یہ منظر عجیب لگ رہا ہو گا

September 07, 2018

اُس نے ٹائی لگائی ہوئی تھی، نہ انگریزی سوٹ پہنا ہوا تھا، پورے لباس میں غلامانہ سوچ کی عکاس کوئی چیز نہیں تھی، وہ بالکل سادہ شلوار قمیص پہنے ہوئے ملاقات کے کمرے میں داخل ہوا تو پومپیو کو ذرا جھک کر ملنا پڑا، وہ جھکے ہوئے پومپیو سے ہاتھ ملا کر بیٹھنے لگا تو اُسے ایک اور امریکی کا بتایا گیا، اُس نے اس سے بھی ہاتھ ملایا، وہ پھر بیٹھنے لگا تو اُسے بتایا گیا کہ اور بھی امریکی ہیں، اُس نے ان سے بھی ہاتھ ملایا اور پھر بیٹھ گیا۔ امریکی حیران تھے کہ یہ کیسا پاکستانی وزیر اعظم ہے جس نے جھک کر سلام بھی نہیں کیا، اس نے پینٹ کوٹ بھی نہیں پہنا ہوا، اس کے گلے میں ٹائی بھی نہیں ہے اور سب سے بڑھ کر اس کے ہاتھ میں کوئی پرچی بھی نہیں، یہ بالکل خالی ہاتھ ہے۔ اس حیران کن منظر میں گفتگو کا آغاز ہوا، اُس نے سابق حکمرانوں کی طرح ترلے منتوں سے کام نہیں لیا بلکہ اسی انداز میں گفتگو کی جس طرح غیرت مندی کا تقاضا تھا۔ پومپیو بھی اس کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو کر مسکراتا رہا، برابری کی سطح پر بات ہوتے ہوئے دیکھ کر بالآخر پومپیو نے اپنے دائیں طرف بیٹھے ہوئے ایک امریکی کو اشارہ کیا تو اس نے صحافیانہ انداز میں جب وزیر اعظم عمران خان سے پوچھا تو عمران خان نے کہا ’’میں سپورٹس مین ہوں اور سپورٹس مین جیت کے جذبے سے میدان میں اترتا ہے اور میں جیتنے کے لئے میدان میں اترا ہوں‘‘۔ جب پاکستانی وزیر اعظم امریکیوں کو یہ جواب دے رہے تھے تو مجھے بار بار یہ خیال آتا رہا کہ وہ تو بنی گالا میں اکثر مجھ سے کہا کرتے تھے کہ ’’میں کبھی ہارنے کے لئے میدان میں نہیں اترا، میں نے کبھی حوصلہ نہیں ہارا کیونکہ جو ٹیم میدان میں جیت کے جذبے سے اترتی ہے وہ زیادہ پُراعتماد ہوتی ہے، اس کا اعتماد اسے جتوا دیتا ہے۔ ‘‘ امریکیوں سے وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں ہونے والے مذاکرات میں آرمی چیف بھی موجود تھے ورنہ اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ امریکی اسلام آباد اور پنڈی میں الگ الگ ملاقاتیں کرتے تھے مگر اس مرتبہ ایسا نہ ہوا۔ اس مرتبہ تو استقبال بھی وزارت خارجہ کے ایک افسر نے کیا اور جو مذاکرات وزارت خارجہ میں بھی ہوئے وہاں بھی مخدوم شاہ محمود قریشی نے پاکستان کا مقدمہ بھرپور انداز میں لڑا، مذاکرات کے تعطل کو ختم کیا، بات چیت کے بند دروازے کھول دیئے۔

امریکیوں کو پاکستان میں استقبال کا منظر بھی عجیب لگا ہو گا، دورئہ پاکستان کے بعد جب پومپیو نئی دہلی پہنچے تو شسما سوراج ہاتھوں میں پھول لئے کھڑی تھیں۔ جی ہاں، دہلی ایئر پورٹ پر بھارتی وزیر خارجہ شسما سوراج خوشامدی لب و لہجہ کے ساتھ ہاتھوں میں پھول لئے کھڑی تھیں۔ اس مرتبہ بھارتی بڑے ناخوش تھے کہ آخر مائیک پومپیو اور جنرل جوزف کیوں اسلام آباد جا رہے ہیں، پہلے دہلی کیوں نہیں آ رہے؟ اسی لئے انہوں نے اپنی وزیر خارجہ کو ایئر پورٹ بھیج دیا مگر اب بھارتی کیا کریں گے، پومپیو تو شاہ محمود قریشی کو امریکہ کے دورے کی دعوت دے گئے ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم کو دنیا کے انیس ملکوں کی طرف سے دورے کی دعوت ہے مگر وہ کہیں نہیں جا رہے، وہ پہلے اس بات کا جائزہ لیں گے کہ پاکستان کو کہاں جانے سے زیادہ فائدہ ہو گا پھر کسی ملک میں جانے کا فیصلہ کریں گے۔

امریکی وفد کے وزیر اعظم آفس آنے سے پہلے وفاقی کابینہ کا اجلاس ہو رہا تھا جس میں ان بڑے سو مگرمچھوں کا ذکر ہوا جنہوں نے پاکستان کو لوٹا، جن کی لوٹ مار کے باعث پاکستانی معیشت کمزور ہوئی، بیرونی دنیا سے پیسے واپس لانے کی باتیں بھی ہوئیں، کابینہ نے اپنا صوابدیدی فنڈ واپس کیا، اس طرح ملکی خزانے میں 80ارب روپیہ آ گیا۔ برسہا برس سے جو ناانصافی ہو رہی تھی اس کے خاتمے کا فیصلہ ہوا، فیصلہ یہ ہے کہ اب پاکستان میں اسکول کی سطح تک یکساں نصاب تعلیم ہو گا، پرائیویٹ اسکولوں کی فیسوں کو لگام دی جائے گی، پرائیویٹ اسکولوں کی فیسوں کے اس بے لگام گھوڑے کو آج تک کسی نے روکا نہیں تھا، چائلڈ لیبر کے خاتمے کا بھی فیصلہ ہوا۔ بی آئی ایس پی کو جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا لیکن بہت سی بے ثمر اسکیموں کو ختم کرنے کا فیصلہ ہوا۔

خواتین و حضرات! کابینہ کے ہر اجلاس میں جتنے عمدہ فیصلے ہو رہے ہیں اگر ان پر عمل ہو گیا تو پھر یہ منظر واقعی حیران کن ہو گا۔ اطلاعات کے وفاقی وزیر فواد چوہدری کہتے ہیں کہ ’’اگر ملک ترقی کرے گا تو ہم سب ترقی کریں گے، ملک اوپر جائے گا تو ہم سب اوپر جائیں گے۔ ‘‘ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کی ترقی ملکی ترقی سے وابستہ ہے، لوگوں کی خوشحالی ملکی خوشحالی سے وابستہ ہے۔ یہ منظر بھی آپ پہلی مرتبہ دیکھ پائے ہیں کہ جی ایچ کیو میں یومِ دفاع کی تقریب میں شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرنے والی تقریب میں ملک کے وزیر اعظم مہمانِ خصوصی تھے۔ عمران خان سے پہلے یہ اعزاز کسی اور کو حاصل نہیں ہو سکا۔ حوصلہ رکھیں، آپ کے فائدے کے لئے بہت کچھ ہو رہا ہے۔ کسی اگلے کالم میں لکھوں گا کہ امریکیوں اور عربوں کی کیا مجبوریاں ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ چلنے پر آخر کیوں مجبور ہیں؟ فی الحال اقبالؒ کا یہ مصرع ہی کافی ہے کہ ؎

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)