پیسہ بچائیے کل کام آئے گا

September 24, 2018

آپ کی جو بھی آمدن ہو، پیسہ بچانا لازمی عادت ہونی چاہیے،کیونکہ مشکل گھڑی کبھی پوچھ کر نہیں آتی۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ جمع شدہ رقم زندگی بھر کے اخراجات کے لیے کافی ہے تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ لاکھوں کی رقم یوں چلی جاتی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا۔ اس کے علاوہ لاکھوں کمانے کے باوجود امیر شخصیات کو بھی مالی تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے کچھ دن قبل فیس بک کے بانی مارک زکربرگ کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوگیا۔ ہالی ووڈ اداکار جانی ڈیپ اپنے دوست کی خواہش پوری کرنے کےلیے3ملین ڈالر گنوابیٹھے۔ ایسے اے لسٹ اداکاروں، موسیقاروں ، کھلاڑیوں کی طویل فہرست ہے جو اپنی شاندار طرزِ زندگی اور شاہ خرچیوں کے باعث کنگال ہوگئے۔

ہمیں ان سیلیبرٹیر کی شاہ خرچیوں پر کوئی اعتراض نہیں لیکن کچھ رقم بچاکر بھی رکھنی چاہیے تاکہ مشکل وقت میںکام آسکے۔ ذرا ہالی ووڈ اسٹارٹوری اسپیلنگ کو ہی دیکھیے کہ35ہزار ڈالر سے زائد قابل ادائیگی رقم کی ٹیکس نادہندہ ہونے کے باعث عدالت نے ان پرجرمانہ عائد کیا۔ ایک اور مثال80کی دہائی کے فلم اسٹارکوری ہائم ہیں، جنہوں نے150ڈالر میں اپنا دانت بیچنے کی کوشش کی۔ اس قسم کی صورت حال سے بچنے کے لیے بھلے سے آپ روزانہ10روپے رکھ کر بھول جائیں، پیسہ بچانے کے لیے آپ کو محفوظ اور ذمہ دارانہ’پیسے کی انتظام کاری‘(منی مینجمنٹ) کا ہنر لازماً سیکھنا ہوگا۔

منی مینجمنٹ اور پلاننگ

ہم میں سے بہت لوگ یہ سمجھتے ہوں گے کہ آمدنی کے محدود وسائل میں بچت کی بات کرنا فضول ہے اور جس مغرب کی بات کی جاتی ہے وہاں آمدن و اخراجات کا توازن درست ہے۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں اخراجات30ہزار ہیںتو آمدن صرف 20ہزار۔ مگر ہم ایسے قارئین کو بتانا چاہتے ہیں کہ امریکا جسے آپ دنیا کا سب سے خوشحال ملک سمجھتے ہیں وہ بھی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ تین تہائی امریکی معاشی پریشانیوں کے باعث بے خوابی کا شکار ہیں۔ بغیر کسی منصوبہ بندی کے بھلے سے آپ زندگی میں ایک بار ہی زائد اخراجات کریں مگراس کا خمیازہ برسوں اور کبھی کبھار تو تاعمر بھگتا پڑتا ہے۔ اس لیے اپنی حیثیت کے مطابق اپنا بجٹ بنائیے اور کسی بھی لگژری آئٹم کی خریداری سے گریز کرتے ہوئے اپنے بینک اکاؤنٹ میں ایک مخصوص رقم رکھیں۔ اس مقصد کے لیے آپ بچت کرنے کی ایپ کا استعمال کرکے خود کو مینیج کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنے گوگل دوست سے پیسے کی انتظام کاری کا مکمل ہنر سیکھ سکتے ہیں۔آج کل کے دور میںپیسے بچانے کی سب سے بہترین منصوبہ بندی فری لانسنگ ہے، ملازمت میں تو ایک مہینے بعد تنخواہ ملتی ہے مگر فری لانسنگ میںآپ روزانہ دہاڑی اور ہفتہ وار رقوم حاصل کرسکتے ہیں۔ اس رقم کو آپ روزمرہ کے ضروری اخراجات میں استعمال کرکے اپنی تنخواہ کا بہت بڑا حصہ بچا کر خود کو مالیاتی طور پر مستحکم کر سکتے ہیں۔ اس میں بھی آپ کو منی مینجمنٹ کی طرح خود میں ٹائم مینجمنٹ کی قابلیت پیدا کرنی ہوگی۔

وقت کی انتظام کاری (ٹائم مینجمنٹ)

بروقت کسی تقریب میں جانا،اپنی ترجیحات کا تعین کرنا،آن لائن یا فری لانس کام کو سنجیدگی سے لینا، ڈیڈ لائن کو پانا، وقت کو ترجیحات کے مطابق تقسیم کرنا، یہ سب ’وقت کی انتظام کاری‘ یعنی ٹائم مینجمنٹ کے ضمن میں آتا ہے۔ اس کا سلیقہ بھی آپ اپنے احباب اور استادسے حاصل کرسکتے ہیں کہ کیسے وقت کو مختلف کاموں کی انجام دہی کےلیے خانوں میں بانٹ کر بہتر کارکردگی دکھائی جاسکتی ہے۔ کبھی آپ نے کائنات کے نظام پر غور کیا ہے کہ کس نظم و ضبط سے یہ سیارے گردش کرتے ہیں یا پرندے شام کو اپنے گھونسلوں میں پناہ لیتے ہیں؟ہر کام میں ایک ترتیب ہوتی ہےلیکن ہم میں سے اکثر ٹائم مینجمنٹ نہیں کرپاتے اور ہوش میں اس وقت آتے ہیں جب نقصان ہوچکا ہوتا ہے۔ اگر ہم مارکیٹ میں کام کرنا چاہتے ہیں تو اس میں ہماری مرضی نہیں چلتی۔یہ کام بھی باقاعدہ ملازمت کی طرح نظم و ضبط کا متقاضی ہے۔اس نظم و ضبط کا سب سے شاندار فائدہ آپ کو یہ ملتا ہے کہ مارکیٹ میں آپ کی ساکھ بہتر ہوتی ہے اور بروقت کام کردینے سے دوسرے ادارے بھی مستقل بنیادوں پر آپ کی خدمات حاصل کرتے ہیں، یہ آمدنی آپ کے لیے ایک امید اور ڈھارس بھی بن جاتی ہے۔ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے کہ تیار حلوہ پلیٹ میں مل جائے اور ہپ ہپ کرکے کھالیں! ایسا نہیں ہوتا۔ ضرورت آپ کی ہے تو نکلنا بھی آپ نے ہی ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ کام فوری طور پر مل جائے۔100ناکامیوں کے بعد ایک کامیابی ملتی ہے، جو آپ کی ٹائم مینجمنٹ سے دیرپا ہوسکتی ہے۔

مالیاتی مشیروں کی خدمات حاصل کیجیے

ہم میں سے اکثر لوگ فیصلہ سازی کے لیے خود کو سب سے زیادہ اسمارٹ سمجھتے ہیں اور اپنی قابلیت پر اتنا بھروساکرتے ہیں کہ کسی سے مشورہ لینے کے باوجود کرتے وہی ہیں جو اپنے من میں آئے۔ زیادہ تر خواتین و حضرات دوسروں کی بات غور سے نہیں سنتے، فوراًاچک کر اپنی بات کہنا شروع ہو جاتے ہیں اور سامنے والے کی بڑی سے بڑی بات بھی ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہے۔ آج آپ دنیا کے جن کامیاب لوگوں کے نام سنتے ہیں انہوں نے اپنی کامیابی اور پیسے کو بچانے کے مشورے اپنےفنانشل ایڈوائزر سے لیے اور صرف مشورے ہی نہیں بلکہ ان کی دی گئی ہدایات پر عمل کرکے معاشی طور پر اتنے خود کفیل ہوگئے کہ بڑے سے بڑا نقصان بھی ان کے حوصلوں کو پست نہیں کر سکا۔ یاد رکھیے اگر انسان اپنی ہی ذات میں حرف کل ہوتا تو ہمیں کبھی اساتذہ، مدبروں اور رہنماؤں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ نہ ہی ہم کتابیں پڑھ کر زندگی کے مختلف رنگوں، ہنر اور قابلیت سے روشناس ہوتے۔