ادب پارے: احسان دانش

September 19, 2018

احسان دانش سے کسی مشاعرہ کے مہتمم نے التجا کی کہ ہم ایک مشاعرہ کررہے ہیں، اس میں شامل ہوکر ممنون فرمائیے۔ احسان نے پوچھا: ’’معاوضہ کتنا ملے گا؟‘‘ مہتمم نے نہایت انکساری سے جواب دیا: ’’آپ اس مشاعرے میں معاوضے کے بغیر شمولیت فرما کر کمترین کو شکر گزار فرمائیں‘‘۔احسان نے اس کی انکساری سے قطعاً متاثر نہ ہوتے ہوئے کاروباری انداز میں کہا: ’’بندہ نواز! آپ کو ممنون فرمانے میں مجھے کوئی اعتراض نہ تھا اور میں کسی معاوضے کے بغیر آپ کے مشاعرےمیں چلا جاتا، بشرطیکہ میرے شعروں سے، میرے بچوں کا پیٹ بھر سکتا۔ آپ خود ہی غور فرمائیے قبلہ کہ گھوڑا گھاس سے محبت کرنے لگے تو کیا آپ کے شکریے پر زندہ رہ سکے گا‘‘۔

……O……

راولپنڈی میںمشاعرہ تھا۔ لاہور سے کچھ شعراء کو مدعو کرنے کے لئے منتظمین، احسان دانش سے ملے۔ انہوں نے سوال کیا: ’’آپ کتنے پیسے دے سکیں گے؟‘‘ منتظم نے کہا: ’’آپ کو تین سو روپے دئیے جاسکیں گے، یہ زیادہ سے زیادہ معاوضہ ہے، اسی رقم کو قبول فرماتے ہوئے خان بہادر، حفیظ جالندھری نے بھی شمولیت کا وعدہ فرمایا ہے‘‘۔

’’حضرت! کہاں خان بہادر اور کہاں ایک مزدور شاعر! لیکن بندہ نواز، میں اپنے مقام سے کسی قیمت پر نہیں گرنا چاہتا اور پانچ سو روپے سے ایک پائی کم نہ لوں گا۔ میں بہت چھوٹا اور حفیظ صاحب لاکھ بڑے شاعر سہی، لیکن یاد رکھئے، دودھ کتنی مفید اور عمدہ شے ہے، لیکن گلی گلی میں فروخت ہوتا ہے اور شراب انتہائی بدنام اور مہلک ہونے کے باوجود اپنے مقام ہی پر بکتی ہے‘‘۔

……O……

ایک محفل میں، جہاں عطش درانی بھی شریک تھے، مقبول جہانگیر نے سید عشرت زیدی کی وفات کی خبر سناتے ہوئے احسان دانش سے کہا: ’’جوش صاحب تو ضرور اس کے جنازے میں آئے ہوں گے؟‘‘ اس پر احسان صاحب چہک کر بولے: ’’اونہہ! وہ شخص تو اپنے جنازے پر نہ آئے گا، عشرت کے جنازے پر اسے کیا خاک آنا ہے؟‘‘

اسی محفل میں کسی جھوٹے شخص کا ذکر چھڑا تو احسان دانش فرمانے لگے: ’’اجی اس کی کیا بات کرتے ہیں، وہ شخص تو صرف اتنا جھوٹ بولتا ہے، جتنا نمک میں آٹا!‘‘ساری محفل اس نئی ترکیب ’’نمک میں آٹا‘‘ کو سن کر کشتِ زعفران بن گئی۔

……O……

ڈاکٹر تاثیر اور احسان دانش ریل میں سفر کررہے تھے۔ ایک اسٹیشن پر تاثیر کے ایک دوست اسی ڈبے میں داخل ہوئے۔تاثیر نے ان سے احسان دانش کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ آپ ہیں اردو کے مشہور شاعر، مصورِ فطرت، شاعرِ مزدور، حضرت احسان دانش کاندھلوی۔ اس دوست نے پوچھا وہی، جومزدوروں کے بارے میں نظمیں لکھتے رہتے ہیں۔ میں نے کہا جی ہاں وہی۔ وہ دوست کہنے لگا:’’خدا کی قسم! ان کی نظمیں پڑھ کر یہ جی چاہتا ہے کہ صبح کو اٹھتے ہی ہر مزدور کے سر پر سو جوتے لگائے جائیں‘‘۔

……O……

شروع میں احسان دانش، اپنا نام احسان بن دانش لکھا کرتے تھے (یعنی پسرِ دانش، جو اُن کے والد کا نام تھا) ایک مشاعرے میں (جب احسان ابھی زیادہ مشہور نہیں ہوئے تھے) ان کی ملاقات ایک اور شاعر سے ہوئی، تو انہوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اپنا نام احسان بن دانش بتایا۔ اس پر وہ صاحب بولے: ’’تخلص تو میرا بھی احسان ہے، لیکن الحمدللہ میں ’’بن دانش‘‘ نہیں ہوں۔ غالباً اسی کے بعد احسان نے ’’بن‘‘ کا لفظ نام سے نکال دیا اور نام احسان دانش ہوگیا۔