احساسِ ندامت یا قبر کا خوف؟

September 16, 2018

اس وقت میری عمر83سال ہے، مگر اس واقعے کو میں ابھی تک ذہن سے نہیں نکال پایا۔ پیشے کے اعتبار سے میں انجینئر ہوں اور سعودی عرب کی ایک نجی کمپنی میں پینتیس سال تک اپنی ذمّے داریاں بہ خوبی نبھاتا رہا۔ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد1994ء میں وطن لوٹ آیا۔ اس کمپنی میں میرے ساتھ چھبیس ستائیس سال کا ایک نوجوان عرفان بھی بہ طور ڈرائیور ملازم تھا، ہم وطن ہونے کے ناتے میری اس سے اچھی دوستی تھی۔ اس کا تعلق ضلع ہزارہ سے تھا۔ وہ چاربھائی بہن تھے۔ بچپن ہی میںوالد کے انتقال کے بعد وہ یتیم ہوگئے، تو اُن کے تایا نے ان کی سرپرستی کی۔ تایاچوںکہ بے اولاد تھے، اس لیے چاروں بچّوں کی پرورش میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ اچھا کھلایا پہنایا۔ سب سے بڑا عرفان تھا۔ اس کے بعد ایک بھائی تھا، ان بھائیوں سے چھوٹی دوبہنیں تھیں۔ ایک بہن کی شادی ہوچکی تھی۔ تایاجی نے، جنہیں وہ ’’بابا جی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے، عرفان اور اس کے چھوٹے بھائی کو میٹرک کے بعد ڈرائیونگ سکھا کرملک سے باہر بھجوادیا تھا۔ عرفان سعودی عرب اور اس کا بھائی شارجہ میں ملازمت کررہا تھااور اب ان کی تنخواہوں سے اچھی گزر بسر ہورہی تھی۔ تایا نے عرفان کی شادی کا پروگرام بنایا، تو اس نے دو ماہ کی چھٹی لی اور پاکستان چلا گیا، لیکن پھر اچانک جلد ہی واپس آگیا، حالاں کہ اس کی چھٹی ختم ہونے میں ایک مہینہ باقی تھا، مجھے حیرت ہوئی، کیوںکہ عموماً لوگ گھر جاکر چھٹیاں بڑھوالیتے تھے، لیکن وہ ایک ماہ قبل ہی واپس آگیا تھا۔ اس کی عادت تھی،وہ جب بھی وطن سے لوٹتا، تو ساتھیوں کے لیے اپنے علاقے کی سوغات ضرور لاتا، لیکن اس بار وہ خالی ہاتھ لوٹا تھا اور کچھ سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے جب تنہائی میں چھٹیاں کینسل کروانے کی بابت استفسار کیا، تو اس نے جواباً مجھے جو واقعہ سنایا، وہ اسی کی زبانی پیش کررہا ہوں۔

’’شاہ صاحب! آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ہم چار بہن بھائیوں کو ہمارے تایا نے بڑی محنت مشقّت سے پال پوس کر بڑا کیا اور ہمیشہ سگے باپ جیسی محبت دی۔ کبھی کسی چیز کی کمی نہ ہونے دی۔ ان کی خواہش تھی کہ اس دفعہ میں منگنی یا نکاح کرکے ہی واپس لوٹوں، وہ لڑکی کے انتخاب میں میری پسند کو بھی ضروری سمجھتے تھے، لہٰذا اس بار جب شادی کے ارادے سے چھٹی لے کر پاکستان گیا، تو بابا جی نے مجھے بتایا کہ ’’تمہارے پھپّھو زاد بھائی کی شادی چند روز بعد ہورہی ہے، وہیں کوئی اچھی سی لڑکی ڈھونڈ کر تمہارا رشتہ کروادیں گے۔‘‘ ان کی تجویز اچھی تھی۔ میں رضامند ہوگیا اور شادی میں شرکت کے لیے زوروشور سے تیاریاں کرنے لگا۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ بابا جی کچھ بیمار بیمار سے دکھائی دے رہے ہیں۔ میری چھوٹی بہن نے بتایا کہ بابا جی کبھی چاق چوبند ہوجاتے ہیں اور کبھی بیمار دکھائی دینے لگتے ہیں۔ میں انہیں بہلا پھسلا کر اچھے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ اس نے معمولی بیماری تشخیص کر کے دوائیں لکھ دیں اور کہا کہ باباجی کسی مہلک مرض میں مبتلا نہیں، ان کی خوراک پر توجّہ دیں،خوب کھلائیں پلائیںاور کوئی پریشانی کی بات نہیں۔

ہماری پھپّھو گائوں ہی میں رہتی تھیں، مگر بارات لے کر ہمیں پچاس پچپن کلومیٹر دور جانا تھا۔ رات کو وہیں رکنے کا پروگرام تھا اور دوسرے دن شام کو واپسی تھی۔ بابا جی کی حیثیت خاندان کے سربراہ جیسی تھی، اس لیے لڑکی والوں نے ان کا بہت گرم جوشی سے استقبال کیا۔ گرمی کی وجہ سے درختوں کے نیچے چارپائیاں اور مونڈھے بچھا کر بٹھایا گیا۔ پینے کے لیے تربوز کا شربت پیش کیا گیا۔ بابا جی نے پورے تربوز کی فرمایش کی، تو انہیں ایک بڑا سا تربوز دو حصّوں میںکاٹ کر شکر ملا کر پیش کیا گیا، جسے وہ چمچ سے کھانے لگے۔ حقّے کا دَور بھی ساتھ ساتھ چل رہا تھا، ہر طرف دھوم دھام سی تھی کہ اچانک باباجی کو زور دار کھانسی اٹھی، ساتھ ہی الٹی بھی ہوگئی۔ سب گھبرا گئے، میں نے اپنے دونوں ماموئوں کو ساتھ لیا اورانہیں جیپ میں بٹھاکر شہر کے ایک بڑے اسپتال لے کر آگیا۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد بتایا کہ’’انہیں دل کا دورہ پڑا ہے، لیکن فکر کی کوئی بات نہیں، یہ انجیکشن اور دوائیں لے آئیں۔‘‘میں بھاگتا ہوا دوائیں لینے میڈیکل اسٹور چلا گیا، واپسی پر ان کے منہ پر آکسیجن ماسک لگا دیکھا، تو دل دہل گیا، میں کچھ سمجھ نہیں پایا تھا کہ ڈاکٹر نے کچھ دیر بعد تسلّی کے انداز سے شانہ تھپتھپا کر کہا ’’سوری، ہم نے بہت کوشش کی، مگر انہیں بچانہیںسکے۔‘‘ ڈاکٹر کا جملہ سن کر مجھ پر جیسے بجلی گر پڑی۔ میں دہاڑیں مارمارکر رونے لگا۔ میرے ماموں نے مجھ سے کہا کہ’’شادی والے گھر یہ خبر پہنچانا صحیح نہیں ہوگا، وہاں فی الحال صرف یہ بتادو کہ بابا جی کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی ہے، اس لیے وہ گھر چلے گئے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باباجی کو قریبی مسجد لے گئے۔ مسجد ہی میں نہلاکر خاموشی سے تدفین کے سارے انتظامات کرلیے، مسجد کے کچھ نمازی اور دیگر چند افراد بھی جمع ہوگئے۔ عشاء کی نماز کے بعد تدفین کے لیے انہیں قبرستان لے گئے۔ میں نے اور ماموں نے انہیں قبر میںاتارا۔ رات کی تاریکی کی وجہ سے گیس لائٹ اور ٹارچز ہمارے ساتھ تھیں۔ جب ہم انہیں قبر میں لٹا چکے، تو مولانا نے کہا ان کے چہرے سے کفن ہٹادیں، تاکہ جسے آخری زیارت کرنی ہے وہ کرلے۔ میری حالت ان کی دائمی جدائی کے خیال سے بری ہورہی تھی۔ میں فوراً قبر میں اترا اور جیسے ہی چہرے سے کفن ہٹایا، ایک جھٹکا سا لگا۔ بابا جی آنکھیں کھولے ہوئے تھے۔ کسی نے اوپر سے کہا، ان کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر بند کردو۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ان کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر انہیں بند کرنے کی کوشش کی، مگر جیسے ہی ہاتھ ہٹایا، وہ پھر کھل گئیں۔ مولانا نے مٹّی کے دو ٹھیکرے مجھے پکڑاتے ہوئے کہا کہ ’’بیٹا! ان کی آنکھوں پریہ رکھ دو۔‘‘ میں نے جیسے تیسے دونوں ٹھیکرے بابا جی کی آنکھوں پر رکھ دیے، مگر میری نظروں کے سامنے وہ دونوں کھسک گئے اور بابا جی کی آنکھیں پھرکھل گئیں۔ وہ مجھے گھور رہے تھے، معاً کفن کی طرف آنکھیں گھماکر دیکھا، اور زور سے چلّائے ’’اوئے! یہ تُو کیا کررہا ہے میرے ساتھ.....؟‘‘

میرے حلق سے یک لخت خوف ناک چیخ نکلی اور وہیں ان پر گر کر ہوش و حواس سے بے گانہ ہوگیا۔ جب ہوش آیا، تو خود کو اسی اسپتال میں پایا، جہاں کچھ گھنٹے قبل باباجی داخل تھے۔ دوسری صبح جب مکمل ہوش میں آیا، تب ساری بات سمجھ آئی۔ ماموں نے بتایا کہ ’’تم جیسے ہی بابا جی پر گرے، انہوںنے چیخنا چلّانا شروع کردیا۔ کچھ لوگ سمجھ گئے کہ بابا جی کو موت نہیں، غشی طاری ہوگئی ہوگی، انہوں نے بڑی مشکل سے ڈرکر بھاگنے والے بزرگوں کو روکا اور تمہیں قبر سے نکالا۔ بابا جی اٹھ بیٹھے۔ وہ بلا لحاظ ہر شخص کو صلواتیں سنانے لگے۔ قبر سے باہر نکل کر انہوں نے فوراً گھر کا رخ کیا اور اسی حالت میں گھر پہنچ گئے۔ چوں کہ کفن دفن کا یہ سلسلہ انتہائی رازداری اور چند رشتے داروں کی مدد سے ہورہا تھا، اس لیے اس خبر نے پورے گائوں میں بُری طرح خوف و ہراس پھیلادیا۔ اِدھر نکاح خیرو سلامتی سے ہوگیا اور پھپّھو باراتیوں کے ساتھ گھر پہنچیں، تو اس وقت تک گائوں میں ان کے مرنے اور قبر میں زندہ ہوجانے کی خبر پھیل چکی تھی۔ انہیں دیکھنے اور ملنے کے لیے لوگ جوق در جوق آرہے تھے اور بابا جی ہر ایک کو ہنس ہنس کر بتارہے تھے ’’یہ نالائق تو مجھے دفن کرچکے تھے، دو منٹ کی دیر ہوگئی، بس میرا نالائق عرفان اگر میری آنکھوں پر ٹھیکرے نہ رکھتا، تو مجھے تب ہوش آتا، جب یہ مجھے دفن کر کے جاچکے ہوتے۔‘‘

مجھے رات ہی کو اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا، جب گھر پہنچا، تو گھر میں چوپال کا منظر تھا اور بابا جی اونچی آواز میں ڈانٹ ڈپٹ کررہے تھے۔ میں بہت ڈر گیا تھا، ان سے ملے بغیر چُپکے سے اپنے کمرے میں گھس گیا اور دو دن تک بابا جی کے سامنے نہیں آیا۔ پھپّھو مجھے تیسرے روز سمجھا بجھا کر ان کے سامنے لائیں، مگر مجھ سے ان سے نظریں نہیں ملائی گئیں۔ بالآخر انہوں نے مجھے گلے سے لگایا اور کہنے لگے ’’تیری پھپّھو کہہ رہی تھیں کہ ان کی بہو منحوس ہے، لیکن میں نے اسے بتایا ہے کہ دلہن بھاگوان ہے، اس نے مجھ بڈھے کو بچالیا۔ اس کے نکاح کے وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے دوبارہ زندگی عطا کردی۔ یہ اس کا اچھا نصیب تھا کہ جاتی خوشیاں لوٹ آئیں اور اب میں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ اس کی چھوٹی بہن سے تیرا بیاہ کروں گا۔ تیری پھپّھو کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے، وہ بھی راضی ہے، اب تو اپنی مرضی بتا، لڑکی بہت اچھی ہے۔‘‘

بابا جی مجھے معاف کرکے یہ خوش خبری سنارہے تھے اور میرا خوف کسی صورت کم نہیں ہورہا تھا، میں جلد از جلد اس ماحول سے نکلنا چاہتاتھا، جو میرے اندر احساسِ ندامت کے ساتھ اس واقعے کی ہولناکی سے بھی جڑا ہوا تھا، لہٰذا بابا جی سے جھوٹ بول کر کہ مجھے کمپنی سے فوری بلاوا آگیا ہے، سعودی عرب آگیا، مگر ابھی تک عجیب کیفیت میں ہوں، رات کو سوتا ہوں، تو بابا جی کی قبر میں کھلی آنکھیں خواب میں دکھائی دیتی ہیں۔ عجیب وسوسوں میں ذہن الجھتا جارہا ہے، میں کیا کروں؟عرفان کی اس داستان نے مجھے بھی لرزا دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد وہ کسی طور شادی پر آمادہ نہیں تھا، لیکن میرے پیار و محبت سے سمجھانے پربالآخر اس نے میری بات مان لی اوراُسی لڑکی سے شادی کرلی۔ اوربابا جی اس واقعہ کے بعد ڈیڑھ سال تک صحت و تن درستی کے ساتھ زندہ سلامت رہے۔

(محمد سعید، کراچی)