف کو ان کی گورنری سے چمٹے رہنے کی یہ ادا پسند نہیں آئی۔ پنجاب کے نئے گورنر چودھری محمد سرور میرے دوست ہیں، مگر مجھےسمجھ نہیں آئی کہ نواز شریف کے زمانے میں اگر انہوں نے گورنری اس لئے چھوڑی کہ یہ محض ایک رسمی عہدہ ہے تو اب یہ رسمی عہدہ کیوں قبول کر رہے ہیں ۔ اگر ان کا خیال ہے کہ اس بار یہ عہدہ بااختیار قسم کا ہوگا، تو اسمبلی سے منظوری اتنی آسان نہیں ہو گی۔ تاہم میری نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں۔

باقی رہ گئیں چاروں گورنر ہائوسز کی عمارتیں تو عمران خان کا (فی الحال) بیان یہ ہے کہ وہ ان کی دیواروں پر بل ڈوزر پھیر دیں گے اس کا مطلب کہ صرف بے چاری دیواریں اپنے ناکردہ گناہ کی سزا بھگتیں گی۔ باقی پوری عمارات اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ موجود رہیں گی یہ تاریخی عمارتیں ہیں اور انہیں ہاتھ تک نہیں لگایا جا سکتا۔ چلیں مان لیا بچارےگورنر کو ’’گورنر ہائوس بدر‘‘ کر دیا جائے گا مگر وہ کہاں جائیں گے ، ان کے اسٹرکچر اور دوسرے اخراجات میں کتنی کمی واقع ہو گی؟ گورنر ہائوس کی عمارتوں میں یونیورسٹیاں بنیں گی؟ان عمارتوں کی زمین اربوں روپے مالیت کی ہے ۔ یونیورسٹیاں تو کسی بھی سستی جگہ پر قائم ہو سکتی ہیں بہرحال یہ فیصلے پاکستان کو درپیش خطرناک ترین مسائل کی طرح ہیں چنانچہ یہ فیصلہ جہانگیر ترین پر چھوڑ دینا چاہئے ۔ان کے پاس خرید و فروخت کا ایک وسیع تجربہ ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)