ہر فن مولا!

November 30, 2012

میں نے ایک دفعہ اپنے ایک دوست کا ذکر کیا تھا جس کی محبت کی ”زد“ میں اس کا ہر ملنے والاآتا ہے۔ یہ اتنا ”کیئرنگ“ ہے کہ ہروقت اپنے ملنے والوں کے لئے کچھ نہ کچھ کرنے پرکمربستہ دکھائی دیتاہے مثلاً وہ جب کبھی مجھے ملنے آتا ہے میری کوشش ہوتی ہے کہ اسے پتہ نہ چلے کہ آئندہ چند لمحوں میں، میں کیا کرنے والا ہوں کیونکہ وہ مجھ سے پہلے وہ کام کر گزرے گا۔ اس کی ایک مثال دہرا دیتاہوں۔ میں نے سگریٹ پینے کا ارادہ کیااور ابھی پیکٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس نے لپک کر پیکٹ اٹھا لیا، اس میں سے سگریٹ نکال کر میرے ہونٹوں کے ساتھ لگایا اورلائٹر سے اسے سلگا بھی دیا۔ اب اسے کیاپتہ کہ سگریٹ نوشوں کااپنا ایک ”کلچر“ ہے۔ سگریٹ نوشی صرف منہ سے دھواں نکالنے کا نام نہیں بلکہ سگریٹ نوش سگریٹ سلگانے کے مرحلے سے پہلے اس کے بارے میں سوچتا ہے اور چسکے لیتا ہے۔ اس کے بعد وہ پیکٹ ہاتھ میں پکڑ کر کچھ دیر اس سے کھیلتا ہے، پھراس میں سے سگریٹ نکالتاہے۔ اس کے تمباکو والے سرے کومیز پر ٹھونکتا ہے تاکہ تمباکو کے ”نٹ بولٹ“ کسے جاسکیں، اس کے بعد وہ سگریٹ ہونٹوں سے لگاتاہے پھرماچس اٹھاتا ہے اور کچھ دیر ماچس کی تیلیوں کو کھنکھناتا ہے اور پھر کہیں جاکر سگریٹ سلگاتا ہے۔مگر میرے اس دوست نے مجھے یہ مرحلہ ہائے شوق طے ہی نہیں کرنے دیئے اور ڈائریکٹ سگریٹ میرے منہ میں ٹھونس دیا۔ جب اس نے یہی کام ایک او ر موقع پر بھی کیاتو میں نے سگریٹ اسے واپس کرتے ہوئے کہا ”اب یہ سگریٹ بھی تم خود ہی پیو!“
میرے اس دوست کے گھر میرا ایک اوردوست مہمان ٹھہرا۔ وہ مجھے اپنی بپتا سناتے ہوئے بتا رہا تھا کہ اس کی دو دن کی بھرپو ر میزبانی سے میں ”نکو نک“ آ گیا۔ وہ سائے کی طرح میرے ساتھ لگا رہتا تھا۔ وہ ہر وقت اس فکر میں نظر آتا کہ مجھے کسی چیز کی ضرورت تو نہیں، میں کچھ وقت تنہابھی رہنا چاہتا تھا لیکن وہ میرے پاس آ کر بیٹھ جاتا اوراس امر کی کڑی نگرانی کرتا اورٹوہ لگا تاکہ اس وقت مجھے کس چیز کی ضرورت ہے؟ بعض اوقات تو وہ میری سوچوں میں بھی داخل ہو جاتا ، سوچیں تو انسان کو ہر طرح کی آتی ہیں چنانچہ میں نے احتیاطاً دودن اس دوست کی بابت سوچنا بند کردیا۔وہ منورظریف کی ایک فلم کے اس جن جیسا تھا جوہر منٹ کے بعد کہتاہے ”میرے آقا کیا حکم ہے؟“ اورحکم کی تعمیل کے بعد پھر سامنے آن کھڑا ہوتااور کہتا”میرے آقا کیا حکم ہے؟“ اس پر منورظرف تنگ آ کر اسے حکم دیتاہے کہ ”تاحکم ثانی سامنے والی سیڑھیوں پر مسلسل چڑھتے اور اترتے رہو!“ میرے دوست کے بقول ”میرا دل بھی کچھ اسی قسم کاحکم دینے کو چاہتا تھا لیکن ایسے اچھے دوست کے ساتھ یہ سلوک مناسب نہ تھا لیکن ایک دن تو حد ہوگئی اس دوست کے باتھ روم میں پانی صرف مقررہ وقت پر آتا تھااور مجھے اس وقت باتھ روم جانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ جب وہاں پانی نہیں تھا چنانچہ میں نے اس دوست کو مخاطب کیا اورکہا ”پانی مل جائے گا؟‘ دوست جوپہلے ہی کسی فرمائش کا منتظر تھا۔ بولا ”کیوں نہیں، کیوں نہیں“ اورپھر اس نے چشم زدن میں میرے ہاتھ میں کوکاکولا کی بوتل پکڑا دی!
تاہم اس میزبانی کے دوران ایک دلخراش واقعہ بھی پیش آیا جس کا ذکرآگے چل کر آئے گا۔ میرادوست بتاتا ہے کہ اس باکمال شخص نے مجھے اپنے گھر شہزادوں کی طرح رکھا۔ ان دونوں دنوں میں میرے کپڑے مجھے استری شدہ ملتے تھے۔ جوتے پالش سے چمک رہے ہوتے تھے۔ اگر کسی قمیص کا بٹن ٹوٹا ہوتا تو اس کی جگہ نیا بٹن لگ جاتا۔ سونے سے پہلے اس کا ملازم میری ”مٹھی چاپنی“ بھی کرتا۔ میں نے گھرسے نکلناہوتا تووہ مجھے میری وہ تمام ضرورت کی چیزیں یاد دلاتا جو میں اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔میں اس کا بہت ممنون تھا۔ پریشان صرف اس روز ہوا جب ایک دن پتلون پہنتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ پتلون کی زپ پھنس گئی ہے اوروہ کام نہیں کررہی، میں ابھی اس کامداوا سوچ ہی رہا تھا کہ میرا یہ دوست برق رفتاری سے زپ کی طرف بڑھا اور اس نے اس وقت تک زپ کا پیچھا نہیں چھوڑا جب تک میری چیخ نہیں نکل گئی۔ اس دلخراش حادثہ کے بعد میں نے اس کاگھر چھوڑ دیا!
میرا یہ دوست، میرے خیال میں اس کا کوئی نام رکھ لیناچاہئے تاکہ لفظ ”دوست“ کی تکرار نہ ہو۔ تو آپ سمجھیں اس کا نام ارشد ہے۔ سو ارشد دوست احباب کے لئے ہر وقت صرف برسرعمل نظرنہیںآ تا بلکہ انہیں اپنے مشوروں سے بھی نوازتا رہتا ہے۔ انہیں طبی مشورے بھی دیتا ہے۔ روحانیت سے بھی اسے شغف ہے چنانچہ اس حوالے سے بھی انکی مدد کا خواہاں ہوتاہے۔ اسے سیاست سے بھی گہری دلچسپی ہے چنانچہ اپنے سیاسی احباب کو ”گائیڈلائن“ بھی دیتا رہتاہے۔ جہاں تک طب کا تعلق ہے وہ علاج بالماء (پانی سے علاج) کا بہت قائل ہے چنانچہ وہ ہر مرض کا علاج پانی کے استعمال کی مختلف صورتوں میں بتاتا ہے۔ میں جو واقعہ بیان کرنے لگا ہوں اسے آپ ”درغ برگردن راوی“ کے کھاتے میں ڈال سکتے ہیں۔ سو اس ”راوی“ کے مطابق انہوں نے اپنی کالی رنگت کوگورا کرنے کے خواہشمند ایک صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ شدید سردی کے موسم میں رات تین بجے پانی سے بھرے ہوئے ٹب میں برف ڈال کر اس سے نہالے تو اس کا رنگ صاف بلکہ گوراہو جائے گا۔ ان صاحب نے اس مشورے پرعمل کیااور راوی کے مطابق واقعی اگلے روز ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ ”کیا نور چڑھاہے مرحوم کے چہرے پر!“ ارشد میاں علاج بالغذا کے بھی قائل ہے چنانچہ احباب کو اس حوالے سے بھی مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں۔ شوگر کے مریضوں کو دوتین کلو روزانہ آم اور گردے کے مریضوں کوگائے کے گوشت کے کم از کم تین درجن کباب روزانہ کھانے کی تلقین کرتے ہیں۔ جومریض ان کے مشوروں پرعمل کرتاہے اسکے بعد یہ معاملہ صرف اس مریض اورخدا کے درمیان رہ جاتاہے یہ اللہ کی مرضی ہے کہ وہ اس علاج کے بعد مریض کوہفتہ دس دن کی مہلت بھی دیتا ہے کہ نہیں؟
جیسا کہ آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ ارشد میرا قریبی دوست ہے اوروہ صرف سیگرٹ پینے میں میری مدد نہیں کرتا بلکہ ہر لحاظ سے میرا خیال رکھتا ہے چنانچہ میں اس کے مشوروں کی زد میں آتا رہتا ہوں۔ مجھے وہ زیادہ تر سیاسی مشورے دیتا ہے۔ وہ اکثر کہتا ہے کہ کالم گول مول لکھا کریں کسی کوپتہ نہ چلے کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں تاکہ سب لوگ اس میں سے اپنا اپنا مطلب نکالتے رہیں۔ وہ اس ضمن میں مجھے تجریدی آرٹ کے شہ پاروں کی مثال دیتا ہے اورکہتا ہے کہ جب ان کی طرح آپ کی بات بھی کسی کے پلے نہیں پڑے گی تو آپ کا بھی ہر کالم ایک شہ پارہ ہی سمجھا جائے گا۔ میں اسے بتاتا ہوں کہ کوشش تو میری بھی یہی ہوتی ہے لیکن شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں اور کچھ مجھے بھی مرنے کاشوق ہے!
آپ سب کا شکریہ
مجلس فروغ اردو کے عالمی ایوارڈ پر اندرون ملک اوربیرون ملک سے مجھے جن احباب کے مبارکباد ی خطوط اور پیغامات ملے ہیں میں ان سب کا تہہ دل سے شکر گزارہوں! اللہ تعالیٰ آپ کو خوش و خرم رکھے!