نالج اینڈ ٹیکنالوجی بیسڈ گورننس پر کچھ اور

August 14, 2018

قارئین کرام اور اراکین سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی، تحریک انصاف!

گزرے ہفتے، 12اگست کے ’’آئین نو‘‘ بعنوان ’’پرائم منسٹر ہائوس پلس نیشنل سینٹر فار آراینڈ ڈی‘‘ میں ناچیز نے حددرجہ بگڑے وطن عزیز کا قبلہ درست کرنے کی سب سے بنیادی ضرورت’’یقینی اور نتیجہ خیز گڈ گورننس‘‘ کے لئے’’ڈیویلپمنٹ کمیونیکیشن‘‘ کا اسٹوڈنٹ ہوتے ہوئے ’’نالج اینڈ ٹیکنالوجی بیسڈ گورننس‘‘ کا ناصرف اپنا ماڈل پیش کیا ہے بلکہ پاکستان کی مخصوص صورتحال اور جملہ تحقیقیVariables(وقتی اور مقامی تخصیص کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ اسلام آباد کے پرائم منسٹر ہائوس کو فقط مرکز اقتدار یا وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ ہی کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے اس کے وسیع و عریض کمپلیکس میں ہی قومی ترقی کے مرکزی دھارے کے سرچشمے کے لئے بھی2تہائی جگہ وقف کردی جائے، باقی ا یک حصے کا استعمال ایک سادہ مگر باوقار اور محفوظ’’پرائم منسٹر ہائوس‘‘ کے طور ہو۔ وزارتوں کےباقی ماندہ ایریا الگ الگ تھنک ٹینکس، ریسرچ ونگز اور پالیسی ڈوکومینٹس کی تیاری اور ایکشن پلان کے مطابق منصوبہ بندی کی سرگرمیوں کیلئے وقف ہو۔ خاکسار نے زیر بحث تجویز میں بھی واضح کیا ہے اور گڈ گورننس کا یہ نکتہ آئین نو میں واضح کیا جاتا رہے گا کہ مختلف النوع تجاویز اور منفرد اور اختراعی فیصلہ سازی (Innovative Decision Making) فقط پارٹی قیادت کو ہی نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس سے قبل سنٹرل ایگزیکٹو یا مشاورتی حلقے کا غور و خوض اور سفارش اس میں شامل ہونی چاہئے۔ ابتداء میں ہی گزارش ہے کہ بطور وزیر اعظم خان صاحب خود لائل پور کا گھنٹہ گھر بننے سے بچیں اور سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر بھی انہیں ایسا بننے سے بچائیں، خود وزیر اعظم عمران خان اور ایگزیکٹو کے ارکان اپنی کمیٹی کو ایمپاورڈ کرنے پر چوکس رہیں اور بتدریج اس میں اضافہ کریں۔ اسی سے پارٹی میں داخلی استحکام بھی ہوگا اور گورننس اور اس کی فیصلہ سازی بھی بہتر سے بہتر ہوتی جائے گی۔


خبر ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی سرکاری اقامت گاہ(پرائم منسٹر ہائوس) کے بارے میں غور و خوض اور سفارش کے لئے پی ٹی آئی کی کمیٹی قائم کی جارہی ہے۔ ایسا ہے تو یہ ایسی ہی گورننس کا آغاز ہے جس پر خاکسار زور دے رہا ہے۔ گورننس جتنیSharedہوگی نتائج اتنے ہی بہتر نکلیں گے بشرطیکہ مشاورت میں سب سے بڑا شیئر جدید علوم، ٹیکنالوجی، تحقیق اور تجربے اور سیاسی انتظامی فہم کا ہونا چاہئے اور خان اعظم ایسا مشاورتی حلقہ بنانے میں کامیاب ہوگا تو یہ کبھی درباری انداز کا ہوگا نہ وزیر اعظم گھنٹہ گھر بن پائیں گے۔ وماعلینا الالبلاغ


آئندہ دو تین روز میں وزیر اعظم بننے والے عمران خان ا ور ان کی کابینہ کے ارکان(وزراء) کو اپنے اپنے مناصب کا حلف اٹھانے سے بھی قبل ’’آئین نو‘‘ میں یہ باور کرایا جارہا ہے کہ اگر انہوں نے وزارت عظمیٰ (جو پارلیمانی نظام میں اعلیٰ منصب سے زیادہ، سب سے زیادہ ذمہ دار ادارہ ہے ، اتنا کہ پارلیمان کی کوالٹی کا بڑا انحصار بھی اسی پر ہوگا) اور وزراء نے اپنی وزارتوں کو جدید موجود اور ظہور پذیر متعلقہ علوم سے جوڑ دیا تو پاکستان کا جاری شدید بحران تیزی سے کم ہوتا ہوتا تین سال میں بالکل ختم ہوجائے گا۔ اقتدار کے اگلے دو سال وزارتوں کے ماتحت تباہ اداروں کی مکمل بحالی کے بعد ان کی مزید ترقی اور استحکام کے سال ہوں گے، جس کے وسیع تر بینی فشریز پاکستان کے موجود استحصال زدہ عوام الناس بنیں گے۔


سارا زور اس پر لگنا چاہئے کہ گورننس کا مضبوط رشتہ برین اسٹارمنگ(دماغ سوزی) بشکل(فقط بحث و تمحیص والے نہیں) بلکہ رزلٹ اورئینٹڈ تھنک ٹینکس، پاکستان کی قومی ضروریات کو سمجھنے والے اور ان پر ہی سائینٹفک تحقیق کرنے والے اداروں، جدید اور ٹارگٹ اورئینٹڈ منصوبہ بندی اور فعال اور قابل پیمائش (Measurable) ایکشن پلانر سے کیسے؟ اور جلد سے جلد جوڑا جائے اور اس کے لئے ماہرین کو جنگی بنیاد پر انگیج کیا جائے۔


یہ درست ہے کہ اسٹیٹس کو کی آخری حکومتوں نے گورننس کو کرپشن سے گدلا ہی نہیں بلکہ غلیظ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پھر بدتر حکمرانی کی اس کیفیت میں ادارہ شکنی کے لئے جو دھماچوکڑی مچائی اور ملکی سلامتی اور خود مختاری تک کو خطرے میں ڈالنے کی حد تک بحران پیدا کیا ہے، ایسے میں اب تمام تر حل’’مالی وسائل کی تلاش‘‘ میں سے نکالنے کی باتیں بہت ذمہ دار حلقوں میں ہورہی ہیں۔ غالب حد تک یہ درست ہی ہے کہ ملکی خزانہ اور عوامی خدمات کے ادارے جس بے رحمی سے بذریعہ بیڈ گورننس اجاڑے گئے ہیں اور جس طرح پاکستان پر آنے والے وقت اور نسل پر برہنہ مہلک قرض کی تلواریں لٹکا دی گئی ہیں، اس کے ممکنہ علاج کے آغاز کے لئے بھی واقعی بھاری بھرکم رقوم درکار ہیں، جبکہ بقول استاد گرامی ڈاکٹر شفیق جالندھری ’’گزشتہ پندرہ سال سے اٹھتے بیٹھتے انتباہ کئے جاتے ہیں کہ قوم کو سمجھ نہیں آرہا تو کسی طرح یوں سمجھا دو کہ جیسے ہمارے پاس زندہ رہنے کے لئے فقط دودھ ہی رہ گیا ہے، جس کا مکھن ملائی کریم سب نکال کر باہر لے جائی جارہی ہے اور قوم چھاچھ پر بھی گزار نہیں کررہی بلکہ اس میں بھی کرپٹ حکمران مزید پانی اور وہ بھی گدلا پانی ڈال کر قوم کو گزار کرارہے ہیں‘‘۔ملک کی حقیقی مالی صورتحال تو واقعی کچھ ا یسی ہی ہے۔


لیکن اس موجود بدتر، مایوس کن بلکہ نو منتخب حکومت کے لئے ہراساں کرنے والی صورتحال میں فقیر ملین ڈالر ٹپ پیش کرتا ہے۔ ’’ تمام مسائل کا تعلق وسائل(مطلب مالی وسائل) سے نہیں ہے‘‘۔ عمران خان! اس کو گلے کے تعویذ کی طرح پلے باندھ لو۔ سوال ہے کہ وہ کون سے ملکی، عوامی، قومی مسائل ہیں جن کا حل مالی وسائل سے ہٹ کسی اور ذریعے سے بھی ہے، جی ہاں ہے، ان ذرائع کی نشاندہی تو تعویذ میں درج ہو گی۔ تعویذ کے مندرجات پبلک نہیں ہوتے لیکن یہ چھپے اپنا کام دکھاتے ہیں۔ دلچسپ یہ ہے کہ تعویذ کے مندرجات سائنٹفک آزمودہ اور ثابت شدہ اور نتیجہ خیز ہیں۔ پبلک فقط اس لئے نہیں کئے جاسکتے کہ اسٹیٹس کو کے دفاع کے آخری جنگجو ’’کالے جادو‘‘ والے جادوگروں کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ سو، انشاءاللہ تعویذ آپ تک جلد پہنچا دیا جائے گا یا پہنچ کر آپ کے حوالے کردیا جائے گا۔ آگے صرف وماعلینا الالبلاغ نہیں ہوگا، بلکہ آپ جوابدہ ہوں گے کہ آپ کو بمطابق عملدرآمد میں آخر کہاں مشکل پیش آئی اور آپ نے اسے دور کرنے کی قانونی آئینی سکت اور اپنے حلف، فریضے کے مطابق اسے دور کیوں نہیں کیا۔اب آپ پاکستانی قوم کی امیدوں کا مرکز ہی نہیں ہیں، بلکہ دنیا میں جہاں جہاں پاکستان کے خیر خواہ ہیں ان کا بھی، یوں بھی آپ اس فارسی شعر کی عملی تصویر ہیں ؎


مشکل نیست کہ آسان نہ شود


مرد باید کہ ہراساں نہ شود


وہ مشکل ہی نہیں جو آساں نہ ہوجائے اور وہ مرد ہی نہیں جو ہراساں ہوجائے۔ وہ دن گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑاتے تھے۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)