کائنات کا گُم شُدہ مادہ مل گیا

September 25, 2018

حذیفہ احمد

ماہرین فلکیات نے اپنی ایک تحقیق میں یہ دعوی کیا ہے کہ انہوں نے کائنات میں مو جود گم شدہ مادّے کا سر اغ لگا یا ہے ۔اس تحقیق کے معاون مصنف اور یونیورسٹی آف کولوراڈو سے منسلک فلکیات دان مائیکل شل ہیں ۔واضح رہے کہ کائنات میں موجود تمام سیارو ں ،ستاورں اور کہکشائوں کے ایٹمز کائنات کے مادّے وتوانائی کی کل کثافت کا صرف 5 فی صد ہیں ۔اس عمومی مادے کو ’’آرڈنری میٹر ‘‘(ordinary matter ) بھی کہا جاتاہے ۔ماہرین فلکیات کے مطابق تاریک توانائی (dark energy) کے سامنے ہیچ ہے ۔کائنات کا 70 فی صد تاریک توانائی پر مشتمل ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسی پراسرار توانائی ہے ،جس کی وجہ سے کائنات مسلسل تیزی سے پھیل رہی ہے ۔یوں عمومی مادّہ اور تاریک توانائی کل ملا کر کائنات کا 75 فی صد بنتے ہیں ۔باقی 25 فی صد تاریک مادّہ یعنی ڈارک میٹر پر مشتمل ہے ،جس سے ماہرین ابھی پوری طرح واقف نہیں ہیں ،کیوں کہ یہ ایک ایسا مادّہ ہے جو کہ مکمل طور پر مخفی اور گیر مرئی خصوصیات کا حامل ہے ۔اسے صرف کہکشانی پیمانے پر کشش ثقل کی مدد سے اثر اندازہونے کی وجہ سے محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ تا حال اسے معلوم کرنے کا کوئی بھی سائنسی طر یقہ دریافت نہیں ہوا ہے۔یہ تاریکی مادّہ کائنات کو تشکیل دینے والی ان تینوں مقداروں یعنی عمومی مادّہ ،تاریک مادّہ اور تاریک توانائی کی پیمائش کے لیے بنیادی طور پر دو طر یقوں کا استعمال کرتے ہیں ۔چند سال قبل ماہرین نے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ بگ بینگ کے بعد کائنات کی تخلیق کے وقت کل کتنا مادّہ وجود میں آیا ہوگا ۔اس کے ساتھ ماہرین فلکیات نے’’کونیاتی اشعاعی پس منظر ‘‘ (کائنات میں موجود قدیم ترین روشنی جو ہر طرف نفوذ پزیر ہے )پر بھی تحقیق کی ،جس کے نتیجے میں عمومی تاریک مادّے اور تاریک توانائی کے بارے میں درست اندازہ لگانے میں کام یاب ہوئے ۔

ان تینوں مقداروں میں سے بیریون (ایک سب اٹامک ذرہ جو مادّے کی تشکیل میں اہم کر دار ادا کرتا ہے )سب سے زیادہ قابل پیمائش مادّہ ہے ۔یہ مادّہ روشنی بھی خارج کرتا ہے۔ان خصوصیات کی وجہ سے اس مادّے کو دور بین سےبآسانی شناخت کیا جاسکتا ہے ۔ماہرین کے مطابق کائنات میں موجود تمام قابل مشاہدہ روشنی ،روشنی کے ماخذ اور اس کے عکاس مادّے کو یکجا کریں تب بھی یہ عمومی مادّے کا صرف 10 فی صد ہے ۔باقی 90 فی صد گم شدہ ہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ عمومی ہونے کے باوجود یہ گم شدہ مادّہ کہاں ہے اور کس حالت میں ہے ؟اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے سائنس داں کئی عر صے سے پریشان تھے ۔

اس تحقیق کے معاون مصنف کے مطابق یہ کونیات کا ایک ایسا حل طلب سوال تھا، جس نے بگ بینگ نظریے کی پیش گوئیوں پر بھی سوال اُٹھا ئےتھے۔ا ن کا مزید کہنا تھا اس بات کا اندازہ پہلے ہی ہو گیا تھا کہ گم شدہ مادّہ ہائیڈروجن پر مشتمل ہو گا ۔ہائیڈروجن کائنات میں وافر مقدار میں پایا جانے والا اورسادہ عنصر ہے ۔اس کے ایٹم ’’آئن سازی ‘‘ کے بعد بصری طول موج پر دکھائی نہیں دیتے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ پوشیدہ حالت میں آجاتے ہیں اور انہیں شناخت کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے ۔اگر ہائیڈروجن کے گیسی بادل زمین اور بالائے بنفشی روشنی کا اخراج کرنے والے منبع کے درمیان حائل ہوں تو یہ ہائیڈروجن مخصوص موج کو جذب کرلیتی ہے ۔ا س طر ح ماہرین فلکیات اس کے کیمیائی فنگر پرنٹ بآسانی شناخت کر سکتے ہیں ۔ لیکن جیسے جیسے اس کا در جہ ٔ حرارت بڑھتا جائے گا تو ہائیڈروجن کی بالائے بنفشی شعاعوں پر شناخت یعنی اس کے فنگر پرنٹس ملنا بھی ناممکن ہو جا تاہے ۔

اس مقصد کے لیے ماہرین نےیورپی خلائی ایجنسی کی ایکس رے دوربین کااستعمال کرتے ہوئے کہکشاں کے وسط میں موجود BL- LacerTae نامی بہت بڑے کوآسار کا مشاہدہ کیا۔کو آسار بلیک ہولز رکھنے والے مادّے کو بڑی تیزی سے ہڑپ جاتے ہیں ۔اسی بناء پر یہ ایکس شعاعوں سے لے کر ریڈیائی شعاعوں تک مختلف طول موج کی حامل روشنی کو بہت بڑی مقدار میں خارج کرتے ہیں ۔یوں یہ ایک ایسے فلکی لائٹ ہائوس کی شکل اختیار کر جاتے ہیں جو بیم کے راستے میں آنے والے مادّے کو نمایاں کرتا ہے ۔

ایکس رے دوربین کے ذریعے کوآسار کی روشنی سے آکسیجن کے کیمیائی فنگر پرنٹ تلاش کرنے کے دوران ماہرین نے بین الکہکشانی Intergalactic گیس کی بہت بڑی مقدار بھی دریافت کر لی۔ یہ مقدار اتنی بڑی تھی کہ کائناتی پیمانے پر بیشیائی مادّے کے 40 فی صد پر مشتمل تھی۔ یوں ہم کہ سکتے ہیں کہ تحقیقاتی ٹیم نے عمومی مادّے کی گم شدہ مقدار بھی دریافت کر لی ہے۔سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ آئنی ایٹمز سپرنووا کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں اور پھر ستارے کی موت کے وقت ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں اپنی کہکشاؤں سے نکل کرپوری کائنات میں پھیل جاتے ہیں۔