تبدیلی کے ایجنڈے سے سندھ کیوں غائب ہے؟

August 31, 2018

میں نے گزشتہ ایک دو کالموں میں سندھ کے عوام میں پیدا ہونے والے اس احساس کے حوالے سے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ ملک کے نئے وزیراعظم عمران خان کی طرف سے انتخابات میں ملک بھر میں پی ٹی آئی کی کامیابی کے بعد قوم سے کئے گئے خطاب میں اور خاص طور پر ان کی طرف سے تبدیلی لانے کے لئے جاری کئے گئے ایجنڈے میں بھی سندھ کا ذکر کیوں نہیں؟ ان کالموں میں، میں نے ان باتوں کا ذکر اس وجہ سے کیا کیونکہ سندھ بھر سے مختلف حلقوں کی طرف سے آنے والی فون کالز میں یہ سوال پوچھا جارہا تھا جبکہ سندھ کے کچھ سیاسی حلقوں نے اس بات کا بھی خاص طور پر نوٹس لیا کہ ان کے خطاب میں تو صرف کراچی شہر کی ترقی کی بات کی گئی ہے جن لوگوں نے ایسے کالز کئے انہوں نے یہ اعتراض کرتے وقت یہ بات زور دے کر کہی کہ وہ کراچی کی ترقی پر ناخوش نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی تو سندھ کی جان، مان اور شان ہے جسے سندھ کئی سو سال سے اپنے خون جگر سے پال پوس کر اس حیثیت میں لایا لہٰذا وہ ناخوش ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے مگر ان حلقوں کا یہ کہنا تھا کہ کیا باقی سندھ کو بھی ترقی کی ضرورت نہیں ہے؟ اس پس منظر میں ان حلقوں کا کہنا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ کچھ عناصر نے ہمارے کچھ ’’مہربانوں‘‘ کو سندھ کی تقسیم کے مشن پر لگایا ہوا تھا مگر وہ عناصر کامیاب نہیں ہوئے ۔میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے‘ عمران خان کی طرف سے قوم سے کیا گیا خطاب اور ان کی طرف سے جاری کی جانے والی ’’تبدیلی کا ایجنڈا‘‘ یا اس کے کچھ دیگر اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو سندھ کے اکثر حلقے اس رخ پر سوچنے لگے ہیں کہ شاید سندھ کے لئے ایک بار پھر برے دن شروع ہونے والے ہیں، اس پس منظر میں اکثر جن سیاسی حلقوں سے رابطہ ہوتا ہے وہ خاص طور پر سوال کرتے ہیں کہ کیا ’’نئے پاکستان‘‘ میں سندھ کی کوئی گنجائش نہیں، یہ بات کرنے کے بعد یہ حلقے اپنی اس رائے کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر ایسا نہیں تو پھر سارے سندھ صوبے کی ترقی کی بات کیوں نہیں کی گئی؟ اس کے بعد یہ عناصر سوال کرتے ہیں کہ کیا کراچی کے علاوہ باقی سندھ پسماندہ نہیں ہے؟ یہ حلقے سوال کرتے ہیں کہ کیا ان عناصر اور خاص طور پر ملک کے قومی میڈیا کے نمائندوں نے اندرون سندھ کا تفصیلی معائنہ کیا ہے کہ وہاں شہروں کے درمیان روڈ اور ٹائونز اور گا ئوں کے اندر گلیوں کی کیا صورتحال ہے؟ ان لوگوں نے وزیر اعظم عمران خان کو تجویز دی ہے کہ وہ اپنے ماہرین کی مختلف ٹیموں کو اندرون سندھ کے مختلف علاقوں کا تفصیلی معائنہ کرنے کے لئے روانہ کریں تاکہ معلوم ہو کہ سندھ کی کیا صورتحال ہے، سندھ کے کچھ علاقے بلوچستان کے کئی علاقوں کی طرح قرون وسطی کے دور کی یاد دلاتے ہیں تو پھر سندھ کو نئے پاکستان کی بات کرنے والےکیوں نظر انداز کررہے ہیں؟ سندھ میںاس صورتحال سے پریشان لوگوں نے مجھ سے ٹیلی فون پر اس بات پر زور دیا کہ کیا سندھ کے ساتھ یہ سلوک اس وجہ سے کیا جارہا ہے کہ سندھ وہ صوبہ ہے جس نے سب سے پہلے سندھ اسمبلی میں پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کرکے پاکستان کے بارے میں علامہ اقبال کے خواب اور قائد اعظم کے تصور کو عملی شکل دی۔ یہ حلقے سوال کررہے ہیں کہ پاکستان قائم کرنے کی تحریک لاہور میں 1940 ء میں پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کئے جانے کے بعد شروع کی گئی تھی جس میں ٹھوس الفاظ میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستان میں شامل ہونے والی ریاستیں (صوبے) مکمل طور پر خود مختار ہوں گی، کیا ایسا ہوا؟ ایسا کئے جانے کی بجائے مغربی حصے میں صوبائی انفرادیت ختم کرکے ان کو ’’ون یونٹ‘‘ کی زنجیروں میں باندھ دیا گیا تھا، اس کے بعد پھر مارشل لاء ہی مارشل لاء آئیں، اس دور میں سارے صوبوں خاص طور پر سندھ کی انفرادیت ختم ہوگئی جبکہ ان کی تہذیبیں اور زبانیں بھی مٹی میں ملاد ی گئیں‘ کیا عمران خان کو اس بات کا علم ہے کہ سندھ کے کئی دانشور اور عوام دوست سیاسی قوتیں یہ توقع کرتے تھے کہ عمران جو نئے پاکستان کی بات کرتے ہیں کمیشن بنائیں گے جو اس سلسلے میں اعداد و شمار جمع کرے گی کہ ون یونٹ اور آمریت کے دوران بشمول سندھ اور دیگر دو صوبوں یعنی بلوچستان اور کے پی کے وسائل کیسے مرکز اور بڑے صوبہ اپنے مفاد میں استعمال کرتے رہے اور یہ کہ عمران نئے پاکستان کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کے لئے ان وسائل کی رقوم مرکز اور بڑے صوبے سے ان چھوٹے صوبوں کو لوٹائیں گے تاکہ 50 ء کی دہائی سے ان چھوٹے صوبوں کے وسائل کا اب حساب کتاب کرکے اس ساری لوٹ کھسوٹ کا معاوضہ ان چھوٹے صوبوں کو اتنے بڑے عرصے کے بعد ہی دیا جائے۔ عمران خان یہ اقدامات کرتے ہیں تو ایک ایسا پاکستان وجود میں آسکتا ہے جس کی طرف ایرے غیرے قسم کے ملک تو کیا سپر پاور بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکے گی

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)