دوسرا ریفرنڈم ضروری ہے…؟

September 21, 2018

فکرفردا … راجہ اکبردادخان
انگریزی میڈیا سے جڑے رہنے والے اس بحث سے اچھی طرح واقف ہیں جو پچھلے ایک سال سے اس مسئلہ پہ چھڑی ہوئی ہے روزنامہ جنگ لندن میں خبریں اور کالمز بھی کسی دوسرے سے پیچھے نہیں۔ زیادہ نہ ہی سہی مگر مسئلہ کی اہمیت سے ہر کوئی معقول حد تک با خبر ہے۔ جون2015 جب اس ملک نے یورپین یونین سے نکل جانے کے حق میں ووٹ دے دیئے تو یہ فیصلہ آبادی کے بڑے حصہ کیلئے نہ ہی قابل قبول تھا اور نہ ہی قابل یقین۔ خیر جو ہونا تھا ہوگیا اور بالآخر مارچ 2016میں حکومت کو یورپین یونین کو ٓآئینی نوٹس دینا پڑا کہ برطانیہ مارچ 2019تک ای یو سے باہر ہوجائے گا۔ برطانیہ کا ای یو سے نکلنے کا فیصلہ پچھلی نصف صدی کے اہم ترین فیصلوں میں سے ایک ہے۔ عراق جنگ میں برطانوی شمولیت افغانستان پہ حملہ اور 70ء کی دہائی ای یو میں شمولیت کا فیصلہ اہم فیصلے ہیں جو بین الاقوامی تاریخ کے طالب علموں کیلئے دماغ سوزی کا سبب بنے رہیں گے۔
سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنا ایک انتہائی وعدہ پورا کرتے ہوئے اس مضبوط توقع کے ساتھ کہ وہ یہ ریفرنڈم جیت جائیں گے نے قوم کو موقع فراہم کیا کہ وہ فیصلہ کرلے کہ کیا ملک کو ای یو میں رہنا چاہئے یا باہر آجانا چاہئے۔ ریفرنڈم کمپین کیلئے اگرچہ معقول وقت موجود تھا۔ مگر بڑی پارٹیوں کو معاملہ پہ متفقہ نقطہ نظر تیار کرنے میں کافی وقت لگ گیا اور بحث و مباحثہ کیلئے تھوڑا وقت ہی بچ سکا۔ پچھلی دو دہائیوں پہ پھیلی نائیجل فراج کی پارٹی UKIP برطانیہ بھر میں اینٹی ای یو پوزیشن اختیار کرتے ہوئے اپنا ایک معقول انتخابی مقام بناچکی تھی۔ وہ نارتھ میں کئی کونسل سیٹیں جیت کر میدان میں اتر چکی تھی۔ ایک مرحلہ پہ اس جماعت نے ای یو پارلیمنٹ میں بھی نصف درجن سیٹیں حاصل کرلی تھیں۔ اس ہیجانی ماحول میں ٹوریز بھی دو واضح حصوں میں بٹ گئے اور آخری مراحل میں پاپولر ٹوری لیڈر بورس جانسن ایم پی نے NO کمپین کا حصہ بن کر تمام صورتحال کو دلچسپ بنا دیا۔ اس وقت کے تمام تجزیوں سے یہی واضح ہوا کہ NO کمپین کی جیت کی دو وجوہات تھیں۔ ایک یہ کہ باہر آجانے سے NHS کیلئے ہر سال بھاری رقوم کا اضافہ ہو جائے گا اور دوسرا بورس فیکٹر، برطانوی سیاست کا یہ عمران خان ملکی سطح کی سیاست میں ایک پرکشش شخصیت ہے وقت گزرنے کے ساتھ جونہی لندن متوقع میں موجود بڑے تھنک ٹینکس نے بریگزٹ کے متوقع اثرات کو غیر جذباتی ماحول میں پڑھنا اور تنقیدی نگاہ سے دیکھنا شروع کیا اور جیسے ہی مالیاتی ، قانونی اور معاشرتی حوالوں سے اس فیصلہ کے نقصان دہ اثرات سامنےآنے لگے پالیسی سازوں اور فیصلہ کنندگان کے رویوں میں تبدیلیاں ابھرنی شروع ہوگئیں جو ٹی وی پروگرامز اور اخبارات میں بحث کی شکل میں سامنے آنا شروع ہوگئیں۔ پارٹیوں کے اندر فیصلہ کو عملی جامہ پہنچانے کی حکمت عملی یہ کئی گروپ بن چکے ہیں۔ جن کے اندر جماعتوں کی تفریق نہیں بلکہ اتحاد اس بنیاد پہ ہیں کہ مکمل طور پہ باہر آجانا چاہے۔ ایک حد تک یورپین یونین کے ساتھ تعلق قائم رکھا جائے یا سویڈن اور ناروے کی طرح کا کوئی تعلق قائم کیا جائے۔ اب جبکہ حتمی فیصلہ کو صرف چھ ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں، ہر مقام گفتگو پہ یہی موضوع زیر بحث ہے کہ کیا آپشن اختیار کیا جائے جس سے ای یو سے لوگ بھی زیادہ نہ آسکیں اور ای یو سے تجارتی فوائد جو ہمیں اس وقت حاصل ہیں ان پہ بھی کوئی زد نہ آئے ؟ باہر آجانے کا مجارٹی فیصلہ بھی اہم اہمیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف قومی اقتصادی فوائد کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت کرنے میں مشکلات در پیش ہیں۔ اس کے اپنے تقریباً تین درجن ممبران پارلیمنٹ اس کے اپنے پلان جسے ’’چیکر پلان‘‘ کہا جارہا ہے کہ حق میں نہیں جگہ کی کمی اس پلان کی تفصیلات بیان کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے اور یہ ایک پیچیدہ پلان ہے۔ جس پہ عمل کرنے میں مشکلات ہوں گی۔ اگرچہ آخری آپشن کے طور پہ یہ پلان دوسرے آپشنز سے آگے ہے لیکن حکومت کو یقین نہیں کہ وہ اس بل کو پارلیمنٹ سے پاس کروا سکتی ہے۔ تاہم وہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے پوری طرح کوشاں ہے دونوں بڑی جماعتیں مختلف آپشنز میں بٹی ہوئی ہیں اور لگتا ہے کہ کسی ایک آپشن پہ اتنے ممبران پارلیمنٹ شاید اکٹھے نہ ہو سکیں کہ وہ بل دارالعوام سے پاس ہو جائے پارلیمنٹ کا دوسرا چیمبر (لارڈز) بھاری تعداد میں بریگزٹ کے خلاف ہے۔ اس لئے اگر لوئر ہائوس سے کوئی بل پاس ہو بھی جاتا ہے تب بھی ہائوس آف لارڈ اس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر مجموعی طور پہ ای یو کا حصہ رہنے کیلئے بھاری میجارٹی موجود ہے ایک اور آپشن کی برطانیہ ای یو کے ساتھ کوئی معاہدہ کیلئے بغیر باہر آجائے اور اس طرح اسے کوئی فیس نہیں دینی پڑےگی بھی سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ مگر کسی ’’ڈیل‘‘ کے بغیر ای یو سے باہر آجانا اندھیرے میں کود جانے کے مترادف ہے معاشیات اور بڑی حد تک سیاسیات نفع نقصان کا کھیل ہے اور پھر ملکی سیاست اور معیشت سے خواہشات کی بنیاد پہ فیصلے نہیں کئے جاسکتے یہ ایک کمزور آپشن ہے۔ پوری برطانوی سیاست آج اس گھتی کو سلجھانے میں مصروف ہے کہ کیا ہو جس سے زیادہ معاشی مشکلات بھی پیدا نہ ہوں اور ای یو مائیگریشن بھی کم ہو جائے ایسا Happy Mediumکیا ہے؟ طے نہیں ہو پا رہا۔ راقم کوئی آئینی ماہر نہیں لیکن یہ ضرور خیال کرتا ہوں کہ اس گمبھیر قومی مسئلہ سے جلد نمٹا جانا ضروری ہے No deal option بھاری تعداد کو ناقابل قبول ہے لیبر پارٹی اس مسئلہ پہ درست موقف اپنائے ہوئے ہے کہ برطانیہ کیلئے کسٹم یونین کا حصہ رہنا ملکی مفاد میں ہے اور یورپین لوگوں کی آمد و رفت پہ بات چیت کے ذریعہ معاملات طے کئے جاسکتے ہیں اور قوم جس Happy Medium کی تلاش میں ہے لیبر پوزیشن اس کے بہت قریب ہے۔ ٹوریز کی ایک معقول تعداد اس آپشن کو پسند نہیں کرتی اور مکمل تعلق ختم کرنے کیلئے خواہشمند ہے۔ لبرلز بھی ای یو سے باہر نہ نکلنے کے حامی ہیں۔ چند ماہ قبل ایک ٹی وی مباحثے کے دوران میں نے ایملی تھورنبری کیو سی ایم پی سے پوچھا کہ کیا حکومت ای یو کو دیا گیا نوٹس واپس لے سکتی جس کے تحت ہم باہرنکل رہے ہیں؟ اور تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد کہنے لگیں۔ ’’میں کچھ نہیں کہہ سکتی‘‘ یقیناً حکومتی وکلا اس حوالہ سے سوچ بچار کررہے ہوں گے ای یو سے باہر آجانے کا فیصلہ کسی بڑے مارجن سے نہیں ہوا تھا لگتا ہے قوم سے ایک غلط فیصلہ ہوگیا ہے اور جب اس فیصلہ کو بدلنے کیلئے مواقع اور جواز موجود ہیں تو اسے ملکی مفاد میں بدلنے کی کوششیں نہ کرنا غیرجمہوری اور مفاد عامہ کے منافی روش ہوگی۔ مجھے 4% میجارٹی کے خیالات کا مکمل احترام ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اب جبکہ معاشی مطلع زیادہ واضح ہوچکا ہے No ووٹ دینے والے بھی خواہشمند ہوں کہ انہیں دوبارہ رائے دینے کا موقع ملنا چاہئے۔ افراد سے غلطیاں ہونا بشریت کے عین مطابق ہے۔ اتنے اہم مسئلہ پہ ایک بار پھر رائے لے لینا جمہوریت اور سوچ سمجھ کہ فیصلہ کرنے کی عادتوں کیلئے اچھی روایت ہوگی۔ حکومت کو دوسرے ریفرنڈم کی طرف بڑھنے سے ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ یہ درمیانی راستہ اختیار کرتے ہوئے وہ کسی نئے الیکشن سے بچ سکتی ہے۔ الیکشن کی صورت میں لیبر جیت سکتی ہے۔ دوسرے ریفرنڈم کو عوام کے سامنے ایک ’’کمپرومائز‘‘ فارمولا کے طور پہ پیش کیا جانا چاہئے۔ جس سے وقتی غیریقینی بھی ختم ہو جائے گی۔ فناننشل مارکٹس اور سٹاک ایکسچینج میں کسی حد تک استحکام پیدا ہو جائے گا کہ اگلے فیصلہ تک تو سکون کے ساتھ کام کرلیں۔ یہ سب کچھ معیشت کیلئے اچھا ہوگا۔ اگلے ریفرنڈم تک پہنچ چھ ماہ گزر جائیں گے۔ معیشت زیادہ خراب پوزیشن میں نہیں اور بہتریوں کے اشارے مل رہے ہیں۔ ان تمام اسباب کی موجودگی میں ایک بھرپور ریفرنڈم کمپین قوم کے سامنے تمام معاشی اور معاشرتی حالات مکمل طور پہ کھول کر رکھ دے گا جس کے نتیجہ میں اس حوالہ سے ایک واضح فیصلہ سامنے آجائے گا۔ ہمارے بھی کیا کہنے دنیا اقتصادی اور سیاسی اتحادی تلاش کرتی پھرتی ہے اور ہم نے ایک بڑے تجارتی اور سیاسی بلاک سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اللہ ہم پہ مہربان رہے۔