سب کی اندر کی باتیں

August 18, 2018

پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کا فیصلہ ہوگیا اور چوہدری پرویز الٰہی متوقع ووٹوں سے بارہ زیادہ ووٹ لیکر کامیاب ہوگئے ایک ہلچل مچ گئی ہے کہ نون لیگ میں فارورڈ بلاک بن گیا ہے اور آہستہ آہستہ اس بلاک میں مزید ممبران شامل ہوجائیں گے جس سے چوہدری پرویز الٰہی کی صوبے میں طاقت مزید بڑھ جائے گی دوسری طرف مرکز میں پی پی نے نون سے مکمل طور پر آنکھیں پھیر لی ہیں اور شہباز شریف کو وزارت عظمی کے لیے ووٹ دینے سے انکار کردیا ہے سینیٹ سے خبر آرہی ہے کہ نون لیگ اپنا قائد حزب اختلاف لیکر آرہی ہے اس لیے جلد ہی موجودہ قائد حزب اختلاف شیری رحمان استعفی دے دیں گی ۔ یہ سب کچھ پاکستان کی سیاست میں ایک ساتھ شروع ہوگیا ہے مگر اس سب کچھ کے پیچھے چھپے رازوں کو جاننے کے لیے ہمیں حکمراں جماعت پی ٹی آئی کی خاص میٹنگوں کے راز اور تھوڑا ماضی کی سیاست کے بارے میں جاننا ہوگا۔ اگر آپ کو یاد ہو کہ سابقہ اسپیکر پنجاب اسمبلی منظور وٹو ماضی میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ صرف انیس ووٹوں کی حمایت رکھنے کے باوجود بن گئے تھے اور اس سلسلے میں انھیں مرکزی حکومت کی حمایت حاصل رہی تھی ۔ سیاست پر گہری نظر رکھنے والے چوہدری پرویز الٰہی کا اسپیکر کا عہدہ حاصل کرنا وٹو فارمولے کی واپسی قرار دے رہے ہیں اس سے پہلے کہ ہم آپ کو بتائیں کہ اصل فارورڈ بلاک کس پارٹی کے اندر بن رہا ہے آپ کو پی ٹی آئی کی اندر کی بلکہ بہت اندر کی کہانی سناتے ہیں پی ٹی آئی کے مرکزی لیڈروں بشمول شاہ محمود قریشی نے پرویز الٰہی کو اسپیکر بنانے کی شدید مخالفت کی تھی شاہ محمود کے بقول اگر سب سے سینئر پلیئر کو اوپنر بھیج دیا جائے تو کہیں ایسا نہ ہو وہ سارے اوور خود ہی کھیل جائےاور باقی ٹیم منہ تکتی رہ جائے شاہ محمود کی تائید فواد چوہدری نے بھی کی اور اُس کے ساتھ ساتھ ایک فارمولا بھی دے دیا کہ کس طرح سینئر پلیئر کو سارے اوور کھیلنے سے روکا جاسکتا ہے انھوں نے یاد دلایا کہ منظور وٹو کے وقت بے نظیر بھٹو شہید نے ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئےپی پی کے دو انتہائی سینئر رہنماؤں کو پنجاب میں مرکزی وزارتیں دی تھیں تاکہ وٹو صاحب اپنی حد سے آگے نہ جاسکیں ۔ فیصل صالح حیات سینئر وزیر اور مخدوم الطاف وزیر خزانہ بنائے گئے تھے۔ فواد چوہدری نے تجویز دی کہ اگر نوجوان اور غیر تجربہ کار وزیر اعلیٰ کی مدد کے لیے علیم خان اور سبطین خان کو بڑی وزارتیں جس میں داخلہ اور خزانہ شامل ہیں دی جائیں تو پرویز الٰہی کی کسی بھی بڑی پیش قدمی کو روکنا آسان ہوگا اس کے ساتھ ساتھ گورنر اور طاقتورآئی جی بھی وزیر اعلیٰ کی کسی بھی مدد کو ہر وقت تیار رہیں۔ سینیٹ کےانتخابات کے بعد عمران خان کا چوہدری سرور پر اعتبار تھوڑا کم ہوا ہے اور چوہدری سرور کو اس کا بخوبی اندازہ ہے۔ دراصل عمران خان نے پرویز الٰہی کو اسپیکر بناکر ایک بہت بڑا جوا کھیلا ہے جو کہ لگتا ہے کہ آہستہ آہستہ عمران خان کے خلاف چلا جائےگا اور اصل فارورڈ بلاک پی ٹی آئی میں بنے گا نون لیگ میں نہیں پرویز الٰہی اپنے ساتھ تیس کے قریب لوگ ملاکر نون کے ساتھ وزارت اعلیٰ کے بدلے وزیر اعظم کی ڈیل بنائیں گے اور مرکز میں بھی پرویز الٰہی کی حکمت عملی سے کم از کم دس سے زیادہ ایم این اے پی ٹی آئی کی حمایت چھوڑ کر نون کی حمایت کریں گے ان ممبران پر فلور کراسنگ کا قانون کسی بھی صورت میں لاگو نہیں ہوگا اور اس سلسلے میں عائشہ گلالئی کا کیس بطور ثبوت موجود ہے جب الیکشن کمیشن نے اُن کے پی ٹی آئی کے خلاف جانے کے باوجود اُن کی رکنیت کسی صورت ختم نہیں کی۔ اگر آصف علی زرداری چاہتے تو موجودہ اسمبلیوں میں بھی اتحادیوں کے ساتھ ملکر پنجاب اور مرکز میں حکومت آسانی سے بنالیتے اپنے موجودہ اتحادیوں کے علاوہ ق، ایم کیو ایم اور بی این پی مینگل کو ساتھ ملانا اُن کے لیے بالکل بھی مشکل نہیں ہوتا آدھے سےزیادہ آزاد بھی اُن کی آواز پر لبیک کہہ دیتے مگر اُن کو معلوم ہے کہ عمران خان کی مقبولیت کو کم کرنے کے لیے انھیں ایک دفعہ اقتدار کی کُرسی پر بٹھانا بہت ضروری ہے ورنہ وہ کبھی بھی احتجاج کی سیاست سے باہر نہیں نکل پائیں گے ۔ اب مستقبل میں حکومتیں بنانے کہ اس سارے کھیل کے روح رواں آصف زرداری ہونگے چونکہ وہ ماضی میں نون لیگ کی ضرورت سے زیادہ حمایت کا خمیازہ بھگت چکے ہیں جس کی وجہ سے پی پی کا پنجاب کا سارا ووٹ بینک ختم ہوگیا اور مختلف پارٹیوں میں بٹ گیا یہ غلطی وہ اب پی ٹی آئی کی حمایت کرکے سندھ میں نہیں دہرائیں گے حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی نے سندھ میں ناقابل یقین حد تک ووٹ حاصل کیے ہیں اور لیاری کا نتیجہ ایک بہت بڑا دھچکا ہے ۔

آصف زرداری کو پتہ ہے کہ اگر دوستی بڑھائی گئی تو اُن کا ووٹر پی ٹی آئی کا دوست بن جائے گا جس کا پی پی کو بہت زیادہ نقصان ہوگا ایم کیو ایم کراچی یہ ہی غلطی کررہی ہے اور جلد خمیازہ بھگتے گی۔ بظاہر وقتی طور پر ایسا ہی نظر آرہا ہے کہ آصف زرداری کیسز کے خوف کے باعث عمران خان کی طرف دوستی پر مائل ہورہے ہیں مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ مختلف ہے آصف زرداری کسی بھی قیمت پر جیل جانا چاہتے ہیں مگر اس میں کامیاب نہیں ہوپارہے اُن کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو ہیرو بنایا جارہا ہے جب میں جیل جاؤں گا تو دنیا کو دکھاؤں گا اصلی قیدی کیسے ہوتے ہیں ذرا سوچئے جب آصف زرداری جیل میں ہوں اور اسمبلی کے فلور پر بلاول بھٹو آصف زرداری پر ہونے والے ظلم بیان کررہے ہوں تو پی پی کی عوامی طاقت کتنے گنا بڑھ جائے گی ۔

اب واپس آتے ہیں آصف زرداری کے پلان کی طرف جس کے تحت وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی وزیر اعظم شہباز شریف یا نون لیگ سے کوئی بھی اور صدر پی پی کا ۔ چیئرمین سینیٹ اگر قومی اسمبلی میں بلوچستان سے کچھ ووٹ دلادیتے ہیں تو اُن کو بھی نہیں چھیڑا جائے گا ۔ بظاہر پنجاب میں پرویز الٰہی کو حکومت دینا نون کے لیےزہر کا پیالہ پینے کے برابر ہوگا مگر دوسری صورت میں پی ٹی آئی کا مضبوط ہونا نون کے لیے زیادہ خطرناک ہوگا نواز شریف جلد ہی رہا ہوجائیں گے اور فوری طور پر اہلیہ کی تیمار داری کے لیے لندن چلے جائیں گے فی الحال عمران خان کو ایک سال کے آس پاس وقت دیا جائیگا اور سب کچھ ایسے ہی چلے گا جیسے کہ ابھی نظر آرہا ہے اور اس دوران ان کو بالکل کام نہیں کرنے دیا جائیگا تاکہ اُن کی ساکھ عوام میں کمزور ہو بصورت دیگر وہ عوامی مقبولیت کی بنیاد پر مخالفین پر حاوی رہیں گے۔ ایک سال بعد تبدیلیوں کا آغاز ہوجائیگا اور منتخب ہونے والے پی ٹی آئی کے صدر کے خلاف بھی مواخذے کی تحریک آجائیگی۔ اب اگر یہ دیکھنا ہو کہ یہ سب ایک سازشی نظریہ ہے یا واقعی کوئی سچ ہونے والی کہانی ہے تو تانے بانے ملائےجاسکتے ہیں کہ کیوں پرویز الٰہی نے اپنی حیثیت سے کم عہدے کو حاصل کرنے کے لیے عمران خان کی دوسری ساری شرائط مان لیں کیوں چوہدری شجاعت کواس عمر میں بھی قومی اسمبلی جانے کاشوق چڑھا ہے کیوں پی پی نے اچانک نون کے ساتھ سرد مہری شروع کردی ہے صرف اس لیے کہ یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہورہا ہے جس کا مقصد پی ٹی آئی کو اعتماد کے شیشے میں اُتار کر ایک ایسے گھیرے میں لینا جس سے اُس کی عوامی مقبولیت پر اثر پڑے ۔ جیسے جیسے پی پی اور پی ٹی آئی کی دوستی کی باتیں عوام میں پھیلیں گی عمران خان کی شناخت روایتی سیاستدان کی بن جائیگی جس کا فائدہ دوسرے سیاسی رہنماؤں کو ہوگا ۔ دوسری طرف جنوبی پنجاب کا نعرہ پی ٹی آئی کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائیگا کیونکہ جنوبی پنجاب کسی صورت میں بھی صوبہ نہیں بنایا جائیگا کیونکہ اگر جنوبی پنجاب کو صوبہ بنایا جاتا ہے تو وسطی پنجاب صوبہ میں نواز لیگ کی حکومت اکثریت ہونے کی وجہ سے خود بخود بن جائیگی جس میں لاہور بھی شامل ہے اور پی ٹی آئی یہ قربانی کسی بھی صورت نہیں دے گی لہذا جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی باتیں محض دھوکہ ہیں اور کچھ نہیں اور یہ بات خسرو بختیار خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں تاہم نون لیگ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی سے بھی زیادہ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لیے متحرک ہوجائیگی جبکہ پی ٹی آئی پیچھے ہٹے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)